مسلکی جنگ کی تباہ کاریاں اور امریکی صدر ٹرمپ

اس میں شک نہیں کہ امریکہ کسی کی عزت کرنا نہیں جانتا ۔وہ مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے، وہ یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندووں کے ساتھ تو مخلص ہوسکتا ہے لیکن مسلمان اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔ اس کے باوجود کہ سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے جس نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرا کر خودکوانسانیت کا سب سے بڑا دشمن ثابت کیا ۔ اگر کوئی مسلم حکمران امریکہ جاتا ہے تو اسے توہین آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر امریکی مطالبات کو پورا کرنے کی یقین دہانی بھی کرانی پڑتی ہے۔ اگر امریکی جرنیل یاسینیٹر کسی مسلم ملک میں آتے ہیں تو وہ وائسرائے کی طرح حکم چلاتے ہیں ۔ڈومور کا سلسلہ یہاں بھی جاری رکھتا ہے ۔کسی نے کیاخوب کہا ہے کہ نہ امریکہ کی دوستی اچھی اور نہ دشمنی ۔ امریکہ دشمن کو تو چھوڑ سکتا ہے دوست کو نہیں چھوڑتا۔ دنیا بھر میں امریکی سفار ت خانے سازشوں کے گڑھ ، سی آئی اے اور بدنام زمانہ تنظیم بلیک واٹر تنظیم کے ایجنٹوں کے گڑھ ہیں ۔امریکہ سفارتی آڑ میں بطور خاص مسلم ممالک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کو پرموٹ کرتا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ دنیا بھر میں حکمرانوں کی جاسوسی کرنا، حکومتیں تبدیل کرنے ، مقامی صحافیوں کو خریدنے اور امریکی مفادات کے مطابق مقامی طور پر لابی اور مافیا تشکیل دینے کا فریضہ بھی امریکی سفارت خانے ہی کامیابی سے انجام دیتے ہیں ۔ یاد رہے کہ امریکہ ہی وہ ملک ہے جس نے کیمیکل اور آتشی اسلحے کا بے دریغ استعمال کے ساتھ ساتھ کارپٹڈ بمباری کرکے دس لاکھ بے گناہ اورمعصوم افغانوں قتل کیا ۔پاکستان میں بھی ڈارون حملوں کی زد میں آکر شہید ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے ۔امریکہ کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں میں جا کر بدمعاشی کرے اور وہاں بے گناہ عوام کے خلاف اپنی اسلحی طاقت استعمال کرے ۔کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے ۔ جوامریکہ افغانستان اور پاکستان میں بھی کر رہا ہے ۔ فرینڈلی بمباری کی اصطلاح بھی امریکہ ہی کی ایجاد کردہ ہے ۔ یہ فرینڈلی فائرنگ مسلم ممالک میں ہی کی جاتی ہے امریکہ یا کسی یورپی ملک میں ایسا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔عراق اور ایران کی دس سالہ جنگ کی پشت پر بھی امریکہ ہی کامکروہ چہرہ دکھائی دیتا ہے جس نے عراقی صدر صدام کی پیٹھ ٹھوک کر دو مسلم ممالک کی طاقت کو ختم کردیا، جب یہ جنگ ختم ہوئی تو عراق میں امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کا واویلا کرکے لاکھوں مسلمانوں کو قبرستان میں پہنچا دیا ۔انبیاء اور اولیاکرام کی مقدس سرزمین کو اپنے ناپاک قدموں تلے روند ڈالا ۔صدام حسین کا خوف دلاکر سعودی عرب جیسے مقدس ترین ملک کو بھی جنگ کی لپیٹ میں لے آیا ۔ خلیجی جنگ کے تمام اخراجات وصول کرکے امریکہ نے سعودی عرب کو کنگال کر دیا ۔اب شام میں داعش کا حوا کھڑا کرکے حکومت اور مخالفین کے مابین ایسی خانہ جنگی شروع کروا ئی کہ اب وہ ملک انسانی المیے کی بدترین مثال نظر آتاہے۔ جس میں ایک طرف امریکہ ، فرانس ، برطانیہ اور سعودی عرب ہیں تو دوسری جانب بشار الاسد کی حکومت ، ایران اور روس پوری طاقت کے ساتھ شامی مسلمان بچوں عورتوں اور شہریوں کو اذیتوں بھری موت کی نیند سلا رہے ہیں ۔ اس منحوس جنگ میں دونوں جانب سے شامی مسلمان ہی مشق ستم بن رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر کفن میں لپٹی نعشیں دور تک قطاروں میں پڑی دکھا کر ہر انسان کا کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن جن ممالک کی زمینی و ہوائی افواج بدترین درندگی اور وحشت کا مظاہرہ کررہی ہیں ان کے ماتھے پر شکن بھی دکھائی نہیں دیتی ۔ایک جانب سعودیہ سارے مسلمانوں کو اہل حدیث بنانے اور دوسری جانب ایران پوری انسانیت کو شیعہ بنانے نہ ختم ہونے والی جنگ میں پوری طاقت سے شریک ہے اور اپنے تمام وسائل اس مسلکی جنگ میں جھونکی جارہی ہے ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ نہ ایران پیچھے ہٹنے کو تیار ہے اور نہ سعودیہ ۔39 اسلامی ملکوں کی فوج بنانے کا کیا فائدہ اگر اس کی موجودگی میں شام ، یمن ، عراق ، لیبیا ہی آتش دان نظر آتے ہیں اور وہاں انسانیت چیخ رہی ہے ۔ حالانکہ یہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں جنہوں نے عراق ، لیبیا ، شام ،صومالیہ ، سوڈان اور یمن کواس حد تک پہنچایاہے اور تفرقے کی نہ ختم ہونے والی آگ کچھ اس طرح بھڑکائی کہ آج تمام اسلامی ممالک قومیتوں میں تبدیل ہوکر ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ امریکہ انیسویں صدی کا سب سے بڑا قاتل ملک ہے ۔ اب رہی سہی کسر ٹرمپ پوری کردیں گے جو دماغی طور پر ہی نارمل دکھائی نہیں دیتے ۔قدرت جب کسی قوم پر عذاب نازل کرنا چاہتی ہے تو ٹرمپ جیسے بدترین حکمران ان پر مسلط کرتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ امریکہ سپر طاقت ہے اور اس کی خامخواہ مخالفت سے بچنا چاہیئے کیونکہ ایک جانب بدترین دشمن بھارت ہمارے تعاقب میں ہے تو دوسری جانب پاکستان کشمیر میں استصواب رائے کے ساتھ ساتھ ایک گیم چینجر منصوبے کی تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس وقت امریکہ یا بھارت کی جانب سے کسی مہم جوئی کے نتیجے میں سی پیک جیسا کثیر الامقاصد منصوبہ پس پشت جاسکتا ہے جس کا ناقابل تلافی نقصان پاکستان کوپہنچ سکتاہے ۔ پھر پاکستان کو کشمیر کی آزادی اور بھارت کی آبی جارحیت کے خاتمے کے لیے بھی امریکہ کی ضرورت پڑسکتی ہے ۔ شاید اسی لیے پاکستانی حکمران ٹرمپ کے امتیازی فیصلوں کے خلاف بات کرنے سے گریزاں ہیں ۔ قصہ مختصر یہ کہ جب تک ایران اور سعودی عرب اپنی مسلکی جنگ کو ختم کرکے امریکہ اور روس کو اپنے ممالک سے باہر نہیں کریں گے اس وقت تک نہ تو مسلم اتحاد وجود میں آسکتا ہے اور نہ ہی مسلم امہ کی مشترکہ فوج کے تصور کو حقیقت کا روپ دیاجاسکتا ہے ۔ اسلامی ممالک خود اپنے اور ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے ہیں ان کی تباہی کے لیے کسی تیسرے ملک کو زحمت کی ضرورت نہیں ۔افغانستان میں کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو بھارت کے ایماپر پاکستان پر الزام لگ جاتاہے ۔سعودی عرب میں کچھ ہوتا ہے تو ایران کو ذمہ دار قرار دیاجاتاہے اگر ایران یا لبنان میں کچھ ہوتا ہے تو سعودی عرب کو مورد الزام ٹھہرایا جاتاہے ۔ اس باہمی چپقلش کی وجہ سے کشمیر ی، فلسطینی ، چیچینا ئی ، شامی ، برمی ، یمنی ، افغانی اور عراقی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ۔مسلم ممالک کے بے اعتنائی دیکھ کر بین الاقوامی میڈیا اور طاقتور ممالک نے بھی اپنی آنکھیں دانستہ بند کررکھی ہیں ۔ جب تک مسلکی جنگ ختم نہیں ہوتی اور ہم دوسرے ملکوں کو خود مداخلت کا موقعہ فراہم نہیں کرتے اس وقت تک ذلت اور رسوائی ہمارا مقدر بنی رہے گی ۔
Asma Aslam
About the Author: Asma Aslam Read More Articles by Asma Aslam: 781 Articles with 662094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.