مقبول بٹ تحریک آزادی کی علامت۔تختہ دار پر
چڑھ گئے لیکن ضمیر کا سودا نہ کیا ۔اپنی جان کی قربانی دے کرثابت کیا کہ وہ
دوسروں کو جہاد کی تلقین کر نے کے بعد اپنے مفادات اور مراعات کے غلام نہ
بنے۔اگر ایسا ہوتا تو آج نہ تو ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا اور نہ
ہی وہ آزادی پسندوں کے لئے رول ماڈل بنتے۔مقبول بٹ کے انتہائی قریب رہنے
والوں سے گفتگو کریں یا ان کے گاؤں ترہگام میں ان کے قریبی عزیز و اقارب سے
احوال پوچھیں یاان کا آبائی رہائشی مکان دیکھیں۔تو حقیقت خود بیان اور عیاں
ہوتی ہے۔سچ یہ ہے کہ وہ کشمیریوں کے ہیرو ہیں۔کوئی ان کی جگہ نہیں لے
سکتا۔افضل گورو شہید اور برہان وانی شہید سمیت تمام شہدا کا اپنا مقام
ہے۔مسلمان کا سب سے بڑا رول ماڈل آقائے نامدار حضرت محمد ﷺہیں۔لیکن کشمیر
مقبول بٹ کا احسان مند ہے۔ جنھوں نے نئی نسل کو نئی راہ دکھائی۔
مقبول بٹ ایک غیرت مندکشمیری تھا ۔جس نے آنکھیں غلامی میں کھولیں اوراپنے
گرد وپیش میں ہر کسی کو بھارتی مظالم سہتے پایا۔ اپنے ہم وطنوں کی آہ
وپکارسنی اور ان کے درد پر آہیں بھرنے اورخون کے آنسو بہانے کے بجائے کچھ
کرنے کا عہدکیا،دنیا میں خود تکلیف میں مبتلا ہو کر دوسروں کو آرام دینے
والوں کی تعداد کم رہی ہے۔لیکن مقبول بٹ کا تخت و تاج کو ٹھکرا کر تختہ پر
لٹک جانا منفرد بات ہے۔انہیں آزاد کشمیر کا صدر بنانے کی پیشکش بھی ہوئی
تھی۔لیکن ان کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ کیوں کہ وہ اپنے لئے نہیں ،
قوم کے لئے جینے کا جذبہ رکھتے تھے۔
مقبول بٹ مقبوضہ جموں وکشمیر کے ضلع کپواڑہ میں ترہگام قصبہ میں 18 فروری
1938 ء کو پیداہوئے۔ جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو ابھی تک مقبوضہ وادی میں
شہدائے 1931 ء کی یادیں لوگوں کے ذہنوں میں تازہ تھیں، ان کے والدین انہیں
شہدائے کشمیر کی قربانیوں کے بارے میں سینہ بہ سینہ گردش کرنے والی
داستانیں سناتے تھے۔ انہوں نے بھی شہدائے کشمیر کے مشن کو جاری رکھنے کا
عہد کیا اور اپنے دوستوں سے صلاح مشورے شروع کردیئے۔ پھر سفر تنہا شروع کیا
اور قافلہ بنتا گیا، کاررواں چلتا گیا، بالآخر انہوں نے مشن کو جاری رکھتے
ہوئے 13 جولائی 1931 ء کو شہدائے کشمیر کی طرح شہادت پیش کردی اور آزادی کا
ایک چراغ روشن کرگئے۔11 فروری 1984 ء کو بھارت نے مقبول بٹ کو بدنام زمانہ
جیل تہاڑمیں پھانسی پر لٹکا دیا۔ ان کا جسد خاکی آج بھی جیل میں قید ہے۔
مطالبات اور مظاہروں کے باوجود جسد خاکی کو تدفین کیلئے کشمیریوں کو نہیں
دیا جارہا ہے۔شہیدکے تدفین کیلئے مزار شہداء سرینگر اور ترہگام میں قبریں
تیار رکھی گئی ہیں۔لیکن بھارتی حکمران ان کی جسد خاکی کشمیریوں کو دینے میں
ڈر و خوف میں مبتلا ہیں۔
مقبول بٹ میں شروع سے ہی بھارت سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ موجود تھا۔ وہ
شروع میں علاقہ کے لوگوں کو خاموشی کے ساتھ مسئلہ کشمیر سے روشناس کراتے
رہے۔ وہ لوگوں کو ایک قطار میں بٹھا کر بورڈ پر کشمیر کی لکیریں کھینچ کر
انہیں غلامی کے بارے میں آگاہی دیتے تھے۔انہیں دیگر کی طرح مملکت خداداد
پاکستان سے بے پناہ محبت تھی۔1958 ء کو 20 سال کی عمر میں آزاد کشمیر پہنچ
گئے، ان کے دوست عبدالرشید پرے کے مطابق یہ پانچواں موقع تھا جب وہ آزاد
کشمیر جانے کی کوشش میں کامیاب ہوئے ۔ ایک بار وہ2 دوستوں کے ہمراہ جنگ
بندی لائن عبور کرنے کو کوشش کررہے تھے جب انہیں بھارتی فوج نے گرفتار کر
لیا، ان کی شدید مارپیٹ کی گئی۔ مقبول بٹ مظفر آبادمیں پانچ سال تک
رہے۔1962 ء میں انہوں نے تحریک کشمیر کمیٹی قائم کی ۔ جس کو بعد ازاں رائے
شماری فرنٹ میں ضم کردیا گیا۔ 1965 ء کو انہوں نے نیشنل لبریشن فرنٹ بنائی
اور مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔1966 ء میں مقبول بٹ نیشنل لبریشن فرنٹ کے
ساتھیوں سمیت مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگئے ۔بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں
ایک اہلکار ہلاک ہوا اور مقبول بٹ کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان پر قتل کا
مقدمہ چلایا گیا اور سرینگرکی عدالت نے پھانسی کی سزا سنادی۔ پھانسی کی سزا
کے دو ہفتے بعد وہ جیل کی سلاخیں توڑ کرآزاد کشمیر پہنچ گئے، جہاں انہیں
حراست میں لیا گیا۔ مقبول بٹ کو بھارتی ایجنٹ قرار دے کر ان پر مقدمہ چلایا
گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات پر انہیں رہا کردیا گیا، وہ واپس
مقبوضہ کشمیر روانہ ہوئے اور گرفتار ہوگئے۔مقبول بٹ کی رہائی کیلئے لبریشن
فرنٹ کے کارکنوں نے برطانیہ کے شہر برمنھگم میں بھارتی سفارتکار ردیندر
ماترے کو اغوا کے بعد قتل کردیا ۔اس کا کوئی ثبوت نہ تھا کہ اس میں بٹ
صاحبملوث ہیں۔
سچ یہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ردعمل میں مشتعل ہو کر بھارتی عوام کی
نام نہاد تسکین کے لئے مقبول بٹ کو پھانسی دی۔ اسی عمل کو دہائیوں بعد افضل
گورو کو پھانسی دے کر دہرایا گیا۔ مقبول بٹ کو بھارتی عدالت نے انتقامی
کارروائی کا نشانہ بنایا۔6 فروری کو برطانیہ میں بھارتی سفارتکار کو قتل
کرنے کے صرف 5 دن بعد مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی۔1971 ء میں بھارت سے فوکر
جہاز کو اغوا کرکے لاہوراتارنے اور نذر آتش کرنے کا الزام بھی مقبول بٹ پر
لگایا تھاکہ وہی اس ہائی جیکنگ کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ بظاہر مقبول بٹ کو سی
آئی ڈی پولیس افسر کو قتل کرنے کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی
لیکن حقیقت میں یہ پھانسی سیاسی وجوہات پر تھی۔ مقبول بٹ کو آزادی کا
مطالبہ اور جدوجہد کرنے پر پھانسی دی گئی۔ دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل کے
اندرمقبول بٹ کی قبر پراب عمارت تعمیر کرلی گئی اور قبر کو شہید کردیا
گیاہے۔ اس انکشاف پر کشمیر میں کافی ہنگامہ ہوا۔ افتخار گیلانی جون 2002 ء
سے جنوری 2003 ء تک تہاڑجیل میں قید رہے ہیں۔وہ گزشتہ برس پاکستان کے دورے
پر آئے تو ان سے خصوصی گفتگو میں یہ واقعہ بھی زیر بحث آیا۔لاتعداد کشمیری
انہیں اپنا نظریاتی لیڈر قرار دیتے ہیں اور انہیں جدوجہد آزادی کا بانی
سمجھا جاتا ہے۔ آزادی پسند مقبول بٹ کی پھانسی کو حراستی قتل قرار دیتے ہیں
کیونکہ مقبول بٹ کے خلاف چلنے والے مقدمے کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ
سماعت نہیں کی گئی۔ سی آئی ڈی افسر کو مقبول بٹ کے ساتھی نے گولی مار کر
ہلاک کیا لیکن پھانسی مقبول بٹ کو دی گئی۔مقبول بٹ کے وکیل اور مقبوضہ
کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلیٰ مظفر حسین بیگ نے اعتراف کیا ہے کہ مقبول بٹ
کی پھانسی انتقامی قتل تھا۔ پھانسی سے قبل قانونی ضابطے وتقاضے پورے نہیں
کئے گئے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے پھانسی کی
توثیق نامے پر دستخط نہیں کئے تھے لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں پھانسی
دیدی۔سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداﷲ ہیں جنہوں نے مقبول بٹ کے ’’
ڈیتھ وارنٹ‘‘ پر دستخط کئے۔ فاروق عبداﷲ نے ایک بار خود میرپور میں لبریشن
فرنٹ کے جلسے میں شرکت کی تھی اور کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے کا
وعدہ کیا تھا۔ بھارت کو اندازہ نہیں کہ شدید مظالم، نسل کشی، قتل عام،
زیادتیوں، آتشزنی اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کشمیریوں کو جھکانے
اور جدوجہد آزادی ترک کرنے پر آمادہ نہ کرسکیں۔ بھارت نے ایک مقبول بٹ کو
پھانسی دے کر ہزاروں مقبول بٹ پیدا کرلئے ہیں۔جو قومیں نظرئیے اور اصولوں
کی بنیاد پر اتحاد واتفاق کا مظاہرہ اور قربانیاں پیش کرنے والوں کو یاد
نہیں کرتیں،ان کے نقوش تاریخ کے اوراق سے مٹ جاتے ہیں۔مقبول بٹ نے کشمیریوں
کو آزادی کا جو پیغام دیا۔ وہ بھارت کو پریشان کرتا رہے گا۔
|