یوم جمہوریہ کی رات اپنے پیغام میں صدر مملکت پرنب مکرجی
نے قوم سے خطاب کرتے ہیں ۔ صدر مملکت کی حیثیت سے جناب پرنب مکرجی کا یہ
آخری سال ہونے کے سبب الوداعی جمہوری خطاب تھا۔ اس بات کا امکان ناپید ہے
کہ ان کی مدت ِکار میں اضافہ ہو اس لئے اس بار انہوں نے قوم کے سامنے اپنا
دل کھول کر رکھ دیا ۔ اپنے صدارتی خطاب میں وہ بولے ’’ ہمارے پاس ۱۵ اگست
۱۹۴۷ کو حکومت کرنے کیلئے ہمارا اپنا طریقۂ کارنہیں تھا۔ہم نے ۲۶ جنوری
۱۹۵۰ تک انتظار کیا اور ہندوستان کی عوام نے اپنے کو ایک دستور دیا اور اس
کے ذریعہ تمام شہریوں نے انصاف ، آزادی اور مساوات اور جنسی و معاشی
برابری حاصل کرلی۔ ہم نے افراد کیلئے اخوت و وقار اور قومی سطح پر اتحاد و
ہم آہنگی کے فروغ کا عہد کیا۔ اس دن ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بن گئے
۔اسغیر مستحکم خطے میں ہندوستانی جمہوریت ایک نخلستان کی مانند ہے۔ ‘‘ یہی
وجہ ہے کہ بڑے طمطراق سے ہر سال ۲۶ جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔
اس قومی تہوار کا براہِ راست تعلق دستورِ ہند اور اس میں تجویزکردہ شہریوں
کے حقوق سے ہے۔ صدر جمہوریہ نے اپنی تقریر میں کہا’’ہم ایک پرشور جمہوریت
ہیں اور ہمیں اس کی مزید ضرورت ہے ‘‘۔ جمہوریت کے طفیل عوام کی بے چینی
دستور کو لاحق خطرات کے پیش نظر ہے تاہم اس موقع پریہ جائزہ لینا ضروری
معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا شور شرابہ دستوری اقدار کو بحال کررہا ہے یا پامال
۔ جلی کٹو کے حالیہ تنازع کی مثال اس کاکام سہل بنادیتی ہے۔ صدر محترم کا
یہ انتباہ بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ’’ہماری گنگا جمنی تہذیب اور
رواداری کو مفاد پرستوں کی جانب سے خطرہ لاحق ہے‘‘۔ اس لئے کہ بدقسمتی سے
وہی مفاد پرست عناصر فی الحال اقتدار پر قابض ہیں اور پرنب دا کو صدارتی
محل سے بے دخل کرکے ان کی جگہ اپنا ہم خیال صدر لانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
اس صورتحال میں صدر مملکت نے دلیل اور اعتدال کے اصولوں پر کاربند رہنے کا
مشورہ دیا ۔
روایتی طور خطاب کا آغاز میں فوجی اور نیم فوجی دستوں کو خراجِ عقیدت پیش
کرتے ہوئے سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں اور امن و امان قائم رکھنے کی خاطر
عظیم قربانیاں دینے والوں کی خدمت میں عقیدت کا اظہار کیا گیا۔ یہ سال
سرجیکل حملے کے حوالے سے یاد کیا جائیگا۔یوم جمہوریہ کی تقریب میں سرجیکل
حملے کے شرکاء کو انعام و اکرام سے بھی نوازہ گیا ۔ اس حملے کے بعد دعویٰ
کیا گیا تھا کہ اب کشمیر کے اندر جاری و ساری تشدد کا خاتمہ ہوجائیگا لیکن
یوم جمہوریہ سے دوہفتہ قبل بھی جموں کے اندر دو حملوں میں ۷ جوان ہلاک اور
کئی زخمی ہوئے۔ صدر جمہوریہ نے اپنے خطاب کے اختتام پر فوجیوں کی فلاح و
بہبود کی جانب توجہ مبذول کرائی جو داخلی و خارجی خطرات سے ہماری حفاظت
کرتے ہیں۔ حالیہ ویڈیوز کی تناظر میں اس نصیحت کی اہمیت اور ضرورت کا انکار
ایک اندھا بہرادیش بھکت ہی کرسکتا۔ان شرمناک واقعات کے منظر عام پر آنے کے
بعد کم ازکم وزیردفاع کو استعفیٰ دینا چاہئے تھا لیکن اقتدار کے بھوکے دیش
بھکتوں سے ایسی توقع کرنا کارِ عبث ہے۔وزیر دفاع تو بیچارے یوم جمہوریہ کی
تقریبات میں محوِ خواب رہتے ہیں ایسے میں فوجیوں کی ویڈیو ان کی نیند اڑا
دے اس کا امکان کم ہے۔
سرحدی حفاظتی دستے کے جوان تیج بہادر یادو کی ویڈیو نے اس سال پوری قوم کو
جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ اس جوان نے سرحد پر ملنے والے کھانے کی تصاویر فیس بک
پر ڈال دیں اور یہ سوال کھڑا کردیا کہ بھوک سے برسرِ پیکار یہ جوان دشمن کا
مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں۔ تیج بہادر کی شکایت کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا
کہ وہ شرابی ہے لیکن ان تصاویر کا کیا جائے جو اس نے دکھلائی تھیں ۔ اگر وہ
جھوٹا ہے تو ہماری فوج کی ایسی بدنامی کرنے کی اجازت تو تو دشمن کے ایجنٹ
کو بھی نہیں دی جاسکتی ۔ تیج بہادر ۲۰ سالوں سے بی ایس ایف میں ملازمت
کررہا ہے ۔ اس نے ایک نہیں چار ویڈیو فیس بک پر ڈالی تھیں ۔ اس کا دعویٰ
ہےکہ ہمیں ناشتے میں صرف چائے پراٹھا ملتا ہے اس کے ساتھ سبزی تو دور اچار
تک نہیں ملتا ۔ دوپہر میں جو دال فراہم کی جاتی ہے اس میں ہلدی اور نمک کے
سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ اس کے باوجود ۱۱ گھنٹے کی ڈیوٹی اور اس کے بعدکبھی
کبھار بھوکے پیٹ سوجانا پڑتا ہے ۔ کیا ان جوانوں کی شکم سیری صرف تحقیق ،
تفتیش، تبادلہ اورتقریر سے ہوگی یا اس کیلئے کسی کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس پر
ٹھوس کارروائی بھی ہوگی؟
تیج بہادر کے علاوہ ایک اور سی آرپی ایف کے جوان نے ویڈیو پوسٹ کرکے مختلف
فوجی دستوں کے درمیان امتیازو تفریق کی بابت شکایت کی۔ فوج کے سر براہ بپن
راوت نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہمارے لئے ہر فوجی اہمیت
کا حامل ہے مگر ۱۱ لاکھ کی اس فوج میں کچھ لوگوں کو شکایت ہوسکتی ہے۔ انہوں
نےفوجیوں سے گذارش کی کہ وہ سوشیل میڈیا کے بجائے شکایتی بکسوں کا استعمال
کریں ۔ اس کے بعد دہرادون کے جوان یگیہ پرتاپ سنگھ نے ایک ویڈیو میں انکشاف
میں کیا کہ اس نے وزیراعظم کو خط لکھ کر شکایت کی تھی افسران اپنے تحت کام
کرنے والے عملہ کو جوتے پالش کرنےپر مجبور نہ کریں ۔ اس پر افسران اسے
ہراساں کررہے ہیں ۔ ایک طرف تو نوٹ بندی کرکے اس حکومت نے بدعنوانی کے خلاف
جنگ چھیڑ رکھی ہے جس کے سبب عام لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور دوسری
جانب فوجیوں کی سبزی پررشوت خود افسران ہاتھ صاف کرجاتے ہیں کیا یہ
بدعنوانی کی انتہا نہیں ہے؟ ریڈی اور گڈکری جیسے زعفرانی سیاستداں اپنی
اولاد شادی پر کروڈوں خرچ کرتے ہیں اورسرحد پر تعینات فوجی نانِ جوئیں کو
ترستے ہیں۔ یہ کیسی دیش بھکتی ہے؟ فوجیوں کے ساتھ ہونے والا یہ ناروا سلوک
ناقابل معافی جرم ہے۔
اس بار یوم جمہوریہ کا ماحول گزشتہ یوم آزادی سے مختلف تھا ۔ سرحد پر
ہندوستان کے فوجیوں نے پاکستانی فوجیوں کو دوستانہ ماحول میں مٹھائی تقسیم
کی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سرحد پارکرکےمقبوضہ کشمیر میں داخل
ہونےوالے ہندی فوجی چندو بابو لال چوہان کو ایک ہفتہ قبل پاکستان نےاعلیٰ
ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوٹا دیا ۔ چندو لال چوہان کے بارے میں ہندوستانی
حکام کا موقف تو یہ ہے کہ وہ سرجیکل اسٹرائیک والے دن غلطی سے سرحد کی
دوسری جانب نکل گیا تھا اور پاکستانی رینجرز نے اسے حراست میں لے لیا مگر
پاکستانی افسران کے مطابق وہ اپنے اعلی افسران کے رویے سے دلبرداشتہ تھا
اور اس نے خود کو پاک فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے ۔ چندو بابو لال
چوہان کو انسانی ہمدردی اور جذبہ خیر سگالی کے تحت وطن واپس جانے کے لئے
قائل کرکے واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کیا گیا۔
تیج بہادر اور یگیہ پرساد کی مبینہ ویڈیو اگر منظر عام پر نہ آتی تو
پاکستانی موقف پر یقین کرنا بے حد مشکل تھا لیکن سوشیل میڈیا میں ان
تصویروں کو دیکھ کر کہ جن میں کوئی فوجی وزیرداخلہ کا تسمہ باندھ رہا ہے یا
وزیراعلیٰ کے جوتوں کو گیلا ہونے سے بچانے کیلئے حفاظتی دستوں نے شیوراج
چوہان کو گود میں اٹھا رکھا ہے پاکستانیبیان بازیپر حقیقت کا شائبہ گزرتا
ہے۔ چندو لال کی واپسی کے وقت جو ویڈیو بنائی گئی وہ یو ٹیوب میں موجود ہے
۔ اس ویڈیو میں ایک ہندوستانی افسر نے بڑی فراخدلی سے اعتراف کیا ہے کہ
چندولال کے ساتھ کسی نے بدسلوکی نہیں کی۔اسےآرام سے رکھا گیا بلکہ اس کی
طبیعت خراب ہوگئی تو علاج بھی کرایا گیا۔ اس کی واپسی میں ضابطے کی
کارروائی کو پورا کرنے کے بعد لوٹایاگیا۔ اس افسر نے پاکستانی حکام کا
شکریہ بھی ادا کیا۔مہاراشٹر کے رہنے والے۲۲ سالہ چندو بابو لال چوان کے
والدین کا قتل اس کے بچپن میں ہوگیاتھا اس لئے نانی نیلا بائی پاٹل نے اس
کی پرورش کی تھی۔ اپنے نواسے کی مبینہ گرفتاری کی خبر سن کر وہ بیچاری صدمے
سے چل بسی۔ اگر میڈیا چندولال کی خبر کو قدر سنسنی خیزنہ بناتا تو مبادہ اس
کی نانی نیلا بائی اپنے نواسے کا استقبال کرتی ۔
صدر محترم نے اپنے خطاب میں یاددہانی کرائی کہ ’’ جمہوریت نے ہم سب کو حقوق
سے سرفراز کیا ہے لیکن اسی کے ساتھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی جو ہمیں ادا
کرنی ہیں ۔ گاندھی جی نے کہا تھا عظیم ترین جمہوریت اپنے ساتھ عظیم تر نظم
و ضبط اور انکساری لے کروارد ہوتی ہے۔ نظم و ضبط اور انکساری کے ساتھ آنے
والی آزادی کا انکار نہیں مگر بے لگام اجازت نامہ فحاشی ورعونت کی علامت
ہے۔وہ خود اپنی ذات اور دوسروں کیلئے نقصان دہ ہے‘‘۔ بابائے قوم کی مذکورہ
نصیحت ہمیں جلی کٹو کو لے کر چلائی جانے والی تحریک کا جائزہ لینے پر مجبور
کرتی ہے۔ ۲۰۱۴ میں عدالت عالیہ نے کہ جلی کٹو کے تہوار میںدستور کی شق
۲۵۴(۱) کی خلاف ورزی کے تحت بیلوں کی شمولیت کوممنوع قراردیا اور مہاراشٹر
کے بیلوں کی گاڑی کے دوڑ پر روک لگادی ۔ عدالت نےتمل ناڈو حکومت کے ذریعہ
۲۰۰۹ میں منظور شدہ ضابطہ کو بھی خلاف ِدستورقرار دے کر مسترد کردیا ۔
دسمبر ۲۰۱۶ میں جب جلی کٹو کی حمایت میں تحریک پرتشدد ہوگئی تو مرکزی
حکومت خوفزدہ ہوگئی۔ اس نے امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ کو
فیصلہ ملتوی کرنے کی درخواست کی اور جنوری ۲۰۱۶ میں اپنا جاری کردہ اپنا
حکمنامہ واپس لے لیا ۔ اس کے بعد ریاستی حکومت نے اتفاق رائے سے جلی کٹو
میں بیلوں کی شمولیت کی حمایت میں قانون وضع کردیا جسے مرکزی حکومت نے
فوراً توثیق کیلئے صدرِ مملکت کی خدمت میں بھیج دیا۔ اس بے ہنگم کارکردگی
پر جسٹس دپیک مسرا اور آر ایف نریمن کی بنچ نے سوال کیا ’’ آپ نے بیلوں
کو جلی کٹو میں شامل کرنے کے نئے حکمنامہ میں ترمیم کرکے ہمارے ۲۰۱۴ کے
فیصلے کی نفی کی ہے ۔‘‘۔ عدالت کی جانب سے مرکزی حکومت پر عدالت کی خلاف
ورزی کا الزام سنگین اور قابلِ توجہ ہے۔ اگر مقننہ خود عدلیہ کی بیخ کنی
کرےتو دستور کی بالادستی ازخود ختم ہوجاتی ہے۔
تمل ناڈو کی حکومت کے خلاف مویشیوں کی فلاح و بہبود کے ادارے اور دیگر
تنظیموں نے سپریم کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ان کے مطابق صوبائی حکومت کا
قانون اور مرکز کارویہ دستور کے ساتھ دھوکہ دھڑی ہے ۔دونوں نے خفیہ سازباز
کرکےقانون کو پامال کیا ہے ۔ جلی کٹو کی ثقافتی یا مذہبی بنیاد نہیں ہے ۔
اس بابت عدالت عالیہ نے حکومت سے سوال کیا ’’ ایک طرف آپ گائے کے ساتھ رحم
کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسری جانب بیل کو انسانوں کی تفریح کا سامان بنانے
کی اجازت دیتے ہو۔ رحمدلی کے دستوری اصول اس طرح کے متضاد رویوں کی اجازت
نہیں دیتے۔ تفریح کیلئے بہتر ہے آپ کمپیوٹر کھیل کھیلیں ‘‘ ۔عدالت کی دلیل
معقول ہے اگر گائے ماتا ہے تو بیل بابا ہوگیا ۔ یہ کیا حماقت ہے کہ گائے کی
پوجا کی جائے اور اس کے شوہر نامدار کو کھیل تماشے کا آلۂ کار بنایا
جائے؟
اٹارنی جنرل نے جب سرکار کی پیروی کرتے ہوئے میراتھون دوڑ کی مثال پیش کی
تو جج حضرات نے اسے مسترد کردیا اورکہا’’میراتھون کی دوڑ میں آپ برضا
ورغبت شامل ہوتے ہیں جبکہ جلی کٹو میں بیلوں کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی
سولہویں صدی کے غلاموں کی مانند اتار اجاتا ہے‘‘۔ یہ حسن اتفاق ہے یوم
جمہوریہ کے ایک دن قبل عدالت عالیہ نے حکومت پر یہ تنقید کی ہے اور پانچ دن
بعد جب دوبارہ سماعت ہوگی تو وہ اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔ ایسے میں سوال
پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسی طرح من مانی کرنی ہے تو دستور کی ضرورت ہی کیا ہے؟
صدر مملکت نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یوں تو ہماری جمہوریت ۶۸ ویں
سال میں داخل ہورہی ہے مگر ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ ہمارا نظام بے نقص یا
کامل نہیں ہے۔اس کےخامیوں کو تسلیم کرکے اصلاح ہونی چاہئے‘‘۔ جلی کٹو کی
تحریک اور اس پرعدالت کا فیصلہ جمہوریت کی کڑی آزمائش اور امتحان ہے۔
اپنی تقریر کے اختتام پرصدر جمہوریہ نے نہایت دلسوزی کے ساتھ کہا ’’اس
زبردست مسابقاتی دنیا میں ہمیں اپنے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے
کیلئے سخت محنت کرنی ہوگی۔ہمیں سخت محنت کرنی ہوگی اس لئے غربت کے خلاف
ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ۔ ہماری معیشت ابھی ۱۰ فیصد کی رفتار سے
طویل عرصہ تک نہیں بڑھی ہے تاکہ غربت پر قابل قدر اثر ڈال سکے ۔ہمارے ملک
کا پانچواں حصہ اب بھی خطِ غربت کے نیچے ہے۔ ہر آنکھ سے آنسو پونچھنے کا
گاندھی جی کا خواب ابھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا ہے‘‘۔ پرنب مکرجی نے جاتے
جاتے اس تلخ حقیقت کی نقاب کشائی کردی جسے صنعتی اور معاشی ترقی کے فریبی
اعدادو شمار میں چھپا دیا جاتا ہے ۔
زراعت، بیروزگاری اور دہشت گردی کے آسیب کی نشاندہی کرنے کے بعدپرنب دا نے
کہا ’’ہمیں اپنی خواتین اور بچوں کے حفظ و امان کی خاطر سخت محنت کرنی ہے۔
خواتین کا عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہونا ضروری ہے۔ بچوں کو
ان کے بچپن سےلطف اندوز ہونے کا پورا موقع ملنا چاہئے‘‘۔ دستور کے نافذ
ہوجانے کے ۶۷ سال بعد بھی دنیا کے سب سے عظیم جمہوی ملک کی راجدھانی دہلی
کا’’ریپ کپیٹل‘‘ کے خطاب سے نوازہ جانا ہے اور نربھیہ کا قومی علامت بن
جانا کیا خواتین کی حالت زار بیان نہیں کرتا؟ یہ ستم ظریفی ہے کہ یوم
آزادی کے دن لال قلعہ سے نشر ہونے والی وزیراعظم کی اوٹ پٹانگ تقریر تو
سبھی سنتے ہیں لیکن یوم جمہوریہ کے موقع پر صدر مملکت کا سنجیدہ خطاب کسی
کی سمع خراشی نہیں کرتا بلکہ ساری توجہ ۲۶ جنوری کو راج پتھ پر ہونے والی
فوجی پریڈ پر مرکوز رہتی ہے ۔ بقول شاعر ؎
ہمارا سچ کبھی تاریخ میں نہ آئے گا
ہمارے زخموں پہ اخبار کچھ نہیں لکھتے
یوم جمہوریہ کی فوجی پریڈ میں ہمارے جوان ہمیشہ سے قومی شان و شوکت اوراپنی
ذاتی مہارت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں لیکن دیش بھکت مودی سرکار نے اس میں غیر
ملکی فوجیوں کو شامل کرنےکی بدعت ایجاد کردی ۔ گذشتہ سال فرانسیسی دستے نے
پہلی باراس میں حصہ لیا۔ سونیا گاندھی اگر وزیراعظم ہوتیں اور وہ اطالوی
فوجی دستے کو یوم جمہوریہ کی مشق میں شامل کیا جاتا تو پرلیہ آجاتا۔
زعفرانی پریوار اسے قومی توہین قرار دے کر تقریب کا مقاطعہ کرنے میں بھی پس
و پیش نہ کرتا لیکن جب سیاںّ بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا؟ فرانس کا شمار
تو خیر دنیا کی ایک بڑی جمہوریت میں ہوتا ہے اس لئے وہاں کے صدر اور فوجیوں
کی شرکت تو کسی طور گوارہ تھی مگر اس بار متحدہ عرب امارات کے وزیر دفاع
اور فوج کی شرکت سےغضب ہوگیا۔ ناگپور میں بیٹھے سنگھ پریوار کے رہنماوں نے
کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ کسی مسلم ملک کا فوجی دستہ دہلی کے
راجپتھ پر ہمارے جوانوں کا پیش رو ہو گا۔ اس منظر کو دیکھ کر گروگولوالکر
اور وکرم ساورکر کی آتما کو کتنی تکلیف ہوئی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل
ہے اور یہ دلآذاری ہندو ہردیہ سمراٹ کے کر کملوں سے ہو اس سے بڑا نرتھ اور
کیا ہوسکتاہے؟
یوم جمہوریہ کا تعلق جمہوریت سے ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تقریب میں
شرکت کرنے کیلئے سیکڑوں جمہوری ممالک میں سے کوئی میسرنہیں آیا۔ایک ایسے
رہنما کو بلانا پڑا جو ملوکیت کا علمبردار ہے اورجمہوریت میں سرے سے یقین
ہی نہیں رکھتا۔ شاید یہ سرکار جمہوریت اور ملوکیت کافرق نہیں جانتی یا
علامہ اقبال کے ابلیس سے اتفاق کرتی ہے کہ ’’ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے
جمہوری لباس ‘‘۔ ویسے شیخ محمد بن النہیان امارات کے سربراہِ مملکت نہیں
بلکہ وزیر دفاع ہیں اور ابوظبی کے بھی بادشاہ نہیں بلکہ ولیعہد ہیں ۔ اس کے
باوجودمنوہر پریکر کو استقبال کیلئے بھیجنے کے بجائے پروٹوکول کو بالائے
طاق رکھ کر خود وزیراعظم پہنچ گئے۔
وزیراعظم کی روبہ زوال عالمی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا
ہے کہ دوسال قبل اس تقریب میں امریکی صدر براک اوبامہ نے شرکت کی تھی ۔ اس
کے بعد فرانس کے صدر ہولنڈی اور اب امارات کے وزیردفاع شیخ محمد کی آمد
ہوئی۔ دنیا کے موثر ترین رہنماوں کی فہرست فورچیون ففٹی میں ۲۰۱۵ کے اندر
مودی جی پانچویں نمبر پر تھے جبکہ ۲۰۱۶ میں وہ پچاس سے باہر ہوگئے ہیں
اور ۴۲ ویں نمبر پران کا اولین دشمن اروند کیجریوال داخل ہوگیاہے ۔ نوٹ
بندی کے بعد وہ کس مقام پر پہنچیں گے یہ تو کوئی نہیں جانتا مگر بلوم برگ
نے ایشیا کے دس ناکام ترین رہنماوں میں انہیں شامل کرکے ہمیں یوم جمہوریہ
کا ایک تحفہ ضرور تھما دیا ہے۔ اس موقع پرمہنگائی کی مار ی عوام کے لبوں پر
منور رانا کا یہ شعر ہے ؎
اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں
مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے
|