لم و عرفان کا آفتاب و ماہتاب - حضرت علامہ غلام محمد گھوٹوی رحمتہ اﷲ علیہ

’’المامون ‘‘کے حوالے سے
تحریر: علامہ قاضی غلام ابوبکر مہروی
تلخیص : ڈاکٹر قاضی حسین احمد مدنی
فاتح قادیانیت ،قاطع احمد یت و مرزائیت، عالمِ ربانی، سیف یزدانی ،واقف رموز عرفانی، حضرت شیخ الجامعہ فرسٹ وائس چانسلر فرسٹ فاؤنڈر جامعہ عباسیہ (حال) دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور ، محقق علی الاطلاق ،فخر العلماء سید المحدثین ،حضرت قبلہ غلام محمد گھوٹوی رحمتہ اﷲ علیہ کی ذات ستودہ صفات براعظم ایشیاء میں کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ کا نام آتے ہی اہل علم و ادب اور صاحبان تقویٰ کی گردنیں جھک جاتی ہیں ، سینہ انکی یاد سے روشن، اور ذہن انکی علمی عملی خوشبو سے معطر ہو جاتا ہے ۔ یقینا علم ان پر ناز کرتا تھا وہ انسانیت کا زیور اور دھرتی کا فخر تھے ۔

تاجدار گولڑہ رحمتہ اﷲ علیہ انہیں دیکھ کر فرماتے تھے غلام محمد گھوٹوی قرآنی آیت بستطافی العلم و الجسم کی عملی تفسیر ہے بلند قدو کاٹھہ کو علم کی رفعت نے اوج ثریا تک پہنچا دیا تھا ،صرف، نحو ،اقلیدس ،فقہ، اصولیات فلکیات ، نجوم، الغرض وہ ہر فن اور ہر علم میں نہ صرف ید طولی رکھتے تھے بلکہ گوہر یکتا تھے ۔

دھرتی پر اس دعوائے حقیقت میں وہ فضیلت جزئیہ سے متصف تھے کہ وہ قرآن کریم کی چھے ہزار چھے سو چھیاسٹھ آیات بینات سے یعنی ہر آیت مبارکہ سے ختم نبوت ثابت کر سکتے تھے اور یہ عمل بے انتہا ، قوت استدلال ،بصیرت استنباط کے بغیر ممکن نہ تھا تو یقینا یہ بصیرت، ملکہ، اور رسوخ بارگاہ نبوت Vسے عطا ہوا تھا ۔
نام و نسب: آپ کا نام نامی اسم گرامی غلام محمد ،والد کا نام محمد عبد اﷲ اور جد امجد کا اسم مبارک محمد خان تھا ،نسبی عظمت کے اعتبار سے آپ معززو موقر ذمہ دار گھرانے کی ایک شاخ کنگ جٹ سے تعلق رکھتے تھے جو علاقہ بھر میں معزز ومحترم سخاوت غریب پروری اور خدا ترسی میں معروف اور مثالی تھا جو خداداد قائدانہ انتظامی صلاحیتوں سے مالامال تھا ، مؤرخین نے آپ کے سلسلہ نسب کو نوشیرواں عادل تک رقم کیا ہے آپ کا مقام پیدائش قصبہ گمرالی کلاں نزد منگو واں ضلع گجرات ہے آپ کا سن ولادت بالا تفاق ۱۸۸۵ء ہے ۔

آپ کے مندرجہ ذیل القابات زبان زد عام و خاص ہیں ، شیخ الاسلام، بحر العلوم ، شیخ الجامع للشریعت زیب سجادہ تدریس، حجۃ اﷲ فی الارض، سرخیل و اصلاں، رہنمائے عارفاں۔

ٹھیکریاں شریف وہ مقام ہے جہاں شیخ الاسلام حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر lکی اولاد امجاد سکونت پذیر تھی آپ نے اسی مرکزی بستی سے حفظِ قرآن کریم کی دولت سمیٹی، آپ کے استاد قاری حافظ محمد دین گنج شکری فاروقی تھے ۔

چکوڑی شریف کی عظیم درسگاہ میں علامہ محمد چراغ گنج شکری فاروقی جو شمس العارفین سیالوی قدس سرہ کے فیض یافتہ تھے سے متداول ابتدائی علوم حاصل کئے ۔

جب تاجدار گولڑہ درس گاہ میں تشریف لائے تو آپ کی خدمت میں گھوٹوی صاحب کو پیش کیا گیا تو آپ نے چند سوالات پوچھے توجسکے غلام محمد گھوٹوی نے جوابات کی تقریر ایسی کی جیسے وہ خود کتاب کے مصنف ہوں تاجدار گولڑہ نے بے حد توصیف و تحسین فرمائی اور ماتھا چوم کر بیعت سے سرفراز فرمایا اس وقت آپکی عمر مبارک تیرہ برس تھی اور یہ تاریخی الفاظ دھرائے عبقری صفات کا حامل طالب علم ہے اور فرمایا تعلیم کی لذت اور عشق جس دل میں سرایت کر جائیں وہ ذلک الکتاب کا بھی ہو کر رہے جاتا ہے جناب شیخ الجامعہ نے تحصیل علم کی خاطر گھر بار آرام و آسائش سے منہ موڑا والدین اور عزیز و اقارب کی جدائی برداشت کی تب کہیں جا کر انہیں علم کی معراج نصیب ہوئی ۔

آج اسلامیہ یونیورسٹی کے ماتھے پر آپ کا نام آفتاب کی طرح روشن ہے جو جامعہ کی علمی عظمت کی حقیقت کو ثابت کرتا ہے ۔

اس کے بعد آپ کی منزل ، مضافات ملتان میں واقع محمد پور گھوٹہ نامی ایک بستی ٹھہری جہاں نابغہ روزگار محدث و مفسر علامہ محمد جمال الدینlموجود تھے شرح وقایہ، میر قطبی ، ملا جلال، الفیہ ابن مالک، میبذی، حسامی ،سلم العلوم شرح چمکنی ،حاشیہ سیالکوٹی ،زینی زادہ، مختصر ، مطول ہدیہ العارفین، کشف الغمہ ، کشف الظنون، معجم البلدان، ارشاد العریب جیسی ادق کتب پڑھنے کا موقع ملا ۔

یاد رہے آپ کے استاد جمال الدین کے اساتذہ کا نام بھی ملاحظہ فرما لیں ، مولانا عبید اﷲ ملتانی ، غلام مرتضیٰ چیلے واہنی ،حضرت خدابخش خیرپوری جیسے علمائے کرام شامل تھے ۔ آپ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۱ء تک گھوٹہ میں رہے ۔

قاضی والا تلہیری ضلع میاں والی میں شیخ چکی ایسے بہت سارے شہروں میں بے شمار اساتذہ کرام سے کسب فیض علم کیا جب آ پ کی مطالعاتی تدریسی تعلیمی اسفار کا مطالعہ کیا جائے تو شیخ الاسلام امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اﷲ علیہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔

حضرات محترم ایک انتہائی حیران کن انکشاف اس وقت آپ نے جامعہ عباسیہ میں پی ایچ ڈی کا مستقل اجرا کیا پی ایچ ڈی ڈگری کو شیخ الشریعت الاسلامی کا نام دیا جسے اب ڈاکٹر آف فلاسفی کا نام دیا گیا ہے ۔ سید محمد علی شاہ ، میر محمد الداعی ،حضرت قاضی عظیم الدین مرحوم پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر تھے ۔ الجامعہ العباسیۃ الشریف میں طب یعنی میڈیکل سائنس کی تعلیم کا اجرا بھی آپکے عہد میں ہوا ۔

علمائے کرام کا خراج تحسین
ہنگری کا ایک بین الاقوامی مطالعاتی وفد دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کا معائنہ کرتے ہوئے برصغیر میں وارد ہوا اس وقت جامعہ عباسیہ کی تعلیمی شہرت جامعہ ازہر سے کم نہ تھی و ہ لوگ خاص طور پر تنقیدی پوائنٹ آ ف ویو سے عظیم الشان تعلیمی مرکزی جامعہ عباسیہ آگئے انہوں نے ریاستی وزارت تعلیم کے مقتدر نمائندوں کے ساتھ کلاسوں کا دورہ کیا اس وقت جناب گھوٹوی اصول فقہ کی معروف کتاب توضیح و تلو یح کا سبق پڑھا رہے تھے ۔

وفدمیں شامل نمائند ے کئی زبانوں کے سکالرز تھے وہ آپکے عربی زبان میں لیکچر وضاحت و شراحت کو سن کر حیران رہ گئے انہوں نے آپ کو شیخ افصح العرب ، افصح الناس کا لقب عطا کیا پھر افسوس سے کہنے لگے اتنے بڑے چوٹی کے سکالر کو کسی بھی بین الاقوامی یونیورسٹی میں پر وقار مشاہرہ پر تعینات ہونا تھا یہ تو قلیل مشاہرہ پر ایک چھوٹے سے شہر میں تعینات ہیں ، علمی وجاہت تو انہوں نے دیکھی مگر وہ فقر اور ادائے قلندرانہ فاقہ کشی ، غیرت ، حب والوطنی سے پوری طرح آشنانہ تھے ۔

جناب محترم! اسی طرح سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا ایک وفد مطالعاتی دورے پر جامعہ میں آدھمکا کلاس رومز لائبریری ، کیٹ لاگ، نظام الاوقات، نصاب میں شامل کتب، نصاب تعلیم میں شامل افراد ساز کتب کو دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا اور برملا پکار اٹھے سر سید نے تو ایسے نظام کیلئے پوری تحریک چلائی تھی تب جاکر جزوی کامیابی نصیب ہوئی شیخ الجامعہ اور انکی ایجوکیشن کمیٹی کے رفقائے کار نے کیا خوب کارنامہ کر دکھایا ہے قدیم و جدید نصاب تعلیم کا حسین امتزاج ،نفس کتاب کے ساتھ ساتھ مطالب معانی مفاہیم جناب گھوٹوی نے انہیں کتب کے مدارج پر بریفنگ دی اور برملا فرمایا ۔
۱۔انتخاب کتاب، ۲۔تلاش کتاب، ۳۔حصول کتاب، ۴۔مطالعہ کتاب ،۵۔ افادۃ کتاب ،۶۔ تشریح کتاب، ۷۔ترویج کتاب،۸۔ مقاصد کتاب، ۹۔تکریم کتاب پھر کیا تھا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے نمائندے عش عش کر رہے تھے

آکسفوڈ کے طلباء کو اساتذہ کو اب ناز ہے کہ وہ بڑی تعلیمی درس گاہ سے پڑھ کر آئے ہیں ، ہم نے کئی آکسفوڈ فاضلین کی تعلیمی قابلیت کے مظاہرے دیکھے ہیں ’’الامان و الحفیظ ‘‘علم و ہ ہے جو کردار ساز ہو، پاکباز افراد اسکی وجہ شہرت ہوں ، علامہ گھوٹوی کو اس وقت کے جید ترین علمائے کرام نے غواص فی علم الحدیث کا لقب عطا کیا تھا ، پاکدامنی، شرافت ، عصمت مآبی، حق گوئی ، علم دین کے جیومیٹری باکس ہیں ۔

حضرات محترم!
کسی پاک طینت نے مسیلمہ کذاب ، کسی نے طلیحہ ، کسی نے متنبی، کسی نے راجپال کو اور محدث گھوٹوی نے برسر عدالت قادیانیت اور احمدیت کے دجال کو دیکھتی آنکھوں اور ڈھڑتے دلوں کے سامنے مصلوب کر دیا ۔ اہل حق صرف دیوار پر نہیں دار پر بھی کلمہ حق کا پرچم جس شان سے بلند کرتے ہیں وہ شان صدیوں سلامت رہتی ہے وقت کی بے ثباتی اور مرور زمانہ خود اس پرچم کو اٹھا کر لیظھرہ علی الدین کلہ کا اعلان کرتے ہیں ۔

حضرت شیخ الاسلام و المسلین غلام محمد گھوٹوی بروز سوموار۲۷ ربیع الثانی ہجری ۱۳۶۷بمطابق ۸مارچ ۱۹۴۸ء وصال فرمایا ۔

آہ علم و عرفان کا پیکر ، مجسمہ تقویٰ و طہارت شیخ الشریعت و الطریقہ، بحر العلوم ، شیخ الجامعہ جسے اﷲ تعالیٰ نے شیخ ابوعلی سینا، جابر بن حیان ،محمد بن زکریا رازی، یعقوب کندی ،البیرونی، جامی ، رومی ، غزالی ، فردوسی اور حافظ جتنا علم عطا کیا تھا ۔
غالب بقول حضرت حافظ ، ز فیض عشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما

شیخ الجامعہ رحمتہ اﷲ علیہ کی اولاد امجاد کا تعارف ایسا ہے جیسے اس آیتہ مبارکہ کا مفہوم ہو ۔ آپ کی اولاد امجاد کی ترتیب و مثل کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھاثابت و فرعھافی السماء فرزند ارجمند حضرت قبلہ شیخ الحدیث ، نائب شیخ الجامعہ ، عبد الحی چشتی ، حضرت علامہ پروفیسر غلام احمد قادری چشتی ، (پوتے )حافظ غلام معین الدین جنید ، پروفیسر حافظ غلام نصیر الدین شبلی ، پروفیسر علامہ حافظ جی اے حق محمد ریسرچ سکالر دعوت اکیڈمی ، علامہ حافظ فیض الحسن بختیار ،عزیزم جناب عبد القیوم برگیڈئیر پاک آرمی ، غلام محمد مثنی آفیسر اسٹیٹ بینک پاکستان ،(پڑپوتے) عزیز القدر محمد جمال ، محمد بلال تدریسی مصروفیت کے ساتھ ساتھ گو نا گوں انتظامی امور کی بخوبی خوش اسلوبی سے انجام دہی کی وجہ سے آپ کی چند تالیفات اور مصنفات کا مؤرخین نے تذکرہ کیا ہے ۔ آپ کے فتاویٰ اور آراء کو مستقل تالیفات کا درجہ دیا گیا ہے ۔ اور مقدمہ بہاول پور آپ کی علمی وجاہت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

زکریا ٹاؤن براستہ دیوان پلی بہاول پور میں عظیم الشان الشیخ الجامع سیمینار مورخہ7فروری بروز منگل دن 1بجے منعقد ہوگا ۔ جس میں پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شاہناز خطاب فرمائیں گے ۔ صدارت علامہ غلام معین الدین جنیدجبکہ مقالہ جات قاضی غلام ابوبکر ، مولانا خدا بخش مہروی ، مولانا نوید احمد بندیالوی پڑھیں گے ۔

یہ عظیم الشان سیمینار پیر طریقت سید ظفر علی شاہ صاحب سجادہ نشین دربار عالیہ مہریہ کی زیر سرپرستی ہوگا ۔
Aas Muhammad Chaudhary
About the Author: Aas Muhammad Chaudhary Read More Articles by Aas Muhammad Chaudhary: 3 Articles with 13817 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.