آہا! بس ایک خط

پچھلے چند دنوں سے میں اپنی ذاتی مصروفیات( نئی بلڈنگ تعمیر کرارہا تھا) جس کی وجہ سے کالم لکھنے کا ٹائم نہیں مل رہا تھا۔ اس دوران چند دوستوں نے فون کیا اور نیا کالم نہ آنے کی وجہ دریافت کی تو انہیں میں نے اپنی مصروفیات کا بتایا۔ آج فرصت ملی تو قلم اٹھایااور کالم لکھنے کے لیے حالات حاضرہ پر نظر دوڑائی تو ذہن میں بہت سے موضوعات آئے مگر دل نے ایک موضوع کو چاہا اور وہ موضوع ہے انسانیت۔
 
انسان بھی کیا ہے؟ انسان کے روپ میں فرشتے بھی ہیں اور شیطان بھی۔ اگر شیطان صفت انسانوں کو دیکھیں تو دنیا بہت بری لگتی ہے اور اگر فرشتہ صفت انسانوں کو دیکھا جائے تو یہی دنیا جنت نظر آتی ہے۔ انسان جوکچھ کرتا ہے اپنے مطلب کے لیے کرتا ہے ۔وہ کام کرتا ہے جس میں اس کا مفاد ہو۔کچھ انسانوں کی فطرت میں لالچ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہوتا ہے۔ وہ اپنی غرض کے لیے وہ کام بھی کرجاتا ہے جو نہیں کرناچاہئے۔ مجھے کسی کے مذہب کا نہیں پتا مگر میرا مذہب اسلام تو یہی کہتا ہے کہ اگر اپنے رب کو خوش کرنا ہے تو دوسروں کے کام آؤ۔ہمارے آقا ئے دوجہاں حضرت محمد ﷺ ہمیشہ دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے اور ہمیں بھی دوسروں کی مدد کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے والے کو اﷲ اور اس کے رسول پسند فرماتے ہیں۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ پچھلے چودہ سال سے پاکستان کی ایک بیٹی امریکہ کی جیل میں وہ سزا کاٹ رہی ہے جس کا اس نے جرم بھی نہیں کیا۔دکھ تویہ ہے کہ ہم لوگ اس معاملے میں یاتوبے حس ہوگئے ہیں یا پھر اپنی بیٹی کو بھول گئے ہیں۔ پرنٹ اور سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی اﷲ کا بندہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی آواز اٹھا تارہا ہے۔ شروع شروع میں توچند سماجی و سیاسی تنظیموں اور بہت سی این جی اوز نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے صدا بلند کی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی صدا ایسے بیٹھتی گئی جیسے گر د بیٹھ جاتی ہے ۔

امریکی صدر اوبامہ کی مدت صدارت ختم ہونے چند دن پہلے ایک بار پھر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے متعلق آواز بلند ہوئیں۔ کچھ کالمسٹ بھائیوں اوربالخصوص جماعت اسلام کے امیر سراج الحق صاحب نے سوئی ہوئی قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑا ۔ حاکم وقت کوکچھ یاد بھی کرایا ہے اب دیکھنا باقی ہے کہ ہماری اس بیٹی ، بہن کے لیے کون سر سے کفن باندھ کر نکلتا ہے؟کون محمد بن قاسم کا کردار اداکرتے ہوئے اپنی اس غیر ت کو واپس لائے گا؟ویسے تو سینٹ کے اجلاس میں سراج الحق صاحب نے بڑی آواز بلندکی ہے انہوں نے کہا کہ ’’ڈاکٹر عافیہ کی رہائی میرا یا ایک جماعت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور بیس کروڑ عوام کی عزت کا مسئلہ ہے‘‘۔میں امیر جماعت کی بات سے سو فیصد متفق ہوں مگر جب مسئلے حل کرنے والے مسئلے حل نہ کریں تو وہ جوں کے توں برقرار رہتے ہیں۔

پچھلے دنوں میری ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے لاہور میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایاکہ پہلے ڈاکٹر عافیہ سے ٹیلی فونک رابطہ ہوجاتا تھا مگر اب کافی عرصہ سے ان سے کوئی رابطہ نہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے محنت کسی سے پوشیدہ نہیں۔انہیں جہاں بھی موقع ملا انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے آواز بلند کی۔

ڈاکٹر عافیہ کے وکلا نے بتایا ہے کہ اب تک وہاں کی عدالتوں میں ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ کلائیمنسی ایکٹ کے تحت اوباما کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس کو رہا کرسکتا ہے۔اسی وجہ سے موجودہ وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو خط لکھا تھا کہ ریاست اور حکومت امریکہ سے ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے کا مطالبہ کرے ۔ 2013کے الیکشن سے قبل موجودہ وزیر اعظم ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ سے ملنے کراچی گئے تھے اور انہوں نے وہاں جاکر یہ وعدہ کیا تھا کہ میں اقتدار میں آیا تو پہلے سو دنوں میں اپنی کوششوں کے نتیجے میں ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان لاؤں گا۔

معیاد مدت ختم ہونے سے پہلے اوباما کی ڈیسک پر دو لسٹیں موجود تھیں۔ ایک ان قیدیوں کی ہے جو بلیک لسٹ اور وہ کسی صورت انہیں رہا نہیں کرنا چاہتے اور ایک ان لوگوں کا ہے جن کو رہائی مل سکتی ہے۔ تو ڈاکٹر عافیہ کا نام اس فہرست میں ہے جن کو رہائی مل سکتی ہے۔ ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی حکومت امریکہ اور اوباما انتظامیہ کیساتھ20جنوری سے پہلے رابطہ کرے کیونکہ بیس جنوری کو نومنتخب صدرٹرمپ حلف لے گا اور اس کی اپنی پالیسی ہوگی اور ایک نئی صورت حال بنے گی۔

اس وقت ڈاکٹر عافیہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا ہے۔ وہ قرآن کریم کی حافظہ ہے۔20جنوری سے پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے روشن امکانات موجود تھے لیکن حکومت پاکستان نے خط نہ لکھ کر یہ نادر موقع ضائع کردیا۔ اوراب امریکہ میں اس شخص کی حکمرانی آگئی جو خود مسلمانوں کے شدید خلاف ہے۔ اب ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنی رہائی کے لیے ایک بار پھر کسی محمد بن قاسم کی منتظر رہے گی۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ پاکستان کی عوام نے وہ آواز نہیں اٹھائی جس کی اس وقت اشد ضرورت تھی۔ اﷲ نہ کرے کہ وہ لمحہ آئے کہ ان کو وہاں جیل میں کچھ ہوجائے توپھر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 210937 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.