چکوال کے نئے ڈی سی ڈاکٹر عمر جہانگیر اور مسائل پرانے

ضلع چکوال کے ڈپٹی کمشنر محمود جاوید بھٹی کو تبدیل کر دیا گیا اور اُن کی جگہ نئے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر عمر جہانگیر نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی شروع کر دی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جناب محمود جاوید بھٹی کی خدمت میں کچھ گذارشات رکھی تھیں وہی گذارشات آج ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر عمر جہانگیر کی خدمت میں بھی پیش خدمت ہیں۔ مجھے قوی یقین ہے کہ وہ میری گذارشات پر عمل کریں گے اور عوام کے دُکھ درد کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ چکوال کو مسائلستان کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کوئی ایک مسئلہ ہو تو اُس کا ذکر کریں۔ چکوال کی عوام کو بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ میرا چند دن قبل ایک لمبے عرصے کے بعد چکوال کے مصروف ترین اور قدیم ترین بازار ’’چھپڑ بازار‘‘ سے گذر ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بابِ چکوال کے ساتھ راہ داری میں بھی لوگوں نے اپنی دکانوں کے سامنے پیسے لے کر ٹھیے لگوا لئے ہیں۔ چھپڑ بازار سے پہلے ہی گذرنا بہت مشکل تھا اب تو جیسے ناممکن ہو گیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ نئے ڈپٹی کمشنر چکوال کا ابھی تک چھپڑ بازار کا چکر نہیں لگا ہو گا۔ چھپڑ بازار میں ویسے ہی لوگوں کا رش بہت زیادہ ہے اور عوام کو بے پناہ مشکلات ہیں، اگر مشکلات آتی ہیں تو لوگوں کو آتی ہوں گی تو اربابِ اختیار کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں اور اُنہوں نے چند دن پہلے DHQ ہسپتال میں اچانک دورہ کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے اس کے یقینا اچھے نتائج نکلیں گے۔ چھپڑ بازار میں اگر وہاں مقرر کردہ دکانوں سے زیادہ دکان کسی نے روڈ پر لگا رکھی ہے تو کسی سرکاری ادارے کے کسی اہلکار کو کچھ نہ کچھ دے کر ہی ایسا کیا ہو گا۔ چھپڑ بازار کو پیرس بنانے والے بھی خاموش ہیں؟ چھپڑ بازار میں ٹف ٹائلیں لگائیں گے، اس کو ایشیاء کا بہترین بازار بنائیں گے اور نکاسی آب کے منصوبے شروع کریں گے اب تو ایسے اخباری بیانات بھی پڑھنے کو نہیں ملتے۔ چلیں مرچنٹس الیکشن قریب ہیں پھر نئے انداز میں نئے وعدے کئے جائیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی شریف انسان چھپڑ بازار سے گذر نہیں سکتا۔ مستورات کے لئے تو انتہا کا طوفان بدتمیزی دیکھنے کو ملتا ہے۔ خواتین پر آوازیں کسنا، ہلڑ بازی ایک معمول بن چکا ہے مگر ڈپٹی کمشنر چکوال نے کون سا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ تحصیل چوک سے ریسکیو 15 چوک تک دائیں اور بائیں ایک بہت بڑا نالا گذرتا ہے۔ یہ نالہ پیدل چلنے والوں کے لئے فٹ پاتھ کا کام کر سکتا تھا مگر کیسے کرتا؟ ناجائز تجاوزات مافیا اس پر بھی قابض ہو چکا؟ ہر دکاندار نے اپنی دکان نالے تک بڑھا دی ہے، آپ کو دونوں اطراف نالے پر قبضہ مافیا نظر آئے گا۔ کئی بااثر اور بڑے دکانداروں اور بینکوں نے اپنے اپنے جنریٹرز باہر لگا رکھے ہیں لیکن عوام کو اگر ان جنریٹروں کی وجہ سے آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو ڈپٹی کمشنر کیا کریں؟ جنریٹر باہر لگتے ہیں لگے رہیں، غریب عوام کا کیا ہے یہ پیدل چلنے والی عوام اگر کسی رکشے یا گاڑی کی زد میں آبھی جائے تو ملک کا فائدہ ہی ہو گا آبادی میں کچھ کمی تو ہو گی نا؟ ویسے بھی پاکستان کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے، افسوس صد افسوس ایسے لوگوں پر جو کہ عوام کی خدمت کے لئے آتے ہیں مگر عوام سے خدمت کرانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر ڈپٹی کمشنر چکوال ہفتے میں صرف ایک دن چکوال کا دورہ کریں تو ان کی آنکھیں کھل جائیں۔ چکوال کا کوئی دکاندار مقرر کردہ ریٹ لسٹ پر کوئی چیز فروخت نہیں کر رہا۔ سبزی اور فروٹ والا ریٹ لسٹ دکھانے کا مجاز نہیں سمجھتا، یہ ذمہ داری کس کی ہے؟ مگر افسوس صد افسوس جنہوں نے ریٹ لسٹ دیکھنی ہے اُن کو تازہ سبزی، فروٹ روزانہ اُن کے گھروں میں مل جاتا ہے، عوام کو وہ اگر بیس، پچیس روپے فالتو لگا لیتے ہیں تو کون سا جرم ہو گیا؟ ان کو اس سے کیا لینا دینا کہ غریب عوام کو آلو، پیاز کس بھاؤ سے مل رہے ہیں، آخر یہ سب کچھ کب تک ہوتا رہے گا؟ ہمارے معاشرے سے کرپشن کب ختم ہو گی؟ کب تمام ذمہ داران اور افسران اپنی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں احسن انداز میں پوری کریں گے؟ کب عوام کو اُن کی بنیادی سہولیات زندگی میسر ہوں گی اور کب غریب عوام کو سستا اور تیز انصاف فراہم ہو گا؟ اس وقت ڈپٹی کمشنر چکوال، چکوال کے سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں، تمام سرکاری ادارے اُن کے زیر کنٹرول ہیں اور میرے خیال میں اگر کسی بھی ادارے کا سربراہ خود ٹھیک ہو تو پھر سارے کام ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ چکوال میں ایک اچھے کام کا آغاز ہوتا ہے اور پھر اچانک وہ کام روک دیا جاتا ہے جیسے چند ماہ قبل چکوال میں ناجائز تجاوزات مافیا کے خلاف آپریشن شروع ہوا، کئی بڑے بڑے پلازے اس کی زد میں بھی آئے اور اُن کو مارک بھی کیا گیا مگر پھر کیا ہوا سب کی نظر میں ہے، اس کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما تھے اور یہ آپریشن کس کے کہنے پر روکا گیا؟ اسی طرح کروڑوں روپے کی ریلوے اراضی پر بھی قبضہ مافیا متحرک ہے، کیا یہ سب باتیں بھی ڈپٹی کمشنر کو بتانے کی ضرورت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک بچہ جو اپنی بھوک مٹانے کے لئے ایک روٹی کسی تندور سے چرا لیتا ہے تو اُس کو چور سمجھ کر تھانے پہنچا دیا جاتا ہے اور شہر بھر کی دیگر چوریاں اُس پر ڈال دی جاتی ہیں لیکن سفید کاٹن کے سوٹ میں ملبوس پیشہ ور ’’ڈاکو‘‘ کسی کو نظر نہیں آتے۔ وہ بینکوں سے کروڑوں روپے قرض لیتے ہیں اور پھر قرض معاف کرا لیتے ہیں، ان کا شمار اشرافیہ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح کروڑوں کی اراضی پر قبضہ کرنا، ناجائز جگہوں پر بڑے بڑے پلازے کھڑے کرنا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کرنا اور پھر ایسے ہی لوگوں کو VIP پروٹوکول ملنا یہی ہمارے معاشرے کی بدبختی ہے۔ ہمیں آج تک یہی نہیں پتہ چل سکا کہ اصل میں چور ہے کون؟ میرے خیال میں پاکستان میں ایک مالی سے لے کر پی ایم تک سب کرپشن کی زد میں ہیں۔ کھایا صرف اُسی نے نہیں جس کو ملا نہیں۔ سب لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق پاکستان کے ساتھ دو دو ہاتھ کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان قائم ہے اور انشاء اﷲ قائم رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس ملک کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کریں۔ جس جس کے پاس جو جو طاقت ہے وہ اس کا درست استعمال کرے اور پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دے۔ نئے ڈپٹی کمشنر چکوال بھی اگر اپنے کام کے ساتھ مخلص ہو جائیں تو چکوال کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ چکوال میں گندگی کے جگہ جگہ ڈھیر نظر آرہے ہیں، ہو سکتا ہے ڈپٹی کمشنر کو نظر نہ آتے ہوں، آخر ان اداروں کو کون متحرک کرے گا؟ مجھے پورا یقین ہے کہ ڈپٹی کمشنر چکوال میرا کالم پڑھنے کے بعد ضرور مثبت سوچ کے ساتھ جن جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے اُن کو حل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ میرے قلم کا مقصد تنقید برائے اصلاح ہوتا ہے۔ چونکہ نئے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر عمر جہانگیر نوجوان ہیں، اُن کا خون بھی جوان ہے اور یقینی طور پر وہ متحرک ہو کر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کریں گے اور چکوال کی عوام کے لئے ایک مثال بن کر سامنے آئیں گے اور یقینی طور پر جو بھی نیا افسر چکوال آتا ہے اُس کا پھر چکوال سے جانے کو دل نہیں کرتا، چونکہ چکوال کی عوام کو اُن کو بے پناہ محبت دیتے ہیں۔ کیا نئے ڈپٹی کمشنر بھی چکوال کی عوام کی محبت کا جواب محبت سے دیں گے، اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 63720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.