کچھ تو اِدھر بھی
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پنجاب میں سونے کی
کانیں دریافت ہو گئی ہیں ، جہاں کھدائی کی جاتی ہے وہیں پانی کی بجائے تیل
کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں ، گیس کی فراوانی اور راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے۔
وجہ اُس کی یہ کہ ہمارے وزیرِاعلیٰ المعروف ’’خادمِ اعلیٰ ‘‘ نے چیف
سیکریٹری اور آئی جی پنجاب پر نوازشات کے سارے دَر کھول دیئے اور اُن پر
مراعات کی اتنی بارش کی کہ شاید اُنہیں خود بھی یقین نہیں آ رہا ہو گا ۔
چیف سیکریٹری کے لیے الاؤنس کی مَد میں ماہانہ چار لاکھ اور آئی جی پنجاب
کے لیے پونے چار لاکھ الاؤنس مقرر کر دیا گیا ہے ۔ ریٹائرمنٹ پر بھی اُن کی
چاروں گھی اور سَر کڑاہی میں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چیف سیکریٹری اور آئی جی
پنجاب کو خاندان سمیت تا حیات ایک ڈرائیور اور ایک اَردلی کی سہولت میسر
رہے گی ۔ لوکل کالز ، بجلی کے یونٹ ، گیس اور ماہانہ 200 لیٹر پٹرول بھی
ملے گا ۔ پُرلطف بات یہ کہ خادمِ اعلیٰ نے یہ سب کچھ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے
ذریعے منظور کیا اور اِس سلسلے میں قانون سازی نہ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ
وہ دَرحقیقت ’’شہنشاہ‘‘ ہیں جو قانون سازی سے ماورا ہیں ۔ ایسے ہی ایگزیکٹو
آرڈرز امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جاری کیے لیکن وہاں شاید جمہوریت میں
ابھی کچھ جان باقی تھی اِس لیے عدالت نے ٹرمپ کے آرڈرز کو ’’پھڑکا‘‘ کے رکھ
دیا اور اب وہ کہتے پھرتے ہیں ’’اگر ملک میں کچھ ہوا تو اِس کی ذمہ داری
اُس جج پر ہو گی جس نے میرا حکم نامہ معطل کیا ۔ عدالتیں ہمارا کام مشکل
بنا رہی ہیں‘‘۔
خادِ مِ اعلیٰ نے سیکریٹریٹ کے گریڈ ایک سے سَترہ تک کے ملازمین کے لیے
بالترتیب تین ، چار ، پانچ اور سات ہزار روپے ماہانہ الاؤنس کی منظوری بھی
دی ہے ۔ گریڈ ایک سے چھ تک کے ملازمین کو تین ہزار روپے ماہانہ ملیں گے ۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا اِن ملازمین کے خاندان نہیں ، بیوی بچوں کوبھوک نہیں
لگتی ، سَر چھپانے کے لیے کسی چھت کی ضرورت نہیں؟۔ یوں تو ہمارے وطن کا نام
’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ہے لیکن اسلام ہے کہاں اور جمہوریت کِس چڑیا کا
نام ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ خلفائے راشدین کا سا دَور لوٹ آئے جس میں
ایک صحابیؓ کھڑے ہو کر حضرت عمرؓ سے یہ سوال کرتے نظر آئیں کہ امیرالمومنین
آپ کے حصّے میں تو ایک چادرآئی تھی ، یہ دوسری چارد کہاں سے آ گئیَ؟اور
حضرت عمرؓ جواب دیں کہ طویل القامت ہونے کی وجہ سے ایک چادر سے وہ اپنا جسم
ڈھانپ نہیں سکتے تھے اِس لیے اُن کے بیٹے نے اپنے حصّے کی چادر بھی اُنہیں
دے دی۔ نہ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ خادمِ اعلیٰ مسجد کی صفائی کرتے کرتے تھک
کر وہیں چٹائی پر سو جائیں گے کیونکہ اُن کی جان کو خطرہ ہی بہت ہے ۔ وہ تو
جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو لاہور کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں اور کوئی
پرندہ بھی وہاں پَر نہیں مار سکتا ۔ ظاہر ہے کہ ’’شہنشاہ‘‘ کی سواری کی راہ
میں کیڑوں مکوڑوں کی رکاوٹ بھلا کیسے برداشت ہو سکتی ہے ۔ ہم تو صرف یہ
کہتے ہیں کہ اگر نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے تو پھر اسلام کی تھوڑی سی
تو لاج رکھ لی جائے تاکہ ہم بھی دنیا کو کہہ سکیں کہ ہمارا وطن اسم با
مسمیٰ ہے ۔ اسلام کا پہلا اصول تو برابری ہے ۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ اگر
کسی کی وجاہت کے خوف سے انصاف کا پلڑا جھک جائے تو پھر اسلامی حکومت اور
قیصرِروم کی حکومت میں کیا فرق رہا۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ نچلے درجے
کے ملازمین بھی اُسی رَبّ ِ لَم یَزل کی مخلوق ہیں جس کے دربار میں ایک دِن
سبھی نے حاضر ہونا ہے ۔ وہاں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہو گا ، کسی عربی کو عجمی
پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ہو گی ، سوائے اعمالِ صالح کے۔
وہاں سب سے کڑا احتساب حاکمانِ وقت کا ہو گا ۔
خادمِ اعلیٰ سے سوال ہے کہ کیا اِن نوازشات کے حقدار صرف آئی جی اور چیف
سیکریٹری ہی ہیں ، باقی ملازمین کیوں نہیں۔ وہ اساتذہ کیوں نہیں ، جن کے
ہاتھوں سے پتہ نہیں ایسے کتنے چیف سیکریٹری اور آئی جی بن کر نکلے ۔ وہ
ڈاکٹر کیوں نہیں جنہیں آج بھی قابلیت کے لحاظ سے ملک کی ’’کریم‘‘ سمجھا
جاتا ہے،وہ اپنے حقوق کے لیے ہر روز سڑکوں پر دھرنے دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ
مریض کیوں نہیں جنہیں ہسپتالوں میں بیڈ تک نصیب نہیں ہوتا اور وہ ہسپتالوں
کے ننگے فرش پر تڑپ تڑپ کے جان دے دیتے ہیں۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی کو تو
پہلے ہی دنیا جہاں کی ہر سہولت میسر ہے ، اُن کے تو نام سُن کر ہی خلقِ
خُدا پر لرزا طاری ہو جاتا ہے ۔ اگر یہی آٹھ لاکھ روپے ماہانہ مریضوں کے
لیے بیڈ خریدنے پر صرف کر دیئے جائیں تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پھر نہ
تو ہسپتالوں میں ایک ، ایک بیڈ پر تین ، تین مریض لیٹے ہوں اور نہ ہی کوئی
فرش پر تڑپ تڑپ کے جان ہار ے۔ ایک مدت سے تو ہم یہ دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ
پاکستان کے کلرک ہر حکومت میں متواتر احتجاج کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اُن
کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔
ایک ہمارے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار المعروف ’’ڈالر‘‘ صاحب ہیں جن کے تنخواہوں
میں اضافے کا نام سُنتے ہی ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور ماتھے پر
’’تَریلیاں‘‘ آنے لگتی ہیں ۔ اگر اُن کا بَس چلے تو تنخواہوں میں اضافے کی
بجائے کٹوتیاں شروع کر دیں۔ ہر سال جون میں بجٹ پیش کرتے وقت وہ چھ ، سات
فیصد اضافے کا اعلان ایسے کرتے ہیں جیسے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی
ہو۔ اُنہیں یہ ادراک ہی نہیں کہ گورنمنٹ ملازمین اُن کے بارے میں کیا سوچتے
ہیں ۔ خصوصاََ لاغر و لاچار پنشنر کو تو کبھی ہم نے اُن کے حق میں کلمۂ خیر
کہتے نہیں سُنا۔ دَراصل اُنہیں قومی خزانہ بھرنے کا شوق ہی بہت ہے اسی لیے
وہ طرح طرح کے منصوبے بنا کر قوم کی رَگوں سے خون نچوڑنے کے بہانے تراشتے
رہتے ہیں۔ شنید ہے کہ اب کی بار جون 2o17ء میں نوازلیگ بجٹ پیش کرتے وقت
ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافے کا منصوبہ باندھے بیٹھی ہے ۔ اگر
ایسا ہے تو پھر بھی نوازلیگ کو اِس کا ’’کَکھ‘‘ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ
دیگر سیاسی جماعتیں یہ ’’رَولا‘‘ ضرور ڈالیں گی کہ یہ سب الیکشن 2018ء
جیتنے کے بہانے ہیں۔ اگر یہ حکومت ملازمین کی اتنی ہی خیر خواہ ہوتی تو
پچھلے چار میزانیوں میں بھی ملازمین کو کچھ تو دیتی۔
آخر میں خادمِ اعلیٰ کی خدمت میں مکرر عرض ہے کہ
پھینکے ہیں طرف اوروں کے گُل ، بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بَراندازِ چمن ، کچھ تو اِدھر بھی
|
|