گُلو بٹ کا مستقبل

 چار دہائیاں گزرنے کے باوجود ہم لوگ ’’مولا جٹ‘‘ کو نہیں بھولے۔ مولاجٹ ایک کردار تو تھا ہی، مگر اسے ایک کیفیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کردار پنجاب میں مقبول اس لئے ہوا کہ لوگ اسی اندا ز کو پسند کرتے ہیں۔ آج بھی کوئی سیاستدان، کوئی بیوروکریٹ یا کوئی بھی اور شخص (زبانی یا عملی) گنڈاسہ اٹھا کر میدان میں نکل آئے تو وہ زمانہ حاضر کا مولا جٹ ہی ہوتا ہے۔ مولا جٹ سے برسہا برس بعد لاہور میں گُلو بٹ کے ظہور نے قوم کوکسی حد تک مولا جٹ کی یاد دلا دی تھی۔ نام بھی اُسی وزن پر تھا ، تاہم کام کسی حد تک مختلف تھا، ایک طرف فلمی کردار میں گنڈاسے کے ذریعے بندے مارنے کا مشن تھا اور دوسری طرف جیتا جاگتا حقیقی کردار تھا ، یہی وجہ ہے کہ وہ بندے تو نہیں مار سکتا تھا،ا لبتہ اس نے گاڑیوں پر ڈنڈے برسا کر ان کے شیشے توڑنے اور گاڑیاں تباہ کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ مولا جٹ نے اس وقت شہرت پائی تھی، جب پاکستان کی فلم انڈسٹری میں جان موجود تھی، اگرچہ انڈسٹری کے عروج کے آخری سال ہی جاری تھے۔ اور گلو بٹ کو اس وقت شہرت ملی، جب میڈیا اپنے جوبن پر ہے، ہر خبر ’’لائیو‘‘ دی جاسکتی ہے، پوری قوم نے گلو بٹ کو کاروں پر ڈنڈے برساتے دیکھا اور حیرت کا اظہار کیا۔

گُلو بٹ نے جس موقع پر ڈنڈا باری کی، اسی وقت وہاں ایک نہایت ہی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آیا ، جس میں پولیس کے ہاتھوں درجن بھر لوگ جاں بحق ہو گئے، بات سیاسی تھی، سیاست ہی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ گلو بٹ کو کاروں پر ڈنڈے برساتے دیکھ کر حیرت اس لئے ہوئی کہ وہاں پولیس بھی موجود تھی، مگر اس نے آزادی سے اپنا کام کیا اور بازو پھیلا کر ٹہلتا ہوا چلتا بنا۔ حیرت میں اضافہ اس وقت ہوا جب قوم نے موصوف کو موقع پر موجود پولیس افسر سے ملتے دیکھا ، تب لوگوں نے جانا کہ گلو بٹ کے پیچھے پولیس کا ہی ہاتھ تھا۔ قانون کو ہاتھ میں لینے اور دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچانے کے چکر میں گلو صاحب کو عدالت نے سزا سنا دی، اس کے خلاف دی گئی ایف آئی آر میں اس کے خلاف دہشت گردی کی دفعات بھی تھیں، انہی کی وجہ سے اسے گیارہ سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ اس کے وکیل نے درخواست گزاری کہ اس کے موکل پر دہشت گردی ایکٹ کی دفعات نہیں لگتیں، عدالت نے دلائل کو درست مانتے ہوئے، مقدمہ سے مذکورہ دفعات ختم کردیں، دوسری طرف توڑ پھوڑ والے جرم کی سزا وہ بھگت چکا تھا، عدالت نے اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔ گلو بٹ نے جہاں قانون شکنی کی، وہیں بہت شہرت بھی پائی، اپنے ہاں عموماً یہی ہوتا ہے کہ جرم کرنے والے کو اچھا کام کرنے والے کی نسبت زیادہ شہرت ملتی ہے۔ ویسے بھی گاڑیوں کے شیشے توڑنے والے عمل پر لوگ حیرت زدہ ضرور تھے، مگر بہت حد تک اس کام کو دلچسپ اور مذاق میں بھی لیا جارہا تھا۔

گلو بٹ کی شہرت کی ایک بڑی وجہ اس کی جسامت اور سب سے بڑھ کر اس کی بھاری بھرکم مونچھیں تھیں، مگر یہ نہ جانا جائے کہ وہ واقعی بہت بہادر بھی تھا، بہادر ہوتا تو بے قصور لوگوں کی بے جان گاڑیوں پر ڈنڈے نہ برساتا۔ اس کا انداز فلمی تھا، جس طرح فلم میں کوئی دوسروں کو قتل بھی کردیتا ہے، اسے نہ پولیس پکڑتی ہے اور نہ ہی وہاں پر موجود لوگ کوئی ایکشن کرتے ہیں، اسی طرح یہاں بھی کوئی ایکشن ہونے والا نہیں تھا۔ دونوں کے پیچھے ’ڈائریکٹرز‘ موجود تھے۔ یہ واقعہ چونکہ حقیقی زندگی کا تھا، اس لئے جب بات گرفتاری ، جیل اور عدالت تک پہنچی اور اسے حالات ہاتھ سے نکلنے کا اندازہ ہوا تو وہ منت سماجت پر اترآیا تھا، مگر اب کسی کے بس میں کچھ نہ تھا۔ گلو بٹ شہرت تو پا چکا ہے، اب وہ فلموں کا رخ کر سکتا ہے، ظاہر ہے اس عمر میں ہیرو بننے کے امکان تو ہیں نہیں، البتہ ولن بننے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ ورنہ بے شمار ٹی وی ڈرامے بن رہے ہیں، کسی میں اس قسم کا کردار بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈراموں میں تو آجکل زیادہ تر نوجوانوں کے کردار ہوتے ہیں، پہلے دوستی، پھر شادی اور چند ہی قسطوں بعد طلاق۔ موصوف یہاں بھی فٹ نہیں بیٹھیں گے، صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے، کہ بٹ صاحب کو ڈراموں میں کوئی مزاحیہ کردار دے دیا جائے، یقینا بہت اچھا نبھائیں گے، ناظرین بھی لطف اٹھائیں گے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428488 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.