دین میں کوئی جبر نہیں

محمد بن قاسم جو کہ دیبل کے راستے سے سندھ میں 712ء میں داخل ہوا او ریہاں پر احیاء اسلام کا ذریعہ بنا۔ آج وہی سندھ وہاں کی عوام کی بداعمالیوں کے باعث ایسے حکمرانوں کے شکنجے میں ہے جن کے آئے دن کے اسلام مخالف اقدامات قانون اﷲ کے غیض و غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ سندھ کے حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں تو ہم برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں لیکن اب انہوں نے مسلسل ایسے اسلام مخالف اقدامات کرنا شروع کردئیے ہیں جن کی اجازت کوئی بھی مسلمان نہیں دے سکتا۔ چند ماہ قبل سندھ اسمبلی نے اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے یا کسی کے اشارے پر ایک ایسا کالا قانون پاس کیا جس کے خلاف ملک بھر میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ۔ اس قانون کے مطابق زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور شادی کرنے والوں کو 7اور اسکے معاون کو 5سال قید کی سزا ہوگی۔ بل کے مطابق 18سال سے کم عمر لڑکے او رلڑکی کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر بھی پابند ی عائد ہوگی۔ زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے کو بھی جرم تصو رکیاجائے گا۔ قانون کے مطابق بالغ شخص کو مذہب تبدیل کرنے کے بعد اکیس دنوں تک سیف ہاؤس میں رکھا جائیگا کہ وہ تمام مذاہب کا مطالعہ کرے۔ بعد ازاں بذریعہ عدالت یہ طے کیاجائیگا کہ اس نے مرضی سے اسلام قبول کیاہے یا زبردستی۔ گوکہ اب سندھ حکومت دینی طبقوں کی جانب سے دباؤ کے بعد چند ترامیم کرنے پر راضی ہوئی ہے لیکن اس کالے قانون کو وہ مکمل طورپر واپس لینے پر تیار ہی نہیں ہے کیا ہی اچھا ہوگا کہ اگر سندھ کی حکومت ایسے کالے قانون متعارف کروانے سے پہلے کسی مفتی و عالم سے رجوع کرلیتی کہ کیا واقعی اسلام نے کسی کو اسلام قبول کرنے سے روکنے کیلئے کوئی عمر کی حد مقرر کی ہے یا نہیں لیکن ایسی حکومت جو کہ ناچ، گانوں، بدعات و شرک و دیگر کفریہ رسومات میں مبتلا ہو، سے ایسی توقع کرنا دیوانے کا خواب معلوم ہوتاہے۔ پی پی پی کے بڑوں کی تربیت ہی یورپی ممالک میں ہوئی ہے جہاں شراب، کباب کی محفلیں روزانہ کا معمول ہیں جہاں کی سوسائٹی ماد رپدر آزاد سوسائٹی ہے لیکن صرف اپنے مخصوص سیکولرزذہنوں کے مالک سندھ حکومت ان کی جماعت پی پی پی جو کہ لبرل ازم کا نعرہ لگاتی ہے کاش کہ اپنی غربت ، ہنگامی، بدامنی، کرپشن میں ڈوبی ہوئی عوام کی حالت زار پر بھی کچھ توجہ مرکوز کرسکتی۔ ان کی جماعت کے بانی کے شہر لاڑ کانہ کا منظر میں چند دنوں پہلے ایک پروگرام میں دیکھ رہا تھا جہاں پر اربوں روپوں کا ترقیاتی بجٹ حاصل کرکے سندھ حکومت کے بڑوں کی جیبوں میں چلا گیا عوام کیلئے وہی پرانی ٹوٹی پھوٹی گلیاں ، سڑکیں، پینے کا گندہ پانی، ہسپتال، تعلیمی ادارے ویران حال ہیں۔ صرف لاڑکانہ کے سندھ کے دیگر شہروں ، دیہاتوں کا حال اس سے بھی برا ہے۔ پولیس ، انٹی کرپشن، تعلیم، بلدیہ و دیگر اداروں میں میرٹ کے خلاف جیالوں کو بھرتی کرکے ایک طرف حقدار کا حق ماراجارہاہے تو دوسری جانب تمام اداروں کو تباہ و برباد کردیاگیاہے۔ ڈاکو راج کی شکایات عام ہیں ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جب حکمران عوام کی جان و مال کا تحفظ نہ کرسکیں، سیلاب زدگان دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں، بے روزگاری عام ہو، قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنا جسکا کوئی جواز نہ ہو اور نہ ہی کوئی مثال ماضی میں ملتی ہو قابل افسوس ہے ۔ سندھ حکومت کی عقل پر جتنا ماتم کیاجائے کم ہے۔ دنیا بھر میں نوجوان نسل یہودیت، نصرانیت، بدھ مذہب، ہندو مذہب و دیگر مذاہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کررہی ہے۔ نوجوان نسل خصوصا لڑکیوں میں یہ رحجان زیادہ ہے لیکن کسی بھی غیر مسلم ملک نے ایسی پابندیاں یا قانون نہیں بنایا ۔ اسلام کی تاریخ میں کسی کو زبردستی مسلمان کرنے کی مثال نہیں ملتی ۔یہ کام تو دیگر مذاہب کے لوگ مادیت پرستی، روزگار، شہریت، شادی ، مال کا لالچ دے کر کرتے ہیں اسلام تو نام ہے اخلاص کے ساتھ اﷲ کی ذات پر یقین کرنے کا۔ اسے خالق ، مالک، رازق ماننے کا۔ اﷲ تعالی نے اپنی کتاب میں اسلام کا عظیم اصول بتادیاہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبرنہیں ہے۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی اگر وہ زبردستی لوگوں کو مسلمان کرتے تو آج ایک بھی ہندو نہ ہوتا لیکن ان سے دعوت و تبلیغ کے اہم کام کو چھوڑنے کے بارے میں بروز قیامت سوال ضرور کیاجائیگا۔ اسلام تو مسلمانوں کے اعلی اخلاق، کردا ر و گفتار کی وجہ سے دنیا بھر میں پھیلاہے۔ اسلام کی حقانیت ہر ذی شعور عقل مند شخص کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے کسی کو زبردستی مسلمان بنانا اسکی تعلیما ت ہی کے خلاف ہے۔ آج دنیا بھر میں 56اسلامی ممالک میں کوئی حکومت ایسی نہیں بتائی جاسکتی جو لوگوں کو زبردست مسلمان بنانے پر تلی ہوئی ہے یا جو انتہا پسند ہو۔ ابھی پاکستان کے علماء کرام سندھ حکومت کے اس کالے قانون کا رونا رورہے تھے کہ سندھ حکومت کی جانب سے ایک اور اسلام دشمن اقدام دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے سندھ کے 90مشکوک دینی مدارس کی فہرست جاری کردی جن میں بعض بڑے مدارس جیسے جامعہ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، جامعہ دارالعلوم کراچی ، جامعہ فاروقیہ، جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال شامل ہیں معلوم ایسا ہوتاہے کہ سندھ حکومت کی عقل ماری گئی ہے۔ دہشت گردی فرقہ پر مبنی ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں تو وہ رکاوٹیں کھڑی کرنے سے باز نہیں آتی۔ رینجرز کی کارروائیوں پر اسے اعتراض ہے لیکن مدارس جو کہ احیائے اسلام اور بقائے اسلام کے ضامن ہیں کو مشکوک قرار دینا ایک مخصوص ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتاہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے مسلسل ایسے اقدامات اٹھانا پاکستان بھر کے غیور مسلمانوں کی غیرت کو للکارنے اور حالا ت کو خواہ مخواہ خراب کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے اقدامات اور قانون سازی کی روک تھام کیلئے وفاقی و صوبائی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ قومی اسمبلی میں قرار داد کی مذمت کے علاوہ تمام تر سازشوں کو بے نقاب کرنا چاہئے اس سلسلے میں ملک کے جید علماء کرام کا ایک وفد فوری طورپر وفاق اور سندھ کی صوبائی حکومت سے ملاقات کرکے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کرے۔میرے اندازے کے مطابق سندھ حکومت اقوام مغرب میں مزید مالی امداد این جی اوز کے ذریعے حاصل کرنے کیلئے اپنا صاف امیج اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے بنانا چاہتی ہے۔ حالانکہ اﷲ کو ناراض کرکے نہ کوئی پہلے کامیاب ہوسکاہے اور نہ اب ہوگا۔ انہیں چاہئے کہ سندھ میں شراب کی جعلی بھٹیوں ، دو نمبر ادویات کے کاروبار، بھتہ خوری، را کے ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کرکے صوبے کو امن کا گہوارہ بنائیں ۔ مدارس جو کہ امن کے پیامبر ہیں اسلام کے داعی ہیں اور وہاں سے جو بھی طالب علم نکلتاہے وہ معاشرے میں ایک عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اور اسکا کردار ہمیشہ مثبت رہاہے۔ جبکہ جو ادارے دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔
 

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 138401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.