اسلام میں سلام کرنے کی اہمیت و افادیت

دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس بات کا رواج چلا آرہا ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہارِ محبت کے لئے ایک دوسرے سے کہیں ۔ چنانچہ اسی حقیقت کے پیش نظر قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے باہمی موانست و اظہارِ محبت کے لئے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ’’ سلام‘‘ کرنے اور دوسرے مسلمان کا پہلے مسلمان کے ’’ سلام‘‘ کا جواب دینے کا حکم صادر فرمایا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ’’ترجمہ: اور جب تم کو کوئی ( مشروع طور پر) ’’سلام‘‘ کرے تو تم اس (سلام) سے اچھے الفاظ میں ’’سلام ‘‘کرو(یعنی جواب دو) یا (جواب میں ) ویسے ہی الفاظ کہہ دو (تم کو دونوں اختیار دیئے جاتے ہیں)۔ ‘‘

قرآن مجید میں لفظ ’’سلام‘‘ کے لئے ’ ’تحیہ‘‘ کالفظ مذکور ہے جس کے لفظی معنی ہیں کسی کو ’’حیاک اﷲ‘‘ کہنا ، (یعنی اﷲ تعالیٰ تم کو زندہ رکھے۔)چوں کہ زمانہ قبل از اسلام میں عرب لوگوں کی عادت یہ تھی کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تو ایک دوسرے کو ’’حیاک اﷲ‘‘ یا ’’ انعم اﷲ بک عینا‘‘ یا ’’ انعم صباحا‘‘ وغیرہ الفاظ سے ’’سلام‘‘ کیا کرتے تھے ، اسلام نے اس ’’طرزِ تحیہ‘‘ کو بدل کر ’’ السلام علیکم ‘‘ کہنے کا طریقہ جاری کیا ، جس کے معنی ہیں : ’’ تم ہر تکلیف اور رنج و مصیبت سے سلامت رہو۔‘‘

علامہ ابن العربی ؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف’’ احکام القرآن‘‘ میں لکھا ہے کہ لفظ’’ سلام ‘‘اﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور ’’ السلام علیکم‘‘ کے معنی ہیں : ’’اﷲ رقیب علیکم ‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ تمہارا محافظ اور نگہبان ہو۔

’’اسلامی سلام‘‘ کا اگر دیگر مہذب قوموں کے ’’سلاموں‘‘ کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ’’ اسلامی سلام‘‘ جتنا جامع ہے کوئی دوسرا ’’سلام ‘‘اتنا جامع نہیں ہوسکتا ، اس لئے کہ’’ اسلامی سلام‘‘ میں صرف موانست و اظہارِ محبت ہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اس میں ایک سلام کرنے والا مسلمان بھائی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے اﷲ تعالیٰ سے دعاء کرتا ہے کہ: ’’اﷲ تعالیٰ آپ کو تمام آفات و بلیات سے سلامت رکھے۔‘‘ پھر دعاء بھی عرب لوگوں کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں بلکہ ’’حیاتِ طیبہ‘‘ ( یعنی تمام آفات و بلیات سے محفوظ رہنے ) کی دعاء ہوتی ہے ، اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ میں اور آپ ٗ ہم دونوں اﷲ تعالیٰ کے محتاج ہیں اورہم دونوں ایک دوسرے کو نفع اور ضرر اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچاسکتے ۔ اس معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ کلمہ (سلام) ایک عبادت بھی ہے اور اپنے مسلمان بھائی کو اﷲ تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔

اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ سے یہ دعاء مانگ رہا ہے کہ میرے ساتھی کو تمام آفات و بلیات سے محفوظ فرمادے تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ آپ میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہیں اور میں تمہاری جان ، مال ، اور آبرو کا میں محافظ ہوں ۔

حضور نبی کریمؐ نے مسلمانوں کے باہمی ’’سلام‘‘ کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور اس عمل کو سب اعمال سے افضل قرار دیا ہے اور اس کے فضائل و برکات اور اس کا (خوب) اجر و ثواب بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم مؤمن نہ ہو ، اور تمہارا ایمان (اس وقت تک) مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ، میں تم کو ایک ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی ، وہ یہ کہ آپس میں’’ سلام‘‘ کو عام کرو ، یعنی ہر مسلمان کو سلام کرو خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم)

حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ : ’’ ایک شخص نے رسول اﷲ ؐ سے دریافت کیا : ’’ اسلام میں سب سے افضل عمل کون سا ہے؟۔‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’ تم لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور سلام کو عام کرو چاہے تم کسی کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔‘‘ ( بخاری و مسلم)

حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو ’’سلام‘‘ کرنے میں ابتداء کرے۔ ‘‘ ( ترمذی ، ابو داؤد ، مسند احمد)

حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ سلام‘‘ اﷲ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے زمین پر اتارا ہے ، اس لئے تم آپس میں ’’سلام‘‘ کو عام کرو ، کیوں کہ مسلمان آدمی جب کسی مجلس میں جاتا ہے اور اہل مجلس کو سلام کرتا ہے تو اس شخص کو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا ایک بلند مقام حاصل ہوجاتا ہے ، کیوں کہ اس نے سب کو ’’سلام‘‘ (یعنی اﷲ تعالیٰ کی یاد دلائی) اگر مجلس والوں نے اس کے ’’ سلام‘‘ کا جواب نہ دیا تو ایسے لوگ اس کے ’’سلام‘‘ جواب دیں گے جو اس مجلس والوں سے بہتر ہیں (یعنی اﷲ تعالیٰ کی نورانی مخلوق فرشتے)۔(مسند بزار ، معجم کبیر )

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ بڑا بخیل وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔‘‘( طبرانی ، معجم کبیر)

آنحضرتؐ کے ان ارشادات کا صحابہ کرامؓ پر جو اثر ہوا اس کا اندازہ صرف ا س ایک روایت سے ہوجاتا ہے جو طفیل بن ابی بن کعبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ اکثر بازار میں صرف اس لئے جایا کرتے تھے کہ جو مسلمان ملے اس کو ’’سلام‘‘ کرکے عبادت کا ثواب حاصل کیا جائے ، کچھ خریدنا یا فروخت کرنا مقصود نہ ہوتا تھا ۔( مؤطا امام مالک)

سب سے افضل تو یہ کہ ’’سلام‘‘ کا جواب اس سے بہتر الفاظ میں دیا جائے ، اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم ویسے ہی الفاظ اس کے جواب میں کہہ دینے چاہئیں جیسے کہ سلام کرنے والے نے کہے ہوں ۔ چنانچہ ایک مرتبہ آنحضرتؐ کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور کہا: ’’السلام علیک یا رسول اﷲؐ!‘‘آپؐ نے اس کے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا : ’’ وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ‘‘ ۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا : ’’ السلام علیک یا رسول اﷲ ورحمۃ اﷲ۔‘‘ آپؐ نے اس کے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا : ’’ وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ و برکاتہ ۔‘‘ پھر ایک تیسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا : ’’ السلام علیک یارسول اﷲ و رحمۃ اﷲ و برکاتہ ۔‘‘ آپؐ نے جواب میں صرف ایک کلمہ : ’’وعلیک‘‘ ارشاد فرمایا ، ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اﷲ ؐ ! : ’’ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ! پہلے جو حضرات آئے آپؐ نے ان کے جواب میں کئی کلمات دعاء کے ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپؐ نے ’’ وعلیک‘‘ پر اکتفاء فرمایا ۔‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’ تم نے ہمارے لئے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے ، تم نے سارے ہی کلمات اپنے’’ سلام‘‘ میں جمع کردیئے ، اس لئے ہم نے قرآنی تعلیمات کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کرلیا ۔( ابن جریر و ابن ابی حاتم)

اس سے معلوم ہوا کہ ’’ سلام‘‘ کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دینے کا مطلب یہ ہے کہ مزید الفاظ بڑھا کر جواب دیا جائے اور الفاظ کا یہ بڑھانا بھی صرف تین کلمات تک ہی مسنون ہے اس سے زیادہ مسنون نہیں ، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مکمل ’’سلام‘‘ کرنے والے شخص کو صرف ایک کلمہ کہہ دینے سے بھی اس کے ’’سلام‘‘ کا برابر سرابر جواب ہوجاتا ہے ۔

جب کسی مسلمان کو ’’سلام‘‘ کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا واجب ہوجاتا ہے ، اگر بغیر کسی شرعی عذر کے وہ جواب نہ دے تو وہ گناہ گار ہوگا، البتہ جواب دینے میں اسے دو باتوں کا اختیار ضرورہے ،ایک یہ کہ جن الفاظ میں ’’سلام‘‘ کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دے اور دوسرے یہ کہ بعینہٖ انہیں الفاظ میں جواب دے دے۔

ویسے تو جمہور علماء کے نزدیک ’’سلام‘‘ میں ابتداء کرنا’’ سنت غیر مؤکدہ‘‘ ہے لیکن بعض علماء اسے ’’ سنت مؤکدہ ‘‘ کا درجہ دیتے ہیں جو کہ واجب کے قریب قریب ہوتا ہے تاہم اس کا جواب دینا بہر حال واجب ہے، بلکہ حضرت حسن بصریؒ سے تو یہاں تک مروی ہے کہ’’ سلام‘‘ کا جواب دینا فرض ہے۔(تفسیر بحر محیط)

سوار کو چاہیے کہ وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے ، اور پیدل چلنے والابیٹھنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔اسی طرح گھر میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ اس سے ’’سلام‘‘ کرنے والے کے لئے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لئے بھی ۔ (ترمذی)

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ : ’’ جب ایک ہی مسلمان سے بار بار ملاقات ہو تو ہر مرتبہ اسے’’ سلام‘‘ کرنا چاہیے اور جس طرح اوّل ملاقات کے وقت ’’سلام‘‘ کرنا مسنون( اور ثواب کی چیز )ہے اسی طرح رخصت ہوتے وقت بھی ’’سلام ‘‘ کرنا مسنون اور ثواب کی چیز ہے۔‘‘ ( ابو داؤد)

یاد رہے کہ چند صورتوں میں ’’سلام ‘‘کرنا اور اس کا جواب دینا سخت منع ہیں : (۱) نماز پڑھتے ہوئے ۔ (۲) خطبہ دیتے ہوئے ۔ (۳) قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے۔ (۴) اذان دیتے ہوئے ۔ (۵) اقامت کہتے ہوئے ۔ (۶) دینی کتابوں کا درس دیتے ہوئے۔ ( ۷) اور وضوء استنجاء کرتے ہوئے وغیرہ۔ان تمام
صورتوں میں ’’سلام‘‘ کرنایا ’’سلام‘‘ کا جواب دینا دونوں سخت منع ہیں۔
 
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.