غیر منقسم ہند وستان میں انگریزی دور حکومت
میں مسلمانوں پر جس طرح علمی و عملی زوال آیا وہ اپنے اندر ایک الگ کر بناک
کی داستان لیے ہوئے ہیں ۔اُس دور میں کچھ ایسی فضائے ہموار کی گئی کہ عوام
الناس کا تعلق اہل علم حضرات سے دھیرے دھیرے کٹتا گیا اور عوام الناس کی
فکری اور تعمیری ذہن پر اسلامی رنگ کے بجاے مغربی سیاہ بادل چھانے لگے ،جس
سے مسلمانوں میں ایسا زبردست فکری انحطاط آیا کہ خود مسلمانوں نے دائرہ
اسلام جو کہ معہد سے لیکر لحد تک ساری زندگی پر محیط تھا سمیٹ کر صرف نماز
،روزہ تک محدود کرلیا اور وہ شعائر جو مسلمانوں کے دین و تشخص کا نشان تھے
بتدریج دھندلے ہوتے چلے گئے ،جب اس فکری انحطاط کی وجہ سے اسلام کو محدود
کردیا گیا تو حکومتی نظام ایسے لوگوں کی وراثت سمجھا جانے لگا جن کو دور
دور تک اسلام کی سوجھ بوجھ بھی نہ تھی اور خود مسلمانوں کی اکثریت اس بارے
میں لا علم تھی کہ اسلام نے حکومتی نظام کیلئے ہمیں کیا لائحہ عمل دیاہے ۔اس
بے فکری ولاعلمی کی بدولت مسلمانوں کی رغبت،جمہوریت،سوشکزم،کیمونزم وغیرہ
جیسے لادینی نظام ہائے حکومت کی طرف ہوگئی۔
آج کی دنیا میں جو سیاسی نظام عملا قائم ہیں ان کے پیش کئے ہوئے تصورات
لوگو ں کے دل ودماغ پر اس طرح چھائے ہوئے ہیں کہ ان کے اثرات سے اپنی سوچ
کو آذاد کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے ،ان سیاسی نظاموں نے کچھ چیزوں کو اچھا اور
کچھ کو برا قرار دیکر اپنے نظریات کا پروپیگنڈا اتنی شدت کے ساتھ کیا ہے کہ
لوگ اس کے خلاف کچھ کہنے یا کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔اوّل تو اس لئے
کہ پروپیگنڈے کی مہیب طاقتوں نے ذہن ایسے بنادیے ہیں کہ انہوں نے ان نظریات
کو ایک مسلم سچائی کے طور پر قبول کرلیا ہے۔اور دوسرا اس لئے کہ اگر کوئی
شخص عقلی طور ان نظریات سے اختلاف بھی رکھتا ہو توان کے خلاف بولنا دنیا
یھر کی ملامت اور طعن وتشنع کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔لہذاوہ خاموشی میں
ہی عافیت سمجھتا ہے۔
بدقسمتی سے دور حاضر کے بعض مفکرین اور مصنفین جنہو ں نے سیکولرازم کی تر
دید میں کام کیا ہے ،تردید کے جوش میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے
سیاست اور حکومت کو اسلام کا مقصود اصلی ،اسکا حقیقی نصب العین اور بعثت
انبیاء ؑکا مطمح نظر بلکہ انسان کی تخلیق کا اصل ہدف قرار دے دیااور اسلام
کے دوسرے احکام مثلا عبادات وغیرہ کو نہ صرف ثانوی حیثیت دی ،بلکہ انہیں اس
مقصود اصلی یعنی سیاست کے حصوں کا ایک ذریعہ اور اسکی تربیت کا ایک طریقہ
کار بنادیا ،سوشل میڈیا ہویا الیکٹرونک میڈیا،جرائید ہویا اخبارات،ٹی وی
ہویا ریڈیو ،غرض جہاں پربھی نظریں اٹھا کر دیکھیں جائیں اسلام کو پست کرنے
والے صف اوّل میں نظر آئینگے ، حالانکہ اسلام کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے کہ
وہ اسے جب چاہے جہاں چاہے اور جس طرح چاہے استعمال کریں۔نہیں بلکہ اسلام
ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔
لیکن اب دور حاضر میں ضرورت ہے ایک ایسے درد مند دل رکھنے والے رہنما کی کہ
وہ اپنی بساط کی حد تک اپنے حلقہ میں نفاذ اسلام جمہوریت کے لئے اقدامات
کرئے آئیے بارگاہ الہی میں سرخرو سجدہ ہوکر ملک پاکستان میں اسلامی نظام
اور اسکی حفاظت وترجیع کے لئے دعایئں مانگیں۔ربّ لم یزل ہم پر اور ہمارے
وطن عزیز پر اپنی خاص نعمتوں کا نزول جاری وساری فرمائے(آمین)
|