ترقی و کامرانی اسلحے کے ڈھیر سے نہیں امن کے پھول سے

بھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے اور اسی سلسلے میں بھارت نے گزشتہ روز اپنا یوم جمہوریہ منایا اس کے بر عکس اس کے ظلم و جبر کا شکار کشمیریوں نے یوم سیاہ منایا جس کے منانے کا مقصد عالمی برادری کو یہ بتانا اور سمجھانا ہے کہ بھارت ناصرف خطے بلکہ عالمی دنیاکے لئے بھی ایک مشکل صورت حال کسی بھی وقت پیدا کر سکتا ہے عالمی برادری بھی یہ بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو سب سے بنیادی وجہ دشمنی کی ہے وہ مسئلہ کشمیر ہے جس سے کوئی بھی ملک دستبردار نہیں ہو سکتااس مسئلے کو عالمی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کھبی بھی اس خطے میں جنگ ہوئی تو وہ اسی مسئلے کو جواز بنا کر ہوئی اور اگر عالمی برادری نے اس کے حل کے لئے اپنا کردار ادا نہ کیا تو خدانخواستہ کھبی بھی خطے میں ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے اس خطے کی تعمیر اورترقی کے لئے کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کا حل ضروری ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پر بھارت نے سب سے پہلے اس مسئلے کو اٹھایا تھا اورشاید وہاں پر ہی وہ قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں کشمیر یوں کو ان کی امنگوں کے مطابق فیصلے کا اختیار دینے کی بات کی گئی بھارت ایک طرف تو مذاکرات کی بات کرتا ہے دوسری طرف وہ اس اہم مسئلے پر پاکستان سے بات چیت کا سلسلہ شروع نہ کر کے اور اشتعال انگیز بیانات سے ماحول خراب اور کشمیری عوام کے جائز حقوق دبانے کی کوشش کررہا ہے تما م عالم اسلام مسئلہ کشمیر کا کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل چاہتے ہیں کشمیریوں کو آزادی شفاف اور غیر جانبدار استصواب کا حق اقوام متحدہ نے دیا ہے لیکن تاحال اقوام متحدہ کشمیریوں سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کر سکی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے پاکستان نے کئی بار مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت کو بات چیت کی دعوت دی لیکن اس نے اس کا موثر جواب نہیں دیا پاکستان اور بھارت سمیت کشمیر کے مسلمان بھی اس بات کی منتظر ہے کہ اقوام متحدہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ان معاملات کو حل کرنے کیلئے اپنی دیرینہ ذمہ داری ادا کرے گی۔دوسری طرف پرامن ہمسائیگی پاکستان کی اولین ترجیح ہے خطے میں پائیدار امن و سلامتی اورخطے میں امن اور ترقی جنوبی ایشیا ء کے عوام کے مفاد میں ہے کیونکہ عوامی بہبود معاشی ترقی سے ہی ممکن ہے مسائل کے حل اور تعاون کے بغیر علاقائی ترقی کا ہدف حاصل نہیں ہو سکتا حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک اس وقت معاشی استحکام اور سلامتی کو مضبوط بنانے کیلئے نئے دور سے گزر رہے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ تصادم محاذ آرائی اور اسلحہ کے ڈھیر انسانوں کی ترقی اور خوشحالی کے دشمن ہیں غربت کے خاتمے اور انسانوں کو ایک باوقار زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے لازم ہے کہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور ایک دوسرے کے تجربات مہارتوں اور کامیابیوں سے استفادہ کیا جائے یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین نے سی پیک کے تحت مل کر کام شروع کیا ہے جبکہ روس ،ایران ، سمیت بعض دیگر ممالک بھی سی پیک میں مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں اور دل بڑا کرتے ہوئے پاکستان نے بھارت کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گویا اس نے بھارت کی عوام کو غربت پسماندگی سے نکالنے کے لئے پہلا قدم بڑھا دیا ہے اب بھارت کے حکمرانوں نے یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر پاکستان ان کو اس بڑے منصوبے میں شامل کرنے کا خواہش مند ہے تو گویا وہ اسے خطے میں اہم ملک سمجھتا ہے اس تناظر میں دانشمندی یہی ہے کہ بھارت بھی روایتی انتہا پسندانہ روش کو ترک کر کے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اچھی ہمسائیگی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اپنے حصے کا کردار ادا کرے اور اپنی عوام کو غربت پسماندگی اور دیگر معاشی مسائل نے نکالے اور بھارت کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلحہ کے ذخائر ملکوں کو متحد اور مضبوط نہیں بناتے بلکہ معاشی استحکام سے ہی ملک مضبوط اور عوام مطمئن ہوتے ہیں اگر ایٹمی اسلحہ کے ذریعے ملک مضبوط ہوتے تو سوویت یونین ہرگز نہ ٹوٹتانہ ہوتا اسے کسی دوسری طاقت نے نہیں توڑا بلکہ اس کے معاشی مسائل اور عوام کی محرومیوں نے توڑا ہے اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں کے عوام یکساں مسائل سے دوچار ہیں غربت پسماندگی اور معاشی محرومی دونوں کے عوام کا مسئلہ ہے کرپشن بدانتظامی اور دشمنی نے دونوں کو خوشحالی سے دور کر رکھا ہے کشمیر سمیت بعض دیگر مسائل نے دونوں کی خوشحالی کو یرغمال بنا رکھا ہے اربوں ڈالر جو دونوں ملکوں کے عوام کی بہتری کیلئے خرچ ہونے چاہیں کشیدگی اور تصادم کی نذر ہو رہے ہیں اس صورتحال کو ہرگز دانشمندانہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ آج اس بات کی اشد ضروت ہے کہ بھارت کے حکمران اپنے ایجنڈے میں پاکستان دشمنی نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تمام مسائل کو مذاکرات کی میز پر حل کریں تاکہ جنگ کے بجائے امن کی بات کر کے ان تما م وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑا جائے جو جنگی جنون پر خرچ ہو رہے ہیں۔ اور یہ بات عالمی برادری بھی سمجھ چکی ہے کہ خطے میں امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیراور خطے میں ترقی اسلحے کے ڈھیر سے نہیں امن کے پھولوں سے ہی آئے گی اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت ظلم و جبر کے بجائے کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے جس کا وعدہ وہ اقوام متحدہ میں کر کے آیاہے
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206245 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More