کثیر القومی فوج کی کتنی ضرورت ہے؟

اگر ہم اس مفروضے کو مان لیں کہ چند ممالک پر مشتمل فوج کی تھیوری ایک حقیقت کا روپ دھاری سکتی ہے تو ہمارے سامنے اگلا سوال یہ ہوگا کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ؟ اور اس کے مقاصد کیا ہیں ؟

ا۔ سعودی عرب کی معیشت اپنی تاریخ کے بدترین مسائل سے دوچار ہے ۔یہاں تک کہ بہت سی اہم فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں ۔ملکی بجٹ میں کٹوتیوں کی پالیسی اپنائی جارہی ہے ،یوٹیلیٹی بلز میں ہوشربا اضافے کے ساتھ ساتھ نئے ٹیکس متعارف کرائے گئے ہیں، جب کہ فیکٹریوں کی بند ش اور متعدد ترقیاتی منصوبوں کے خاتمے کے سبب ملک میں پہلے سے موجود بے روزگاری میں اضافہ بھی نظر آرہا ہے ۔ دوسری جانب یمن جنگ اور شام و عراق کے بحران میں ملوث ہونے کے سبب اخراجات کا بوجھ حدسے زیادہ بڑھ چکا ہے جبکہ خطے کے حمایتیوں کو اپنا بنائے رکھنے کیلئے غیر ضروری امداد کا سلسلہ بھی جاری رکھنا بادشاہت کیلئے ناگزیر ہے۔

ب۔خطے کی بدلتی صورتحال خاص کر عرب ممالک میں جمہوریت اور عوامی رائے، بنیادی آزادیوں سے محرومی کے تصور نے بھی سعودی عوام کو اس قدر ہمت دی ہے کہ سوشل میڈیا کی کڑی نگرانی کے باوجود عوام کھل کر ایک خاندان کی بادشاہت اور اس کی عیاشیوں کیخلاف کھل کر بولنے لگے ہیں ایک اندازے کے مطابق صرف سن 2015میں دو سو سے زائد افراد کو سوشل میڈیا پرہاوس آف سعود کیخلاف بولنے پر جیل میں ڈالا گیا جن میں یونیورسٹیوں کے پروفیسرز سمت اعلی تعلیم یافتہ ا فراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔
ج۔تیسرا بڑا مسئلہ اقتدار کی کشمکش ہے جو موجودہ بادشاہ کے بعد ہوسکتی ہے اور اس کے آثار ابھی سے واضح طور پر نظر آرہے ہیں ۔بادشاہ کا بیٹا اور ڈپٹی ولی عہد محمد بن سلمان کی کوشش ہے کہ وہ مسند شاہی پر براجمان ہوجائیں جبکہ خاندانی روایا ت مطابق وزیر داخلہ محمد بن نائفکو اگلا بادشاہ بننا چاہیے ،کیونکہ بن نائف امریکی یورپی حلقوں کے نزدیک بھی قابل اعتماد ہیں اس لئے محمد بن نائف مسلسل یورپ اور امریکہ کو یہ سمجھانے میں لگے ہیں کہ وہ بن نایف کا متبادل ہوسکتا ہے اور شدت پسندانہ افکار کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کو ماڈرن ازم کی جانب لے جاسکتا ہے۔

د۔ہاوس آف سعود نے انتہائی دھمیے انداز سے ماڈرن ازم کی جانب قدم اٹھا یا تو ہے جیسا کہ سخت گیر موقف کی علماکمیٹی کے اختیارات کو محدود کرنا ،دینی علما ء کا ٹائٹل شیخ کو بغیر سرکاری سند کے استعمال کرنے پر پابند ی،سالانہ عالمی’’ ندوہ‘‘ کانفرنس کا خاتمہ ،بیرون ملک دینی مدارس چلانے والے این جی اوز پر پابندی ،خواتین کی ڈرائیونگ سمیت دیگرآزادیوں پر بحث و مباحثہ ۔ہاوس آف سعودیا خاندان سعود کو خطرہ ہے کہ اس قسم کے مسائل کے سبب اندرونی طور پر ایک عوامی خلفشار پیدا ہوسکتا ہے جو ان کی بادشاہت کے قدم اکھاڑ سکتا ہے ۔

ر۔سعودی عرب کو دہشتگردی کا بھی خطرہ ضرورہے کیونکہ داعش اور القاعدہ جیسی خطرناک خودساختہ نظریاتی دہشتگرد تنظیمیں گرچہ اسی فکر و نظریہ سے جنم لیتی ہیں جو سعودی عرب نے اسلامی دنیا میں پھیلانے کیلئے اپنے وسائل خرچ کئے لیکن وہ آل سعود کو غیر شرعی حاکمیت سمجھتی ہیں۔ان کا خیال ہے کہ آل سعود اصل وھابیت سے دور ہوچکے ہیں، داعش نے برملاآل سعود کو دھمکی دیتے ہوئے اپنے سلیپر سیلز کو متحرک ہونے کا پیغام دیا ہے ۔یہاں تک کہ داعش اس سلسلے میں مقدس مقامات پر بھی حملہ کرنے سے نہیں چوکی ،جس کی مثال گذشتہ سال مدینہ منورہ میں روضہ رسول ؐ پر حملے کی کوشش ہے اور جس کا ماسٹر مائنڈ مارا جاچکا ہے ،آل سعود آئیڈیالوجی میں قبروں کی تعمیر شرک کے مترادف ہے ۔ہمیں اس بات پر بھی توجہ رکھنی ہوگی کہ سعودی عرب کی موجود ہ فوج ،یمنی ،مصری ،اردنی ،سوڈانی ان سپاہیوں پر مشتمل ہے جو سعودی عرب میں صرف اپنی مدت ملازمت کو پورا کررہے ہیں ،جن میں وطن اور وطنیت کے جذبے کے علاوہ عسکری تربیت کا بھی فقدان واضح ہے ۔چند ہزار افراد پر مشتمل انتہائی تربیت یافتہ اسپیشل فوجی دستے ایسے ہیں جو صرف اور صرف ہاوس آف سعود کی حفاطت کی ڈیوٹی نبھاتے ہیں ۔سعودی بادشاہت کبھی بھی مقامی سپاہی او ر آفیسر پر بھروسہ نہیں رکھتی اور ہمیشہ بیرونی مراعات یافتہ فوجیوں پر ہی بھروسہ کرتی آئی ہے اور ایسا کرنا بادشاہت کی مجبوری ہے ۔لیبیا کا کرنل قذافی سوڈانی ،یوکرائنی افریقی خواتین فورس پر بھروسہ رکھتا جبکہ اس کے حفاظتی گارڈ میں ایک بھی لیبیائی خاتون یا مرد سپاہی نہیں تھا ۔اسی طرح تیونس کے سابق ڈکٹیٹر سمیت مصر کے حسنی مبارک اپنے انتہائی قریبی مراعات یافتہ رشتہ داروں اوران غیر ملکیوں کو صداتی گارڈز میں بھرتی کرتے تھے جو مراعات کے سبب وفاداری پر مجبور تھے ۔ ہاؤس آف سعود مقدس سرزمین کی حفاظت کے نام پر ایسی کثیر القومی فورس چاہتے ہیں، جو نہ صرف ان کی حفاظت کرے بلکہ ان کی بادشاہت کے خلاف اٹھنے والی اندرونی بغاوتوں کو بھی کچلنے کی مکمل استعداد کی حامل ہو۔ علاوہ ازیں اس فوج میں وہ قابل بھروسہ پیشہ ور لوگ شامل ہوں جو اعلٰی مراعات کے عوض انہیں اعلٰی سکیورٹی کے یقین میں مبتلا رکھیں۔

Abubakr Usmani
About the Author: Abubakr Usmani Read More Articles by Abubakr Usmani: 2 Articles with 1266 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.