صرف ’’میں‘‘
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
آجکل آپ وطن عزیز کے کسی بھی نیوز چینل
کوآن کریں تو پاکستان کے نام نہاد سیاسی لیڈر اور اُن کے چمچے خو شامدی ٹو
لے چیخ چیخ کر بلکہ دھا ڑیں ما رتے ہو ئے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو تے
ہو ئے تلخ جملوں کا تبا دلہ تو آپ چھو ڑیں گالی گلوچ کر تے ہو ئے نظر آئیں
گے اِن خو شامدیوں کی زبانوں سے ایسے فقرے آپ بار بار سنتے ہوں گے ’’ میں
یہ کہتا ہوں ‘‘ آج میں سب پر واضح کر دوں گا ۔ میں سچ کہہ رہا ہوں ۔ تم
جھوٹ کہہ رہے ہو تم اور تمہا ری پارٹی کے سارے لوگ جھوٹے ہیں میں اورمیرا
لیڈر خلفہء راشدین کا حقیقی جانشین ہے میں سب کچھ جانتا ہوں مجھے سب خبر ہے
۔ میں یہ فتویٰ دیتا ہوں میں تم کو دیکھ لوں گا میں اُن کو دیکھ لوں گا
تمہا ری حیثیت ہی کیا ہے میں تم کو اور کسی کو کچھ نہیں سمجھتا میں تمہا ری
کو ئی با ت نہیں سنوں گا ۔ میں یہ گوارا نہیں کروں گا ۔ میں میں ہوں تم کچھ
نہیں ہو میری یہ خو بی تمہاری یہ خا می ہے اِس ’’میں ‘‘کے چکر میں یہ ساری
اخلاقیات رواداری بھول چکے ہیں اپنی میں کی تسکین کے لیے یہ آخری حدوں سے
بھی گزر جا تے ہیں اِسطرح کے تلخ اور نو کیلے جملے ہما رے اجتماعی مزاج کی
نشاندہی کر تے ہیں ہما را اصل مسئلہ مفاہمت اور دوسروں کو برداشت نہ کر نا
ہے قربت نفرت میں بدل رہی ہے رشتوں کا تقدس ہم بھولتے جارہے ہیں ارباب منبر
و محراب دوسروں پر کفر کا فتویٰ کیوں لگا رہے ہیں اور اہل سیا ست ترش رو
کیوں ہو تے جا رہے ہیں باہمی برداشت کا جذبہ کمزور کیوں ہو تا جا رہاہے
دوسرے کی با ت سننے اور اختلاف سہنے کا حو صلہ کیوں دم توڑتا جا رہا ہے معا
شرے میں جڑنے کی جگہ کٹنے کا رجحان کیوں بڑھتا جا رہا ہے اگر ہم معا شرے کے
اِس بڑے بگاڑ کا حقیقی جا ئزہ لیں تو اِس کی جڑ میں لفظ ’’ میں ‘‘ ہی نظر
آتا ہے لفظ ’’میں ‘‘ واحد صیغہ ہے جو اکیلے فرد کی نمائندگی کر تا ہے جبکہ
معاشرہ ایک فرد نہیں افراد کے مجمو عے کا نام ہے تو حقیقی مسئلہ تو یہی ہے
کہ ہم ابھی تک انفرادیت کے خو ل میں بند ہیں اجتما عیت کا رنگ ابھی تک ہم
پر چڑھا ہی نہیں ‘انفرادیت کی یہی ’’میں ‘‘آگے چل کر علا قائی عصبیت نسلی
تفاخر لسانی تعصب اور قومیتی تفریق کو جنم دیتی ہے اِسی زہر کی وجہ سے ایک
ملت اور ایک امت کا تصور کمزور ہو جا تا ہے اگر ہم لفظ ’’ میں‘‘ پر غور
کریں تو یہ ایک لفظ نہیں یا تکیہ کلام نہیں بلکہ ایک پورا نفسیا تی نظام ہے
اِسی ’’میں ‘‘کی نفسیات کے مناظر ہم آئے دن اپنی سو سائٹی میں دیکھتے ہیں
مثلا گا ؤں کے چوہدری کی کمی کمین سے گستاخی یا بے ادبی ہو تو چوہدری صاحب
اُس غریب کو گاؤں چھوڑنے کا حکم صادر فرماتے ہیں کہ میں تم کو الٹی میٹم
دیتا ہوں شام سے پہلے گاؤں چھوڑ کر چلے جا ؤ اِسی طرح ایک سیاستدان اپنے
ابھرتے ہو ئے مخالف امیدوار کو الیکشن سے پہلے موت کے گھاٹ کیوں اتار دیتا
ہے کہ وہ سیاستدان کے مقابلے پر اپنے کا غذات نامزدگی جمع کرانے کی گستاخی
کا مرتکب ہو نے جا رہا تھا ۔ایک فرقے کے خطیب نے اپنے نمازیوں کے ساتھ
دوسرے فرقے کی مسجد پر دھا وا بول دیا مخالفین نے کچھ کو زخمی کیا کچھ
حوالات چلے گئے دوسری مسجد والوں کا قصور یہ تھا کہ وہ پہلی مسجد والوں کی
فقہ کو نہیں مانتے تھے چوہدری کی ضد قتل کا حکم اور دوسری مسجد پر حملہ اِس
کا تعلق بھی ’’ میں ‘‘ سے ہے اِسی ’’میں ‘‘نے کسی کو ظالم ‘کسی کوقاقتل اور
کسی کو حملہ آور بنا دیا میں چوہدری ہوں کمی کمین انکار کیوں کر ے پارلیمنٹ
جانے کا خواب میں دیکھوں دوسرا اِیسی سوچ کیوں رکھے جس فقہ کو میں مانتا
ہوں دوسرے اِس فقہ سے انکاری کیوں محترم قارئین آپ ملا حظہ فرمائیں اصل
نفسیا تی مسئلہ میں ہی ہے حکمران پا رٹی اپنے مخالفین کے علا قوں میں
ترقیاتی کام نہیں کر تی دودھ میں مینگنیاں ڈال کر رکا وٹ پیدا کی جا تی
یہاں بھی اصل مسئلے کی جڑ ’’ میں ‘‘ ہی آجاتی ہے یہ میں کسی حکمران اپو
زیشن یا بیو روکریٹ کے دما غ میں آکر زہر بن کر دوسروں کی زندگی اجیرن
بنادیتی ہے اس ’’میں ‘‘ نے سیا ست کے میدان کو تو گدلا کیا ہی ہے اب یہ میں
ہما ری معا شرتی زندگی میں بھی نا سور کی شکل اختیار کر چکی ہے آپ انسانوں
کی نفسیا ت کا بغور مطالعہ کریں تو دن رات چوبیس گھنٹوں میں معاشرتی
تقریبات نجی محفلوں جلسوں جلو سو ں مختلف مزاکرات گھریلو بات چیت اور روزمر
ہ کی گفتگو میں یہ لفظ تو اکثر زبانوں سے نکلتا ہے آپ کسی بھی قسم کی گفتگو
اگر غور سے سنیں تو چند جملوں کے بعد آپ کو یہ سننے کو ملتا ہے میں یہ کہتا
ہوں نہ تو متکلم اِس لفظ کو بو لنے میں شرم محسوس کر تا ہے اور نہ ہی مخا
طب کوکسی بھی قسم کی الجھن ہو تی ہے آپ حکمرانوں کی محفلوں کو دیکھیں نجی
محفلوں کا روباری حلقوں میں پو رے معاشرتی رکھ رکھا ؤ میں چو پال ہو یا
مذہبی حلقوں کی مجلس ہر جگہ ’’ میں ‘‘ کی تکرار بار بار نظر آتی ہے کبھی
جان بو جھ کر کبھی غیر شعوری طور پر یعنی یہ لفظ شاہ و گدا کے ہر جملے میں
کہیں نہ کہیں آپ کو نظر آئے گا شاہی فرمان میں کہا جاتا ہے میں حکم دیتا
ہوں فلاں مجرم 24گھنٹوں میں پیش کیا جا ئے اندھا فقیر بھی کہتا ہے میں بینا
ئی سے محروم ہوں مجھے روپیہ دو‘ دونوں لہجوں میں ’’میں ‘‘ کا لفظ موجود ہے
آپ دیکھیں تو ’’ میں ‘‘ میں آپ کو انا ’’خو دی ‘‘ نظر آئے گی اور اگر یہی
لفظ ’’میں ‘‘ خو دی میں ڈھل جا ئے تو سبحان اﷲ اور اگر اِس میں فرعونیت
جھلکے تو نعوذ باﷲ ’’ انااول المسلمین ‘‘ ( میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ) یہ
رسول ﷺ کا لہجہ ہے اور ’’ انا خیر منہ ‘‘ (میں سب سے بہتر ہوں ) یہ جملہ
ابلیس کا ہے جو اُس نے صدیوں کی عبا دت کی بنا پر آدم ؑ پر اپنی بر تری کے
لیے غرور سے کہا ۔ اگر آپ معاشرتی بگا ڑ کا بغور مشاہدہ کریں تو آپ کو
لہجوں کی تلخی اور دوسروں پر برتری چاہے علم کی ہو یا طاقت کی ہر جگہ پر ہی
لفظ ’’ میں ‘‘ ہی نظر آتا ہے ۔حقیقت میں وطن عزیز کا مسئلہ نہ تو وسائل کی
کمی ہے اور نہ ہی افرادی قوت کم ہے نہ ہی ہنر مندوں کی کمی ہے نہ ہی زرخیز
زمینوں اور زرخیز دماغوں کی نہ ہی محنت کشوں کی کمی ہے لیکن تمام وسائل کے
باوجود اگر ہم پسماندہ ہیں تو یہی ’’ میں ‘‘ کا زہر ہے جس نے ہر ایک کو زہر
آلودہ بنا کر رکھ دیا ہے سوچ کی تقسیم آگے بڑھنے کی بجا ئے رکا وٹ کا کام
کر رہی ہے اب اگر پہیہ آگے کی بجا ئے پیچھے یا رک جا ئے گا تو ترقی کا ہم
صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں ملکی ترقی کے لیے ہمیں ’’میں‘‘ کو ختم کرنا ہو
گا اگر آپ نے ’’میں ‘‘کو نہ دیکھنا ہو کسی درویش صوفی کے پاس جا ئیں جس نے
تزکیہ نفس سے ’’ میں ‘‘ کے سانپ کو کچل دیا ہو تا ہے ۔ کسی گا ؤں میں ایک
صوفی بزرگ سیدھے سادے ہوا کر تے تھے تیری میری سے آزاد ‘میں اور تو کے چکر
سے بھی آزاد اُن کی عاجزی کا یہ عالم تھا کہ پو ری زندگی ’’ میں ‘‘ کے چکر
میں نہ پڑے کبھی نہ کہا میں نے کہا میں نے کیا میں بیٹھا بلکہ تم کہتے عاجز
فقیر بندہ مشتِ غبار طالب علم وغیرہ ایک دفعہ کسی مُلا کو جو ش آیا تو فخر
سے کہا میں آج اِس درویش کے منہ سے میں کا لفظ نکلوا کر رہوں گا مو لوی
صاحب فرش نشیں درویش کے پاس آیا اور کہا جناب میرا ایک سادہ سا سوال ہے آپ
نے اُس کا فلسفیانہ انداز میں نہیں آسان لفظوں میں جواب دینا ہے ایک لفظی
سوال ہے ایک لفظی جواب ہو نا چاہیے فقیر بولا فرمائیں تو مولوی صاحب بو لے
ابلیس کو کس چیز نے دربار حق سے نکالا کس نے بر باد کیا ۔ مو لوی صاحب بڑے
جوش میں تھے کہ آج فقیر بابا قابو آگیا آج فقیر درویش کو کہنا پڑے گا کہ
ابلیس کو اُس کی ’’ میں ‘‘ نے ما را یہی سیدھا سا جواب ہو گا خاک نشین
درویش خا موش ہو گئے اِس دوران مؤذن نے تکبیر کہہ دی تو بزرگ نے فرمایا
پہلے نماز پڑھ لیں بعد میں جواب دینے کی کوشش کر وں گا اب بزرگ امامت کے
لیے کھڑے ہو گئے نماز پڑھنے کے بعد آپ نے مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر
فرمایا کہ ابلیس کے بارے میں سوال کر نے والا شخص کو ن تھا تو صف میں مو
جود مولوی صاحب جھٹکے سے اُٹھے اور بولے جناب ’’ میں ‘‘ تو درویش نے شفیق
تبسم سے فرمایا بس اِسی چیز نے ابلیس کو برباد کیاتھا یہ سن کر مو لو ی
شرمندہ اورغرق ندامت ہوگیا ۔ |
|