سوئمبرقدیم ہندوستان کی ایک مشہور روایت
ہے۔راجہ کی بیٹی جب جوان ہوجاتی تو وہ شادی کا سوئمبر رچاتا تھا ۔ رامانند
ساگر اور بی آر چوپڑا کی بدولت سیتا اور دروپدی کے سوئمبر سے سارے لوگ
واقف ہیں ۔ اس دورمیں شادی کا رشتہ اس طرح نبھایا جاتا تھا کہ رام کو بن
باس ملا تو سیتا نے بھی محل چھوڑ دیا ۔ ایک کے بجائے دودوبار اگنی پریکشا
دی ۔ ویاس رشی کی کٹیا میں لو اور کش کو جنم دیا مگر رام کے گن گاتی رہی ۔
دروپدی کو ارجن بیاہ کر لائے مگرنابینا ماں کنتی نےپانچ بھائیوں میں تقسیم
کردیا اور وہ بھی اسے جوئے میں ہار گئے لیکن اس کے باوجود وفاشعاری میں
کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ یہ توست یگ کے قصے ہیں کل یگ کاہرانتخاب ایک نیا
سوئمبرسجاتا ہے۔ اقتدار کی دیوی ورمالا لے کر آن بان کے ساتھ نمودار ہوتی
ہے۔ امیدوار اپنی قسمت آزمانے کیلئے بن سنور کر میدان میں آتے ہیں ۔
ٹکٹوں کا بازار لگتا ہےجہاں وفاداریاں سرِ عام نیلام ہوتی ہیں۔کوئی بی جے
پی سے شیوسینا میں آتا ہے تو کوئی سماجوادی سے بی جے پی کارخ کرتا ہے۔ گلی
کوچوں ،بازاروں ، اخباروں اور ٹیلی ویژن پراس تماشے کو دیکھ کرعوام سردھنتے
ہیں۔
جغرافیہ کی کتاب میں چار سمتیں ہوا کرتی تھیں مشرق ، مغرب، شمال اور جنوب
لیکن تاریخ کی کتاب میں بادشاہوں کو اوپر نیچے آتے جاتے دیکھ کر اندازہ
ہوا کہ دوسمتیں اور ہیں لیکن جب نفسیات کی کتاب دیکھی تو پتہ چلا اندر اور
باہر کی بھی مختلف سمتیں ہیں اس لئے کہ انسانوں کاظاہر اور باطن بھی مختلف
ہوتا ہے ۔ اگر کوئی اس تقسیم سے اتفاق نہ کرتا ہو تو ممبئی کے بلدیاتی
انتخاب کا نظارہ کرلے۔ ممبئی کے رائے دہندگان کو دوبڑے حصوں میں تقسیم کیا
جاسکتا ہے ۔ مسلم اور غیر مسلم ۔ غیر مسلمین میں ہندو ہیں اور بودھ مت کے
ماننے والے دلت بھی ہیں۔ یہ تو ہوگئی مذہبی تقسیم اب نظریاتی سطح رائے
دہندگان سیکولر اور ہندوتونواز طبقات میں منقسم ہیں ۔ یہ سارے تقسیم در
تقسیم ووٹرس چاہتے ہیں کہ ان کا ووٹ تقسیم نہ ہو اور ان میں نظریاتی یا
مذہبی بنیاد پر اتحاد قائم ہوجائے لیکن ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ممبئی کی حدتک مسلمانوں کی دو بڑی جماعتیں ہیں ایک سماجوادی پارٹی اور
دوسرے اتحادالمسلمین ۔ یہ دونوں جماعتیں کسی بھی سیکولر یا فسطائی جماعت کے
ساتھ کھلا یا چھپا معاہدہ کرسکتی ہیں لیکن ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملا
سکتیں۔ دلتوں کو لے لیجئے اس کے دو بڑے گروہ پرکاش امبیڈکر اور رام داس
اٹھاولے کی قیادت میں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں ۔ ان میں سے ایک بی جے
پی کے ساتھ اور دوسرا تنہا کھڑا ہے۔ اس اکیلے پن کی واحد وجہ یہ ہے کہ بی
جے پی نے اٹھاولے کو اپنی گود میں بٹھا لیا ہے ورنہ یہ براجمان ہوتا۔ ہندو
رائے دہندگان جو سیکولر اور غیر سیکولر کے زمرے میں بنٹے ہوئے ہیں ان کے
سامنے دھرم سنکٹ یہ ہے کہ سیکولرزم کے دو دو علمبردار ایک دوسرے کے خلاف خم
ٹھونک کر میدان میں ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں ۔ دونوں کے نام میں کانگریس
تو مشترک ہے لیکن ان کے درمیان اتحاد کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ہندوتوا کے حامی ہندو سماج کا حال تو اور بھی خراب ہے۔ ان کے سامنے آگ اور
کھائی کی طرح بی جے پی اور شیوسینا ہے۔ دہلی کے اندر ان دونوں جماعتوں کا
الحاق ہے ۔ شیوسینا کے وزیر مرکزی حکومت کے اقتدار سے استفادہ کررہے ہیں ۔
صوبائی حکومت میں بھی شیوسینا کو بی جے پی نے اپنی جورو بنا رکھا ہے اور اس
کا نان نفقہ برداشت کرتی ہے مگر بلدیاتی انتخاب میں ان کی آپس میں نہیں
بنتی بلکہ اب تو گھرکے اندر کی تو تو میں میں آئے دن چوراہے کی زینت بن
جاتی ہے۔ ویسے راج ٹھاکرے کی ایم این ایس کو بھی ایک زمانے تک امید سے
دیکھاجاتاتھا لیکن اب اس کی حالت متاع کوچہ و بازار کی سی ہوگئی ہے کہ اس
کی جانب ہرنگاہ خریدار کی طرح اٹھتی تو ہے مگر کوئی پوچھ کر نہیں دیتا۔
مسلمانوں کو اپنے انتشار اورسیاسی بے وزنی کا بجاطور افسوس ہے لیکن یہ وباء
عام ہے۔ اس بیماری کے جراثیم موجودہ سیاسی نظام سے نکل کر آتے ہیں اس
لئےہر کوئی اس کا شکار ہے ۔
اتحادالمسلمین اور سماجوادی پارٹی کا جس طرح مسلمانوں کی فلاح بہبود پر
اتفاق ہے اسی طرح کی یکجہتی کا اظہار بی جے پی اور شیوسینا بھی ہندووں کے
حوالے سے کرتی ہے اس کے باوجود ان میں سے کوئی مل جل کر انتخاب نہیں لڑتا۔
پچھلے دنوں بی جے پی نے ایک حکمنامہ کے ذریعہ سرکاری دفاتر سے مذہبی تصاویر
کو بصد احترام ہٹانے کا فرمان جاری کیا گیا ۔ شیوسینا نے اس کی مخالفت کی
اور بی جے پی کے اس اقدام کو کانگریس سے بدتر قرار دیا۔ اس کے بعد بی جے پی
کی صوبائی حکومت نے رجوع کرلیا ۔ اس گھوم جاو سے ظاہر ہے کہ دونوں جماعتیں
نظریاتی سطح پر ہم آہنگ ہیں اور ان کے رائے دہندگان مشترک ہیں جن کا خیال
کیا جاتا ہے اس لئے کہ سوریہ نمسکارکے فیصلےپر ایسا رویہ اختیار نہیں کیا
گیا۔
شیوسینا کے ساتھ اس فکری ہم آہنگی کے باوجود آخر بی جے پی کے اختلاف کی
وجہ کیا ہے؟ بی جے پی کےبقول اس کی وجہ ممبئی کی ابترشہری سہولیات ہیں جس
کیلئے شیوسینا کی بدعنوانی ذمہ دار ہے ۔ نوٹ بندی کے بعد سے بی جے پی کیلئے
بدعنوانی ایک بہت اہم مدعا ہے لیکن افسوس کہ اپنی کمزور حالت کے سبب وہ
پنجاب میں بدعنوانی کی عظیم ترین علامت اکالی دل کے ساتھ الحاق کرنے پر
مجبور ہے۔ پنجاب میں تو ویسے بھی بی جے پی ایک جونیر پارٹنر ہے اور اکالی
دل کے بغیر اس کا وجود خطرے میں ہے مگر مہاراشٹر کے اندر بغیر کسی مجبوری
کے اس نے محض اپنی حلیف شیوسینا کو بلیک میل کرنے کی خاطر شرد پوار کو بدم
وبھوشن کا اعزاز دے کر کرپشن کی کلہاڑی خوداپنے پیر پرمارلی ۔
یہ ابن الوقتی کی انتہا نہیں ہے تو کیا ہے کہ ڈھائی سال قبل انتخابی مہم کے
دوران وزیراعظم نے کہا تھا این سی پی کا پورا نام نیچرلی (فطری) کرپٹ پارٹی
ہے۔ انہوں نےہندی میں وضاحت کی تھی کہ یہ راشٹروادی نہیں بلکہ بھرشٹا چار
وادی کانگریس پارٹی ہے۔ این سی پی کے انتخابی نشان گھڑی کا تمسخر اڑاتے
بولے تھے اس کی گھڑی میں ہمیشہ دس بج کر دس منٹ ہوتے ہیں اس کے معنیٰ ہیں
کہ گذشتہ دس سالوں میں اس نے بدعنوانی میں دس گنا اضافہ کیا ہے اور اگر اسے
پھر سے منتخب کردیا گیا تو یہ ۱۵ گنا ہوجائے گا۔ وزیراعظم نے الزام لگایا
تھا کانگریس کے ساتھ مل کر این سی پی نے سرکاری خزانہ لوٹ لیا ہے۔ جب سے یہ
پارٹی بنی ہے اس کے رہنما نہیں بدلے ۔ بارامتی کے اندر وزیراعظم نے اعلان
کیا کہ شردپوار اور ان کے بھتیجے نے اپنی جکڑ بندیوں سے اس علاقہ کے عوام
کو اپنا غلام بنارکھا ہے۔
اس شور شرابے کے ڈھائی سال بعد بی جے پی کی مرکزی حکومت نے شردپوار کو پدم
وبھوشن جیسے اہم ترین قومی اعزاز سے نوازددیا۔ یہ کارنامہ اس حکومت نے کیا
جس نے کروڈوں بے قصورلوگوں کو بدعنوانی کے خاتمہ کی دہائی دے کر اے ٹی ایم
کی قطار میں بلاوجہ لگا دیا اور ان میں سے تقریباً ۱۰۰ لوگوں لائن میں کھڑے
کھڑے دم توڑ دیا ۔ گجرات کے اندرمعیشت کا عالمی اجلاس منعقد کرکے بدعنوانی
سے پاک ہندوستان بنانے کا وعدہ کیا اور اس کو نبھاتے ہوئے ایک ہفتہ کے اندر
بقول خود ملک کے سب سے بڑے بدعنوان رہنما کو دوسرا سب سے بڑاقومی تمغہ عطا
کر دیا گیا۔ یہ سب صرف اور صرف اپنی سیاسی حلیف شیوسینا پر دباو بنانے
کیلئے کیا گیا تاکہ اس نظریاتی حریف پر دباو بنایا جاسکے ۔ شیوسینا اور بی
جے پی کے ظاہر میں بندوتوا کے سبب رفاقت تو ہے مگر باطن میں رقابت بھری ہے۔
یہی سبب ہے کہ پدم وبھوشن دیتے وقت مرکز کی بی جے پی حکومت کو شردپوار کی
یاد تو آتی ہے مگر بال ٹھاکرے کا خیال نہیں آتاحالانکہ یہ اعزاز موت کے
بعد بھی دیا جاسکتا ہے۔
پیشہ ور سیاستدانوں کا مطلوب ومقصود اقتدار ہوتا ہے اور اس کے حصول کا
راستہ انتخاب سے ہوکر گذرتا ہے اس لئے یہ تو بیچارے مجبورہں مگر عوام کو تو
اس سے بظاہر کچھ نہیں ملتا اس کے باوجود وہ اس قدر جوش و خروش سے اس جمہوری
تماشے میں حصہ کیوں لیتے ہیں ؟ یہ اہم سوال ہے۔ اس کی دو وجوہات میں سے ایک
مادی ہے اور دوسری نفسیاتی۔ ویسے یہ خیال غلط ہے کہ انتخاب سے عوام کچھ بھی
نہیں ملتا ۔ سیاسی جماعتیں جو کروڈوں روپئے انتخابی مہم کے دوران خرچ کرتے
ہیں وہ کہاں جاتا ہے؟ اس کا بڑا حصہ کسی نہ کسی صورت میں بلواسطہ یا
بلاواسطہ عوام کے ہاتھ آتا ہے۔ عوام پوسٹر بینر بناتے اور لگاتے ہیں اور
یہ کام بلا معاوضہ نہیں ہوتا۔ اب تو جلسہ جلوس میں شرکت بھی رضا کارانہ
نہیں ہوتی دیگر سہولیات کے علاوہ دھرنے، جلسے اور اس طرح کی دیگر سرگرمیوں
میں شریک ہونے کا الگ الگ نرخ مقرر ہے۔ پچھلے دنوں لکھنومیں وزیراعظم کی
مہاریلی میں شریک کرنے کیلئے بی جے پی کا کوئی رہنما ۴۰۰ روپئے فی نفر کا
وعدہ کرکے لوگوں کو لے آیا اور ۲۰۰ روپئے فی فرد تھما کر بھاگ گیا۔ شرکائے
جلسہ نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس دھوکہ دھڑی کی شکایت ٹی وی چینلس پر کردی ۔
اس واقعہ سے سیاسی انحطاط کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔
انتخابی عمل کا نفسیاتی فائدہ یہ ہے عوام کی دلآزاری کرنے والے رہنما کی
جب تذلیل کی جاتی ہے تو عوام کو یک گونہ سکون محسوس ہوتا ہے۔ ادیتہ ناتھ کو
جب اعظم خان برا بھلا کہتے ہیں تو مسلمانوں کی باچھیں کھلِ جاتی ہیں اور جب
ادیتہ ناتھ ٹرمپ کی حمایت میں مسلمانوں پر پابندی کی بات کرتا ہے تو ہندو
بغلیں بجاتے ہیں۔ اس کیفیت کوفلموں کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ فلمی پردے
پر جب مزدورہیرو اپنے مالک کا سر پھوڑدیاع ہے تو ہال میں بیٹھے سارے محنت
کش خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں انہیں ایسا لگتا ہے کسی نے پردے پر سہی جعلی
انتقام تو لے لیا۔ ظالم پولس والے پٹائی دیکھ کر مظلوم عوام کے دل میں دبی
آرزو پوری ہوجاتی ہے اور خوشی خوشی سنیما ہال سے گھر لوٹ آتا ہے۔ ایسا ہی
کچھ انتخابی جلسوں میں تقریر سن کر یا انتخابی نتائج کو دیکھ کر مظلوم و
مقہور عوام محسوس کرتے ہیں ۔ ممبئی میں رہنے والا مسلمان جانتا ہے کہ اورنگ
آباد میں مجلس کی کامیابی یا اترپردیش میں سماجوادی کے جیت جانے سے اس کا
کوئی فائدہ نہیں ہوگا پھر بھی بی جے پی کی ناکامی پر وہ خوش ہوتا ہے۔عوام
کیلئے انتخاب فی الحال ایک ایسی ہی تفریح کا سامان ہوکر رہ گئے ہیں جس میں
ان کے پیسے بھی خرچ نہیں ہوتے بلکہ چار پیسے مل ہی جاتے ہیں۔
مسلمانوں کی طرح ہندو عوام بھی نہیں چاہتے کہ ان کی ہم خیال جماعتیں چاہے
وہ سیکولر ہوں یا فسطائی ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑیں لیکن اکثر وہ ایک
دوسرے سے بنردآزما ہوتی ہیں اور یہ معاملہ سب سے زیادہ بلدیاتی سطح پر
ہوتا ہے۔ اس کی وجوہات کو اگر نہ سمجھا جائے تو بلاوجہ کی جھنجھلاہٹ کا
شکار ہونا پڑتا ہے۔ مقامی انتخابات میں مفاہمت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ
عام طور پر صوبائی سطح کے رہنما کرتے ہیں ۔ دیگر جماعتوں سے الحاق کے سبب
کئی نشستوں کو اپنے حلیف کیلئے چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ اس صورت میں اپنی جماعت
کے مقامی کارکنان میں بددلی پیدا ہوجاتی ہے۔ ان میں سے کچھ بغاوت کرکے
دوسری جماعتوں میں شامل ہوجاتے ہیں یا آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے
ہوجاتے ہیں ۔ اس صورتحال کو ٹالنے کے آسان نسخہ یہ ہے کہ الحاق کرنے کے
بجائے سارے لوگوں کو موقع دے کر اپنا احسانمند بنائے رکھناہے تاکہ ان کی
مدد سے صوبائی یا قومی انتخاب میں کامیابی حاصل کی جائے۔ اس بڑے فائدے
کیلئے اگر پنچایت یا میونسپلٹی ہاتھ سے نکل بھی جائے تو یہ معمولی خسارہ
ہے۔
ابن الوقتی کے اس دور میں انتخاب کے اندر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد
بھی مفاہمت کا موقع باقی رہتا ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد لوگ سارے گلے شکوے
بھول کر گلے مل جاتے ہیں ۔ شیوسینا اور بی جے پی نے ریاستی انتخابی مہم میں
ایک دوسرے پر خوب لعن طعن کی اور بعد میں من مٹاو کرکے گھر بسا لیا۔ جمہوری
نظام میں سیاسی مجبوریا ں بھی اس طرح کی مصالحت پر مجبور کرتی ہیں ۔
مہاراشٹر کے صوبائی انتخاب کے بعد بی جے پی نے شیوسینا سے مفاہمت کرنے کے
بجائے این سی پی کی بلاواسطہ مدد( واک آوٹ) سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا اور
تمام اہم وزارتیں اپنے قبضے میں کرلیں ۔ این سی پی کے ساتھ بی جے پی کا
مستقل اتحاد غیرفطری ہونے کے سبب دونوں جماعتوں کے رائے دہندگان پر گراں
تھا اس لئے شیوسینا سے بات چیت کا دروازہ پھر سے کھولا گیا اس لئے کہ
شیوسیناویسے بھی مرکز ی حکومت میں شریک تھی ۔
اس وقت ادھو ٹھاکرے کوبہ دل ناخواستہ معمولی وزارتوں پر راضی ہوکر مخلوط
حکومت میں شامل ہونا پڑا اس لئے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شیوسینا میں
بغاوت کااندیشہ رونما ہوگیا تھا۔ مرکز میں سریش پربھوکے انحراف اور ماضی
میں چھگن بھجبل یا نارائن رانے کی غداری سے سبق لے کر ادھو ٹھاکرے نے گھٹنے
ٹیک دیئے ۔اس بار جب ادھو ٹھاکرے سے پوچھا گیا کہ آپ نےبلدیاتی انتخابات
میں بی جے پی سے مفاہمت نہ ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت کی حمایت واپس
کیوں نہیں لی تو انہوں نے پھرسے اسی لاچاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا اس موقع
پر حکومت گرانے سے عوام پر برا اثر پڑسکتا ہے۔ یہ ادھو ٹھاکرے کی غلط فہمی
ہے کہ شیوسینا کے حمایت واپس لینے سے یہ سرکار گرجائیگی ۔ ایسا نہیں ہوگا
اس کو سنبھالنے کیلئے خود شیوسینا سے کئی کالی بھیڑیں نکل کھڑی ہوں گی اور
کئی این سی پی سے نکل آئیں گی۔
ادھو ٹھاکرے کی جو حالت انتخاب ہارنے کے بعد ہوئی ہے اسی طرح کی صورتحال
دومرتبہ انتخاب جیتنے والے امریکی صدر براک اوبامہ کی بھی تھی کہ انتخابی
مہم کے دوران انہوں نے یہودیوں کے نوٹ اور ووٹ کیلئے اسرائیل کو ۳۸ بلین
ڈالر کی فوجی امداد دے دی اور اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے چند گھنٹے قبل
فلسطین کیلئے ۲۲۱ ملین ڈالر کی رقم جاری کی جسے ٹرمپ انتظامیہ نے نظر ثانی
کے بہانے روک دیا۔ اگر یہی کام اوبامہ دوچار ماہ قبل کرتے تو کوئی رکاوٹ
نہیں ہوتی مگر سیاسی نقصانکے خوف سے وہ ایسا جرأتمندانہ اقدام نہ کرسکے ۔
امریکہ جیسی عظیم جمہوریت کا صدر اگر اس قدر مجبور ہے تو ادھو یا مودی کی
کیا بساط ؟خدا بیزار سیکولر جمہوریت پورے سماج کو خودغرض اور مفاد پرست
بنادیتی ہے۔ اسی سماج کے اندر سے سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما نکل کر
آتے ہیں ۔ اس نظام کا کل پرزہ بن جانے کے بعد ابن الوقتی اور مفاد پرستی
ان لوگوں کی مجبوری بن جاتی ہے۔
لیموں کو دودھ میں نچوڑ کر یہ توقع کرنا کہ اس سے شیرینی آئیگی ایک حماقت
ہے ۔ لیموں نہ صرف کھٹائی پیدا کرے گا بلکہ پہلے تو دودھ کو پھاڑے گا اور
پھر دہی بنادے گا۔ کسی فرد کا اخلاص اور حوصلہ مکافاتِ عمل کے اس نتیجے کو
نہیں ٹال سکتا۔ یہ تو ہوکر رہے گا اسلئے اگر کوئی قوم ان نتائج سے دوچار
نہیں ہونا چاہتی تو اسے لیموں کا متبادل شکر تلاش کرکے اس کو دودھ میں
گھولنا ہوگا ۔ اس کے نتیجہ اپنے آپ بدل جائے گا لیکن اگر ہم نے لیموں کی
شکل بدل دی۔ اس کو کاٹ کر نچوڑنے کے بجائے اس کے رس کی بوتل کا استعمال کیا
یا اسے خشک کرکے سفوف کو پڑیا میں بند کرلیا تو ان ظاہری تبدیلیوں سے نہ
تولیموں کی صفات بدلتی ہیں اور نہ اس کی اثر پذیری میں کوئی فرق ہوتا ہے۔
مغربی جمہوریت کی ترشی اور نظامِ خلافت کی شیرینی میں وہی فرق ہے جو لیموں
اور شکر میں ہے۔ |