محبت مصطفی ﷺ
(Malik muhammad Shahbaz, )
محبت سے مراد کسی کو دل و جان سے چاہنا ،
اس کی خاطر اپنا تن ، من ، دھن قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنااور
اپنی تمام خوشیاں اپنے محبوب کے نام پر قربان کرنے کا جذبہ محبت کہلاتا
ہے۔محبت کی کئی صورتیں ہیں ، یہ کسی انسان ، حیوان ، چرند پرند ، یا کسی
مصنوعی چیز سے بھی ہو سکتی ہے ۔ محبت کی چاہے کوئی بھی صورت ہو ہر صورت میں
جذبہ ایثار کی مثالیں ملتی ہیں۔محبت مصطفی ﷺ تمام قسم کی دنیاوی محبت سے
بالا تر ہے ۔ہر کلمہ گو مسلمان کو حضور اکرم ﷺ سے دلی محبت ہے اورہر مسلمان
محبت مصطفی ﷺ میں اپنے مال و جان ، والدین ، عزیزواقارب کو قربان کرنے سے
ذرا بھی دریغ نہیں کرتا۔صحابہ کرا م رضی اﷲ عنہم کی زندگی سے محبت مصطفی ﷺ
کی بیشمار سنہری مثالیں ملتی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اپنے گھر بار
، کاروبار تو چھوڑ دیئے مگر حضور اکرم ﷺکی محبت کا دامن نہ چھوڑا۔محبت
مصطفی ﷺ کی خاطر ان کو ہجرت بھی کرنا پڑی اور کاروباری نقصان بھی اٹھانا
پڑے مگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اپنے جان و مال ، کاروبار ، جائیداد کی
پرواہ نہیں کی بلکہ حضور اکرم ﷺ کے ایک حکم پر لبیک کہتے ہوئے فوراً نکل
پڑے۔محبت مصطفی ﷺ کی خاطر انہوں نے جنگیں بھی لڑیں اور فاقے بھی برداشت کیے
۔ غزوہ خندق کے موقعہ پر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے بھوک کی شدت کی وجہ سے
پیٹ پر پتھر باندھ لیے مگر حضور اکرم ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا اور محبت مصطفی کا
ایسا عملی مظاہرہ کیاجس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔
حضرت خبیب ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کو سولی پر چڑھانے کی تیاری ہورہی
تھی ۔ آپ ؓ سے کہا گیا کہ کلمہ چھوڑ دیں یا کم از کم اتنا ہی کہہ دیں کہ آج
نعوذ باﷲ میری جگہ میرا نبی ﷺ سولی پر ہوتا تو تمہیں آزاد کردیا جائے گا۔
حضرت خبیب ؓ کی آنکھوں میں سمندر امڈ آیا ، آپ ؓ نے فرمایا کہ تم لوگ نعوذ
باﷲ میرے مصطفی ﷺ کوسولی پردیکھنا چاہتے ہو جبکہ میں تو یہ بھی برداشت نہیں
کرسکتا کہ میرے مصطفی ﷺ کے پاؤں میں ایک کانٹا بھی چبھے۔کفار نے جذبہ محبت
دیکھا اور حیران ہو کر پوچھا کہ اگر ایسا ہی معاملہ ہے تو پھر رو کیوں رہے
ہوتو حضرت خبیب ؓ نے فرمایا کہ میرا رونا اس وجہ سے ہے کہ آج میرے پاس صرف
ایک جان ہے جو میں قربان کرنے جارہا ہوں ۔کاش میرے پاس ہزار جانیں بھی ہوتی
تو میں حضور اکرم ﷺ کی محبت پر قربان کرنے سے ذرا بھی دریغ نہ کرتا۔تما م
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی زندگیاں حضور اکرم ﷺ کی محبت سے مالا مال تھیں
اور انہوں نے اپنی جان قربان کرناتو گوارا کر لیا مگر محبت مصطفی ﷺ سے منہ
نہیں موڑا۔ ہزاروں سختیاں اور تکالیف کو برداشت کرنا تو پسند کر لیا مگر
محبت مصطفی ﷺ میں بے وفائی نہیں کی۔کالے رنگ والے حضرت بلال حبشی ؓ (جو کہ
امیہ نامی یہودی کے غلام تھے )نے اسلام قبول کر کے حضور اکرم ﷺ کی غلامی
قبول کی تو اس کے مالک امیہ نے تکلیفیں دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
حضرت بلال حبشی ؓ کو گرم ریت پر گھسیٹا جاتا رہا مگر حضرت بلال حبشی ؓ نے
احد ، احد کا نعرہ نہیں چھوڑا۔ جوں جوں حضرت بلال ؓ اﷲ کی وحدانیت کے نعرے
لگاتے اس کا مالک امیہ سختی زیادہ کرتا ۔کسی نے حضرت بلال حبشی ؓ سے کہا کہ
تم آہستہ آہستہ کلمہ پڑھ لیا کرو تا کہ تم تکلیفوں سے بچے رہو تو حضرت بلال
حبشی ؓ نے فرمایا کہ میری جان تو جا سکتی ہے مگر میں کلمہ حق کہنے سے باز
نہیں آسکتا۔حضرت بلال حبشی کو حضور اکرم ﷺ کے دین سے محبت کا کمال انعام
ملا ، آپ موذن رسول ﷺکہلائے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے حضرت بلال
حبشی ؓ کو بیت اﷲ کی چھت پر چڑھ کر آذان دینے کا حکم دیا تو حضرت بلال ؓ کی
خوشی کی انتہا نہ رہی اور امیہ کی طرف سے ملنے والی ساری تکلیفیں ختم
ہوگئیں۔ حضرت بلال حبشی ؓ کو ہی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ جب حضور اکرم ﷺ معراج
پر تشریف لے گئے تو حضرت بلال حبشی ؓ کے قدموں کے چلنے کی آواز جنت میں
سنائی دے رہی تھی۔ حضرت بلال حبشی ؓ کو یہ اعلیٰ مقام صرف اور صرف محبت
مصطفی ﷺ کی خاطر ہر طرح کی دنیاوی تکلیفیں برداشت کرنے کی وجہ سے ملا تھا۔
حضرت بلال حبشی ؓ کی طرح دیگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے بھی محبت مصطفی ﷺ
کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے گھر کی
ساری دولت لاکر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کر دی۔ اور اس کے علاوہ آپ ﷺ
کو اپنے کندھوں پر سوار کر کے غار تک لے گئے۔ وہاں اپنی چادر کو پھاڑ پھاڑ
کر سوراخ بند کردیئے اور جو سوراخ باقی رہ گئے ان کو اپنے پاؤں سے بند کر
کے حضور اکرم ﷺ کو غار میں داخل ہونے کی درخواست کی۔ حضور اکرم ﷺ آرام فرما
رہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاؤں پر موذی جانور ڈنک مارتا رہا اور
حضرت ابوبکر صدیق ؓ تکلیف برداشت کرتے رہے مگر حضور اکرم ﷺ کی نیند میں خلل
نہیں ڈالا۔ یہ محبت مصطفی ﷺ کی بہت اعلیٰ مثال ہے ۔ موذی جانور کے متعدد
بار ڈنک مارنے اور تکلیف برداشت سے زیادہ ہوجانے کی وجہ سے حضرت ابوبکر
صدیق ؓ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے جس کی وجہ سے حضوراکرم ﷺ بیدار ہوئے اور
اس صورت حال کا علم ہونے پر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاؤں پر اپنا
لعاب دہن لگایا جس کی وجہ سے درد میں افاقہ ہوا۔الغرض تمام صحابہ کرام رضی
اﷲ عنہم محبت مصطفی میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے اور حضور اکرم ﷺ پر اپنی جان
قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔
صحابہ کرام ؓ کی طرح صحابیات ؓ بھی محبت مصطفی ﷺ میں اپنی مثال آپ
تھیں۔چودہ سو سال پہلے جب حضور اکرم ﷺ کا دور عظیم تھاکہ صبح صبح کفار نے
انصار مدینہ ( صحابہ کرام ؓ ) سے سوال کیا کہ ایسی کیا وجہ تھی کہ گزشتہ
رات بھر آپ مسلمانوں کے گھروں میں لالٹینیں ، دیئے اور روشنیاں ساری رات
چلتی رہیں ؟ کیونکر روشنیاں معمول کے مطابق بند نہیں کیں؟ ۔صحابی رسول ﷺ کا
جواب سونے کے پانی سے لکھنے والا ہے۔ انصار مدینہ فرماتے ہیں کہ اے کفار
سنو!۔ ہمارے نبی حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ پر اﷲ کی طرف سے ایک حکم نازل ہوا
ہے۔نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے ہمیں حکم سنایا ہے اور ہم اور ہماری
مسلمان عورتیں رات بھر اس حکم کی پیروی کرنے کے لیے ، حکم بجا لانے کے لیے
انتظامات میں مشغول تھیں جس کی وجہ سے ہمارے گھروں میں روشنیاں رات بھر
جلتی رہیں۔کفار نے پوچھا کہ ایسا کیا حکم نازل ہو گیا کہ جس کی خاطر تمام
مسلمان رات بھر سونے کی بجائے کسی کام میں لگے رہے؟ ۔ انصار مدینہ نے جواب
دیا کہ اے کفار! نبی پاک ﷺ پر یہ حکم نازل ہوا ہے کہ مسلمان عورتوں کو پردے
کی تلقین کریں۔ اور یہ حکم ہمیں اﷲ کے رسول ﷺ نے سنا یا ہے اور ہمارے گھروں
میں اس قدر کپڑا موجود نہیں تھاکہ ہم اس حکم کو بجا لا سکیں اور ہماری
خواتین پردے کا اہتمام کر سکیں لہذا ہم اور ہماری عورتیں رات بھر اس حکم پر
عمل کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے کپڑے کے ٹکڑوں کو جوڑ جوڑ کر پردے کے لیے چادر
کا بندوبست کرتے رہے ہیں تا کہ بغیر کسی حیلے و بہانے کے بر وقت پردے کا
اہتمام کیا جا سکے ۔یہ سب صحابہ کرام ؓو صحابیاتؓ کی حضور اکرم ﷺ سے محبت
کی وجہ سے تھا اور ایسی عظیم محبت کی کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔
محبت مصطفی ﷺ کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ میں سنت نبوی ﷺ سے
رہنمائی حاصل کریں اور دکھاوے سے پرہیز کرتے ہوئے صحیح طور پر حضور اکرم ﷺ
کی سنت کی پیروی کریں اور ہر حال میں آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کو بجا
لائیں۔حضور اکرم ﷺ کی محبت و اطاعت کے بغیر کسی صورت بھی گزارا نہیں۔ حضور
اکرم ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کے حوالے سے قرآن کریم میں واضح احکامات
موجود ہیں۔ ارشادباری تعالیٰ ہے : اطیعواﷲ و اطیعوالرسول ۔۔ ( ترجمہ : اﷲ
اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو)۔ قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ ارشاد کا
مفہوم کچھ یوں ہے کہ اے نبی ﷺان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر اﷲ سے محبت کرنا
چاہتے ہو تومیری پیروی کرو اﷲ تم سے خود محبت کرے گا اورتمہارے پچھلے تمام
گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور اﷲ بڑا غفورالرحیم ہے۔قرآن کریم کی ان آیات
میں حضور اکرم ﷺ سے محبت کے احکام روز روشن کی طرح واضح ہیں۔اور اس میں کسی
قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔اطاعت رسول ﷺ کے بغیر ہمارا چھٹکارا
ممکن نہیں ہے اور ہمیں ہر حال میں حضور اکرم ﷺ کی اطاعت و فرمانبداری بجا
لانی چاہیے۔ ہمیں صحابہ کرام ؓکی طرح حضور اکرم ﷺ کے ہر حکم پر فوراًعمل
پیرا ہونا چاہیے اور کسی بھی قسم کی سستی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں
حضور اکرم ﷺ کے حکم کے سامنے آنے والے دنیاوی مفاد کو قربان کر کے اطاعت
رسول ﷺ اور محبت رسول ﷺکا مظہر ہونا چاہیے۔ہماری شادیاں ، ہمارا جینا مرنا
، خوشی غمی ، ہمارا لباس ، بیٹھنا اٹھنا ، کھانا پینا ، چال ڈھال ،کاروبار
، نیز زندگی کا ہرشعبہ سنت رسول ﷺ کے عین مطابق ہونا چاہیے۔یہی محبت مصطفی
ﷺ کا حقیقی تقاضا ہے ۔ اسی میں ہماری کامیابی ہے اور اسی میں ہماری نجات
ہے۔اﷲ پاک ہمیں صحیح معنوں میں محبت مصطفی ﷺ بجا لانے اور اپنی تمام زندگی
حضور اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
|
|