آج نہیں تو کل

تاریخ کاسبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا ، آج نہیں توکل اس نظام نے تبدیل ہونا ہے لیکن یہ بات میاں برداران سمجھ نہیں رہے ہیں ۔اب ان کا وقت ختم ہونے والا ہے ہر عروج کے بعد زوال آتا ہے سالوں سے قوم کو بتانے والے میاں صاحبان کہ ہماری پوری دولت اور سرمایہ کاری پاکستان میں ہے جس کا فائدہ انہوں نے ہمیشہ الیکشن میں اٹھایا کہ میاں صاحبان محب وطن ہے جو آج بھی ہے ان کی ساری سرمایہ کاری ملک میں ہے بیرونی ملک ان کا کچھ بھی نہیں عام لو گوں کو توچھوڑئیں اہل قلم اور صحافیوں کو بھی معلوم نہ تھا کہ ان کی دولت اور سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں بلکہ ملک سے دولت بیرونی ممالک میں جمع کررہے ہیں اور وہاں پراپرٹی سمیت کئی بزنس کررہے ہیں جو آج بھی معلوم نہیں کہ کس کس ملک میں ان کی دولت ہے بقول میاں صاحب کے وکیل کے کہ ان کی پاناما میں آنی والی جائیداد یعنی لندن فلیٹ تو ایک مونگ پھلی ہے اس کے علاوہ کس کس ملک میں ان کی دولت ہے اس کا حساب رکھنا ہی مشکل ہے۔ اگرپاناما انکشاف نہ ہوتا تو آج بھی میاں صاحبان عوام کو اسی طرح دھوکے میں رکھتے جس طرح انہوں نے تیس سال سے رکھا تھا۔

ایک طرف دنیامیں وہ ممالک ہے جس کے خلاف ہماری مساجد میں بدعائیں کی جاتی ہے کہ اے اﷲ ان ممالک کو تباہ کر دے جو مسلمانوں کے خلاف سازش کررہے ہیں میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر اﷲ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول کرتا تو شائد دنیا میں آج دوسرے مذاہب کے لوگ زندہ نہ ہوتے،ہم اپنی نااہلیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری دوسروں پرڈالنے کے عادی ہوچکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی سازشوں سے نہیں اپنے عمل سے کامیابی اور ناکامی ملتی ہے۔آج ان غیراسلامی ممالک میں انصاف کا نظام امیرو غریب ،وزیراور بادشاہ سب کے لئے برابر ہے ،کوئی قانون سے بالاتر نہیں اسلئے وہ ممالک ترقی یافتہ ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ کہ اسلام کانام لینے والی پارٹیاں کرپٹ حکمرانوں کو بچانے کیلئے کھڑے ہیں جہاں ان کو آواز بلند کرنا چاہیے تھا وہاں کرپشن کی دفاع کی جاتی ہے۔ہم مثالیں تو دیتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات یہ اور وہ ہے جہاں حضرت عمر ؓسے نئی کرُتے کا سوال تو کیا جاتا ہے لیکن خود ایسے سوالوں کاجواب دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔

وجہ جو بھی ہو میاں صاحبان کی سچائی پوری قوم پرواضح ہوگئی ہے کہ انہوں نے پاکستان سے دولت لوٹ کر بیرونی ممالک جمع کی جس کا پاناما سکینڈل میں پوری قوم کو معلوم ہوا ،الحمدو لہ ﷲ کہنے سے حرام حلال نہیں ہوتا اور نہ ہی ملوٹ اور لوٹ مار کی اجازت مل جاتی ہے ۔کرپشن صرف یہ نہیں کہ آپ کو کسی کام کرنے کے لاکھوں روپے دیے جائے ،یہ ساری کرپشن اور لوٹ مار ہی کہلائی جاتی ہے جو آپ کوسرمایہ کار کروڑوں اور اربوں روپے گفٹ کی شکل میں دیتے ہیں جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ۔سرکاری ڈھکے ان ممالک اور لوگوں کو دیے جاتے ہیں جس کاریٹ ہمیں ماضی کے موٹروے اور آج کے میٹرو بس اور اورنج ٹرین میں معلوم ہوچکا ہے کہ بھارت اور امریکا سے بھی زیادہ ہے ۔

دل خون کے آنسوروتا ہے جب ایک طرف ہمارے حکمران بادشاہوں والی زندگی گزرتے ہیں غریبوں کے ٹیکسوں سے علاج معالجے اور عیاشیاں کرتے ہیں جب کہ دوسری جانب غریب دووقت کی روٹی کے لئے اپنی عزتیں نیلام کرتے ہیں ۔بے روزگار نوجوان حالات سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں ،باپ غربت کی وجہ سے بچوں کو زہر دیتے ہیں جبکہ مائیں بچوں سمیت کنوؤں اور دریامیں ڈوبتی ہے ۔غریب کی زندگی نہ کل اچھی تھی اور نہ ہی آج اچھی ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق مہنگائی میں ہرسال نہیں بلکہ ہر دن اور ہفتے کو اضافہ ہورہاہے جبکہ غریب کی آمدنی پہلے سے بھی کم ہوگئی ہے۔ میاں صاحبان ہو یا دوسرے ملک کو لوٹنے والے ان کو حساب آج نہیں تو کل دینا ہوگا ان کا وقت پورا ہوچکا ہے جھوٹ اور فریب سے مزید ٹائم پاس نہیں کیا جاسکتا ۔ اربوں بلکہ کھربو ں روپے ہونے کے باوجود ہر جگہ ہر وقت ان کو بدعائیں ہی ملتی ہے۔پاکستان سمیت پوری دنیامیں جس دولت کو وہ بچوں کی دولت بیٹی کی گفٹ اور مرحوم والد کی دولت قرار دے رہے ہیں آج وہ سزا بناکر ان سے سوال کررہی ہے کہ قوم کو سچ بتایا جائے کہ یہ دولت اور جائیدادیں کیسی بنائی گئی ہے؟آج یہ دولت ان کو سہولت اور آرام دینے کی بجائے مصیبت اور پریشانی کاباعث بنی ہے۔

حکمرانوں کو نہیں اہل قلم کو بھی حالات کا ادارک کرنا چاہیے کہ ملک میں ناانصافی اور ظلم وزیادتی کو کیسے روکا جائے ؟ اداروں کو کیسے خودمختاراور آزاد بنایا جائے تاکہ عام لوگوں کی زندگی بھی بہتر ہوجائے ، ہسپتالوں میں ان کو بیڈ اور علاج ملیں۔دوائیاں دس نمبر نہیں بلکہ ایک نمبر ملے،سرکاری اسکولوں میں ان کے بچوں کو بھی اچھی تعلیم ملے،تھانوں میں غریب کی بھی دادرسی ہو،قاتلوں کوسزا ملے ،عدالتی نظام کو بہتر بنایا جائے جہاں آج انصاف کے لئے تین تین نسلوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔سب سے بڑھ کر مارکیٹوں میں خالص اشیاء کی فراہمی یقینی بنادی جائے، میرٹ اور انصاف کا نظام ایسابنایا جائے جہاں لوگ دنیامیں مثالیں دے یہ سب کچھ ناممکن نہیں اور نہ ہی اتنا مشکل ہے کہ ہونہیں سکتا صرف اچھے ارادے کی ضرورت ہے ، جہاں میٹرو بسوں اور اورنج ٹرین کیلئے تین سو ارب روپے قرضہ لے کربنانے کا عزم ہو جبکہ ملک کے پورے ریلوے نظام کو بہتر کرنے کیلئے تین ارب موجود نہ ہوجس کی وجہ سے آئے روزحادثات رونما ہورہے اگر ان سے فرصت ملیں تو ملک کا نظام بھی ٹھیک کیا جاسکتاجس کو اگرآپ نے نہیں تو کسی اور نے ضرور تبدیل کرنا ہے ،حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے آج نہیں تو کل اس فرسودہ نظام نے تبدیل ہونا ہے۔ آپ سے پہلے حکمرانوں کو بھی اتنا ہی یقین تھا کہ ہم ہی رہیں گے لیکن وہ بھی ماضی کا قصہ بن چکے ہیں ۔
 
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226332 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More