ترکی کے ساحل پرشام کے ڈھائی سالہ معصوم
ایلان کردی کی تصویرنے پوری دنیاکے ضمیرکو جھنجوڑکررکھ دیاتھالیکن ایک
مرتبہ پھرایک ویب پورٹل پرپوسٹ کی گئی روہنگیامسلم بچے کی دریاکے کنارے
کیچڑمیں لت پت مردہ حالت کی تصویر نے دہلاکررکھ دیاہے۔ برمی فوج اوربدھوؤں
کے ظلم وستم سے تنگ آکر ٣٥/ افراد کاقافلہ ایک کشتی پرسوارمیانمارسے بنگلہ
دیش کی جانب فرارہورہاتھا کہ ان کی کشتی دریاناف کے بیچ میں ڈوب گئی،یہ بچہ
اپنے خاندان کے ہمراہ اس کشتی میں موجودتھا۔فوری طورپراس بچے کانام معلوم
نہیں ہوسکاتاہم اس نے نامورعالمی استعماری اشرافیہ کے منہ پر ایک طمانچہ
رسیدکردیاہے۔ اُس وقت بھی عالمی طاقتوں کی لونڈی'' اقوام متحدہ''
گونگی،بہری اوراندھی رہی اوراب ایک مرتبہ پھر ایک عبرتناک جسد خاکی کی
تصویرمیں ایک معصوم فرشتے کے خون کے رنگ نے انسانی ضمیرکوایک دردناک چیخ
میں تبدیل کردیاہے۔
ادھوری چھوڑ کے تصویرمرگیاوہ
کوئی بھی رنگ میسرنہ تھالہوکے سوا
لیکن نوبل انعام یافتہ خونخوارآنگ سانگ چی کی سوچ میں مسلمانوں کی نسل کشی
کاذرہ بھرفرق نہیں آیا۔برماکے مسلمانوں پرقیامت ٹوٹ پڑی ہے جبکہ ظالمانہ
سوچ کی حامل سوچی حکومت کانام نہادکمیشن کہہ رہاہے کہ:ریاست رافائن میں
روہنگیامسلمانوں کی نسل کشی کاکوئی ثبوت نہیں ملا۔ برماکے مسلمانوں کی نسل
کشی کے متعلق تلخ حقائق پراقوام عالم کی مجرمانہ خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے۔
برمامیں بدھ مت کے پیروکاروں نے حکومتی سرپرستی میں روہنگیامسلمانوں پرزمین
تنگ کررکھی ہے اوربدھ دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس بھی مسلمانوں
کی نسل کشی میں مصروف ہے جس کے نتیجے میں یہ مسلمان دیگر ممالک کی طرف ہجرت
پرمجبورہیں مگرستم بالائے ستم ان کے ہمسایوں بھارت اوربنگلہ دیش نے بھی ان
کیلئے سختی سے دروازے بندکر رکھے ہیں اوراپنی طرف آنے والے ان مظلوم
مسلمانوں کوواپس موت کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ پاکستان اگرچہ میانمارکاہمسایہ
ملک نہیں اورروہنگیامسلمانوں کایہاں پہنچنابہت دشوارہے لیکن اس کے
باوجودپاکستان دو لاکھ سے زائد برمی مسلمانوں کوپناہ دے چکاہے۔رافائن ریاست
میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ نسل کشی ہورہی ہے۔ یہ بیان ان مظلوموں کاہے
جوبنگلہ دیش اوربھارت کے راستے انتہائی خطرناک سفرطے کرتے ہوئے پاکستان
پہنچے۔ کراچی میں آباد ان دولاکھ روہنگیامسلمانوں کوباقاعدہ پاکستانی شہریت
بھی دی جاچکی ہے۔
انسانی ہجرت پرکی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ یہ برمی مسلمان
کراچی میں آکرآبادہونے والے کل مہاجرین کا۱۴٪ہیں۔کراچی میں برمی مسلمانوں
کی کئی کالونیاں موجود ہیں۔کراچی میں رہنے والے سولہ لاکھ سے زائد بنگالیوں
کے ساتھ ثقافتی ہم آہنگی ہونے کے باعث یہ برمی مسلمان ان کے بہت قریب ہیں۔
چٹاگانگ کے قریب رہنے والے بنگالیوں کی زبان بھی ان برمی مسلمانوں سے کافی
ملتی جلتی ہے بلکہ وہ لہجے کے معمولی فرق کے ساتھ ایک ہی زبان بولتے
ہیں۔برماکے دہشتگردبدھی باشندوں نے مسلمانوں پرظلم وستم ڈھاکرامن و محبت کی
تلقین کرنے والے اپنے''مہاتمابدھ''کودنیابھرمیں رسوا کرڈالاہے۔ان کی
وحشیانہ کاروائیوں کی وجہ سے روہنگیامسلمان آج دنیاکے مظلوم ترین انسانی
قوم بن چکے ہیں ۔
۱۲۰۰سال قبل مسلم ہندوستانی ملاح وتاجربنگلہ دیش کے نزدیک واقع علاقے
اراکان پہنچے جواب رافائن کہلاتاہے۔رفتہ رفتہ ہندوستان،چین اورملائشیاکے
ہزارہامسلمانوں نے برما کواپناوطن بنالیا۔چندمتعصب برمی حکمرانوں کوچھوڑ
کرعام بدھیوں اورمسلمانوں کے تعلقات خوشگواررہے۔ ۱۴۰۶ء میں اراکانی بادشاہ
نارامیخالاکودشمنوں نے شکست دی تووہ بنگال فرارہوگیا،وہاں وہ شاہ بنگال
جلال الدین محمدکااعتمادحاصل کرنے میں کامیاب رہا۔۱۴۲۹ء میں شاہ جلال الدین
کی عسکری امدادسے نارامیخالانے اراکان فتح کرلیا،تب کئی بنگالی فوجی نارا
میخالا کی درخوااست پر وہیں بس گئے اور انہوں نے علاقے کوروہنگیاکانام
دیا،اسی مناسبت سے وہ روہنگیاکہلائے۔یہ نام علاقے کے قدیم صدرمرہونگ سے
ماخوذ ہے۔نارامیخالانے جس بدھی ریاست کی بنیادڈالی اس کے راجہ طویل عرصے
اسلامی بنگال سلطنت کے باجگزاررہے۔
انیسویں صدی میں انگریزوں نے اراکان پرقبضہ کرلیاتب وہ کام کاج کیلئے مزید
بنگالی مسلمانوں کوعلاقے میں لے آئے،یوں خصوصاًشمالی علاقوں میں مسلمانوں
کی آبادی٩٨٪ تک پہنچ گئی۔بیسویں صدی میں مغربی اثرات کے باعث برمامیں بدھی
قوم پرستوں نے جنم لیا۔ان قوم پرستوں نے انگریزوں کے علاوہ ہندوستانی
مسلمانوں کوبھی غیرملکی قراردے دیا،وجہ یہ بتائی گئی کہ چینی اور ملائی
مسلمان تھوڑی تعدادمیں تھے،نیزان کی اکثریت برمی معاشرے میں جذب ہوچکی تھی،
اس لئے برمی بدھیوں کوان سے کوئی خطرہ نہ تھامگرہندوستانی مسلمان اپنی
اقدار،روایات،تہذیب وثقافت زندہ رکھے ہوئے تھے۔وہ برمامیں اسلام کی تبلیغ
بھی کیاکرتے،مزیدبراں برمی کاروباراورتجارت پرچھائے ہوئے تھے۔ یہ بات بھی
قوم پسندوں کیلئے قابل برداشت نہیں تھی،انہوں نے واویلامچادیاکہ یہ لوگ
برمامیں اپنی ریاست بناناچاہتے ہیں، لہندا بدھی قوم پرست ان کے خلاف پر
تشددکاروائیاں کرنے لگے تاکہ یہ خوفزدہ ہوکرواپس ہندوستان چلے جائیں۔
۱۹۴۸ء میں اراکان کی۵۰٪آبادی روہنگیامسلمانوں پرمشتمل تھی جبکہ بقیہ باشندے
مختلف بدھی نسلی گروہوں خصوصاً رافان سے تعلق رکھتے تھے۔ اس وقت مسلمانوں
نے یہ تحریک چلائی کہ شمالی اراکان کاعلاقہ مشرقی پاکستان میں شامل
ہوجائے۔اس ضمن میں انہوں نے قائداعظم محمدعلی جناح سے رابطہ کیا، تاہم
برطانوی اوربرمی لیڈروں کی سازبازنے تحریک آزادیٔ کامیاب نہیں ہونے دی۔جب
برمی فوج نے بزورتحریک کوختم کرناچاہا تو روہنگیا مسلمانوں سے تصادم
ہوگیا۔یوں برمی حکمران طبقے(فوج،سیاستدانوں،افسرشاہی اور راہبوں)
اورمسلمانوں کے مابین طویل لڑائی کاآغاز ہواجواب تک جاری ہے۔برمی حکومت نے
وقفے وقفے سے مسلمانوں پرعسکری حملے کئے ،سیکڑوں مسلمان شہیدکرا دیئے
گئے۔دس لاکھ سے زائدبنگلہ دیش، پاکستان ،ملائشیااورسعودی عرب ہجرت کرگئے۔فی
الوقت آٹھ تادس لاکھ روہنگیا مسلمان اراکان میں مقیم ہیں۔
برمی حکومت ان میں سے بیشترکوغیرقانونی مہاجرقراردے چکی ہے ،یوں انہیں اپنے
ہی وطن میں اجنبی بنادیاگیاہے،ان پرکڑی پابندیاں عائدہیں مثلاً کوئی
روہنگیا ملازمت نہیں کرسکتااورایک خاندان صرف دوبچے پیداکرنے کامجازہے۔ غیر
قانونی مہاجرین بھی انسانیت کے ناتے حقوق رکھتے ہیں مگرامن ومحبت اور
انسانی حقوق کے علمبردارمہاتمابدھ اور سوچی کے پیروکارروہنگیامسلمانوں سے
جانوروں جیسا سلوک کررہے ہیں۔وہ اب برمامیں اچھوت بنادیئے گئے ہیں۔افسوس
ناک امریہ ہے کہ پچھلے ایک عشرے بدھی راہب مسلمانوں پرانسانیت سوزمظالم ڈھا
رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بدھیوں کے عقائدکے مطابق مہاتمابدھ کی موت کے
پانچ ہزارسال بعدبدھ مت ختم ہوجائے گاکیونکہ ۱۹۵۶ء میں بدھ کو دنیا سے رخصت
ہوئے ڈھائی ہزارسال بیت چکے ہیں لہنداان کے نزدیک زوال شروع ہوچکاہے۔راہب
اب اسی زوال سے بچنے کی خاطربرماسے مسلمانوں اورعیسائیوں کونابودکرنا چاہتے
ہیں۔ایسے انتہاء پسندراہبوں کالیڈراشین وراتھوہے جس نے ایک دہشتگردتنظیم
۶۶۹موومنٹ بنارکھی ہے۔اس تنظیم کے ارکان مسلمانوں پرتشدد کرتے ہیں۔مسلم
دشمنی کامعاشی پہلویہ ہے کہ اراکان کی آبادی راخینی بدھی سمجھتے ہیں کہ
روہنگیامقامی وسائل پرقبضہ کرکے انہیں غربت سے دوچارکیے ہوئے ہیں۔ان کی
خواہش ہے کہ سبھی روہنگیابنگلہ دیش چلے جائیں۔
پچھلے دنوں تیس برس کے بعدبرمامیں مردم شماری ہوئی ،اس موقع پراراکانی
بدھیوں نے دہمکی دی کہ اگرمسلمانوں نے فارم پرروہنگیالکھاتووہ مردم شماری
کابائیکاٹ کردیں گے چنانچہ برمی حکومت نے اعلان کردیاکہ مسلمان فارم پر
بنگالی لکھیں۔یہ روہنگیامسلمانوں کے خلاف نئی چال ہے کیونکہ اگر انہوں نے
خودکوبنگالی لکھاتومخالفین کی یہ بات درست سمجھی جائے گی کہ وہ برماکے شہری
نہیں۔بدھی غنڈے وقتاً فوقتاًمسلمانوں پرحملے کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی نسل
کشی جاری رہے ۔یہ حقیقت پوری دنیاپرروزِ روشن کی طرح واضح ہے اور
متعددعالمی فورمزپراس کااظہارکیاجارہاہے مگر حکومت میانمارکی جانب سے قائم
کیے گئے کمیشن کاکہناہے کہ اسے ریاست رافائن میں روہنگیامسلمانوں کی نسل
کشی کاکوئی ثبوت نہیں ملا۔ کمیشن کی عبوری رپورٹ میں کہاگیاہے کہ بڑے
پیمانے پرخواتین پرزیادتی کے الزامات کے بھی ثبوت نہیں ملے۔دلچسپ بات یہ ہے
کہ اس کمیشن میں سب سے اہم بات کا کہیں ذکر نہیں کیاگیاکہ فوج روہنگیا
مسلمانوں کومنظم طریقے سے قتل کررہی ہے۔کمیشن نے انسانی حقوق کے عالمی
اداروں کی''تسلی''کی خاطرکہاہے کہ وہ آتشزنی (روہنگیاکے مسلمانوں کے
گھراوراملاک جلانے)اوران پرجسمانی تشددکی فی الحال تفتیش کررہاہے۔ حتمی
رپورٹ جلدجاری کرنے کاعندیہ دیا گیاہے۔
ظالم سوچی حکومت کے قائم کردہ کمیشن کی سمجھ سے بالاترفیصلوں سے امن انعام
یافتہ کے عزائم خودبخودکھل کرسامنے آ رہے ہیں مگریہ دیکھ کر زیادہ رونا
آتاہے کہ حسینہ واجدکی بنگلہ دیشی حکومت ان ستم رسیدہ روہنگیامسلمانوں کی
کوئی پرواہ نہیں کرتی ،اس نے بہاری مسلمانوں ہی کی مانند روہنگیاؤں کوبھی
حالات کے رحم وکرم پرچھوڑرکھاہے۔ |