“یار
کہاں رہ گیا تھا تو ؟ کب سے تیرا انتظار کر رہا ہوں “ جہاں زیب نے غصے سے
کہا جو پچھلے ایک گھنٹے سے گھر کے قریبی پارک میں بیٹھا جنید کا انتظار کر
رہا تھا ،،،،دونوں بچپن سے اس پارک میں شام کو ملا کرتے تھے ،،،،دونوں کی
دوستی بھی اسی پارک میں ہوئی تھی۔
“ بس یار اسے ایک نظر دیکھنے کے چکر میں دیر ہوگئی ،،،،،، آج وہ لیٹ ہوگئی
تھی ،،،،بس اس لئے تم تو جانتے ہو جس دن اسے نا دیکھو میرا وہ دن اچھا نہیں
گزرتا“ جنید نے کچھ اداس ہوتے ہوئے کہا،،، “ میں جانتا ہوں چل کوئی نہیں
اداس نا ہو “ جہاں زیب نے اسے اداس ہوتا ہوا دیکھ کر کہا ،،،کیوکہ وہ اسکی
پانچ سال کی محبت کا گواہ تھا ،،،“ یار تو اسے بتا کیوں نہیں دیتا کے تو اس
سے کتنا پیار کرتا ہے “ جہاں زیب نے اسے کہا ،،،“نہیں یار میں اسے عزت سے
اپنا بنانا چاہتا ہوں ،،،،میں دوسرے لڑکوں کی طرح عاشقی کا کھیل نہیں
کھیلوں گا ،،،،،بلکہ اس قابل بنوں گا کہ جب اسکے گھر رشتہ بھیجوں مجھے کسی
وجہ سے انکار نا سننا پڑے “ ،،،،جنید نے مسکراتے ہوئے کہا ،،،جہاں زیب بھی
مسکرانے لگا کیوں کے وہ جانتا تھا اسکے دوست کی لگن سچی ہے ،،،اور دونوں
واک کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
آج سے پانچ سال پہلے پارک کی قریبی اکیڈمی میں اسے وہ نظر آئی تھی،،،کھلا
ہوا چہرہ ،،،کھڑی ناک ،،،گلابی ہونٹ میں مسکراتی تو موتی جیسے دانت اسے اور
دلکش بنا دیتے ،،،آنکھیں اسکی چھوٹی تھی مگر پیاری لگتی تھی ،،،،وہ عبایا
میں تھی ،،،جس دن اسنے اسے پہلی بار دیکھا اور دیکھتا چلا گیا ،،،،،وہ کون
ہے ؟ کیا کرتی ہے ؟ اسے کسی بات کا علم نہیں تھا ،،بس ایک دن نظر پڑی،،،،،
اب روز دیکھنا اسکا معمول بن گیا تھا ،،،،
جہاں زیب نے ہی سارا پتا کیا کہ وہ کون ہے ؟ کہاں رہتی ہے ؟ کیا نام ہے ؟
اور اسنے جنید کو سب بتا دیا،،،،کہ اسکا نام ماہ نور ہے ،،،اسکے گھر سے چار
گلیاں چھوڑ کر رہتی ہے ،،،،،جہاں زیب نے جب بتایا ،،،جنید کو بہت ہنسی آئی
کے اسکے دوست کو کتنی فکر ہے اسکی ،،،اور اپنے دوست پر بہت پیار آیا کیونکہ
آج کل کے زمانے میں ایسے مخلص دوست کسی کسی کو ہی نصیب ہوتے ہوتے ہیں ۔
“جہاں “ دونوں دوست واک کے بعد اب بینچ پر بیٹھے آسماں میں چمکتے تارے دیکھ
رہے تھے ،،،،پارک میں کہی کہی لوگ نظر آ رہے تھے ،،،،کیوں کے واک پر آئے
لوگ واپس جا چکے تھے ،،،پر یہ دونوں ابھی بھی وہی بیٹھے تھے ،،،،کافی دیر
خاموش رہنے کے بعد جنید نے آسمان کو دیکھتے ہوئے کھویے ہوئے انداز میں اسے
پکارہ “ ہاں بول “ جہاں زیب نے بھی کھوئے ہوئے انداز میں کہا،،،،“یار انسان
جسے سر آنکھوں پر بٹھانا چاہتا ہے ،،،،اسکو خبر کیوں نہیں ہوتی “ ،،،،جنید
نے اسی انداز میں کہا ،،،،“ او ہو ،،،او ہو واہ کیا بات کہی ،،،،،کہو تو
خبر کر دیتے ہیں “ ،،،،،وہ جو بیٹھا آسمان میں تارے دیکھ رہا تھا ،،،ایک دم
سے بات سنتے ہی بینچ پر اسکی طرف ہو کر بیٹھ گیا اور اسکے کندھے سے کندھے
کو مارتے ہوئے بولا ،،،،،“ نہیں ،،،بلکل نہیں،،،،، میں کل جاب کے لئے جا
رہا ہوں دعا کرنا مل جائے ،،،پھر سیدھا رشتہ بھیجوں گا “ آخری بات جنید نے
مصنوعی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا،،،“ ہاں کیوں نہیں جاب ضرور ملے گی ،،،آخر کو
ایک قابل انسان ہو تم،،،،اچھا چلو اب مکھن نا لگاؤ بہت ٹائم ہوگیا گھر چلتے
ہیں “ ،،،،،دونوں مسکراتے ہوئے گھر کے لئے نکل پڑے،،،،،۔
جنید اگلے دن جب انٹرویو کے لئے گیا تو واپسی پر بے انتہا خوش تھا۔کیونکہ
اسے جاب مل گئی تھی ،،،،جہاں زیب بھی بہت خوش تھا کیونکہ اسکے دوست کو اسکی
منزل ملنے والی تھی ،،،وہ دن رات اپنے دوست کی خوشیوں کے لئے دعا کیا کرتا
تھا ،،،کیونکہ وہ جانتا تھا اسکے دوست کی لگن سچی ہے ،،،اور جب لگن سچی ہو
تو منزل مل کر ہی رہیتی ہے ،،
ایسے ہی بہت سارے دن گزر گئے ،،،،جنید کے ساتھ جہاں زیب کو بھی نوکری مل
گئی ،،پر دونوں جتنے بھی مصروف کیوں نا ہو گئے ہو ،،،شام کو پارک آنا نہیں
بھولتے تھے ،،“کل امی ماہ نور کی طرف جا رہی ہے ،،،رشتہ لے کر “،،، جنید نے
کہا ،،،“ یہ تو بہت اچھی بات ہے یار بالا آخر اب تمہیں منزل ملنے ہی والی
ہے“،،،،، جہاں زیب نے خوش ہوتے ہوئے کہا ،، “ پر ڈرتا ہوں اگر انہوں نے
انکار کر دیا تو؟ “ اسنے وہ بات کہہ ہی دی جو رات سے اسے پریشان کر رہی تھی
،،،،جو اسے خوشی محسوس تک نہیں کرنے دے رہی تھی،،،“ او ہو ،،،،کیا سوچ رہا
ہے ،،،یار ،،،کچھ نہیں ہوگا ،،،وہ لوگ انکار کیوں کرے گے ،،جب اب تم ایک
اچھے عہدے پر فائز ہو گاڑی ہے ،،گھر ہے ،،،اور بھی کوئی عیب نہیں،،، سب سے
بڑی بات مذہبی ہو،،،کیا کمی ہے تم میں ،،،سب کچھ تو ہے جو ایک لڑکی والے
ایک لڑکے میں دیکھنا چاہتے ہیں ،،اس لئے فضول باتوں کو دماغ میں جگہ نا دو
“،،،،جہاں زیب نے اسکے سارے خدشے دور کر دیئے تھے ۔ اور دونوں معمول کی
باتیں کر کے اپنے اپنے گھروں میں روانہ ہوگئے ۔
اگلے دن جب اسکے گھر والے رشتہ لے کر گئے ،،ماہ نور کے گھر والوں نے بہت
اچھے طریقے سے انکی خاطر داری کی اور رشتہ قبول کر لیا ،،،جنید کو اپنی خوش
قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا ،،،اسے تب یقین آیا جب وہ دلہن بنی اسکے پہلو
میں بیٹھی تھی ،،،،شادی میں جہاں زیب ہر جگہ اسکے ساتھ تھا اور بھائیوں
جیسے اسنے شادی کے سارے کام کیے ،،،،
جب وہ حجلہ عروسی میں داخل ہوا ،،،سامنے اسے بیٹھا دیکھ اسے اپنی قسمت پر
رشک آیا ،،،کیونکہ بہت سے لوگ محبت سے محروم رہ جاتے ہیں ،،،انہیں من چاہا
محبوب نہیں ملتا ،،،اور وہ ساری زندگی اسی کسک میں نکال دیتے ہیں ،،،اس کو
اللہ پر بہت پیار آٰیا کیونکہ وہ ان خوش قسمتوں میں سے تھا جن پر اللہ نے
خاص کرم کر رکھا ہوتا ہے ،،،بس صدق ہونی چاہیں ،،،دعا میں صدق نہ ہو تو وہ
قبولیت کی حدوں تک نہیں پہنچ پاتی ،،،اسکی محبت میں بھی صدق تھی،،،لگن تھی
،،،،پاک تھی ،،،،وہ سب تھا جس کی وجہ سے اسکی دعائیں قبول ہوئی ،،،اور آج
اسے اسکی منزل مل چکی تھی جسکا وہ جتنا شکر ادا کرتا کم تھا ،،،،،،،،، |