جمعیت
علماءاسلام ف کے امیر و چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن نے ایسے وقت
میں کشمیر کمیٹی کا اجلاس گلگت بلتستان میں طلب کرنے کا اعلان کردیا جب ان
کی جماعت میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کرنے والا مرکزی رہنماءمولانا
عطاءاللہ شہاب بھی بول پڑے کہ اب وہ صورتحال نہیں رہی کہ ہم یہ کہتے رہیں
گلگت بلتستان کشمیر کی اکائی ہے بلکہ صورتحال یکسر مختلف ہوچکی ہے اور
عوامی سطح پر تحفظات جنم لے رہے ہیں۔مولانا عطاءاللہ شہاب کا شمار ان
علاقائی رہنماﺅں میں ہوتا ہے جو گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر ہی نہیں بلکہ
کشمیر کا مکمل جز و سمجھتے ہیں ان کے مطابق مسئلہ کشمیر کی وجہ سے کل
84ہزار مربع میل کا علاقہ متنازعہ ہے جس کی تین اکائیاں ہیںایک مقبوضہ
کشمیر جو کہ انڈیاکے زیر انتظام ہے جبکہ دوآزاد کشمیر و گلگت بلتستان (دونوں
) پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔13جولائی 2015کو روزنامہ اوصاف میں شہ سرخی کے
ساتھ چھپنے والی خبر میں مولانا عطاءاللہ شہاب نے کہا کہ گلگت بلتستان کا
کشمیر سے تعلق کوئی مائی کا لعل ختم نہیں کرسکتا ہے گلگت بلتستان اور آزاد
کشمیر آپس میں پاکستان اور انڈیا جیسی نظر سے دیکھنے کی ضرورت نہیں حکومتی
بینچ پر بیٹھ کر دونوں علاقوں کے خلاف بیانات دینے والے یہ تو دیکھیں کہ
دونوں خطوں میں کس جماعت کی حکومت ہے ۔
گزشتہ دنوں جمعیت علماءاسلام کے زیر اہتمام ’مسئلہ کشمیر اور ہماری زمہ
داریاں ‘کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عطاءاللہ شہاب نے یکسر نسبتاً
اور لچکدار موقف پیش کیا انہوںنے صورتحال مختلف ہونے اور عوامی سطح پر
تحفظات کی طرف اشارہ کرتا ہوئے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان اور مظفر آباد
کے مابین روابط کا فقدان ہے جبکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے منعقدہ کسی بھی
سیمینار میں گلگت بلتستان سے نمائندگی نہیں ہوتی ہے ۔گلگت بلتستان کو صوبہ
بنانے کی مخالفت کی صدائیں آزاد کشمیر کی بجائے مقبوضہ کشمیر سے بلند ہونی
چاہئے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب اگر اپنے جماعتی حمایت کے لئے بحیثیت امیر اگر گلگت
بلتستان کے حوالے سے کوئی بات کہتے تو یقینا سنجیدگی نہیں ہوتی گلگت
بلتستان کے قوم پرست رہنماﺅں سے بھی سخت الفاظ گلگت میں آکر استعمال کرچکے
ہیںبعض سینیٹرز تو پانچواں صوبے کا اعلان کرکے واپس گئے اور بعض نے قومی
اسمبلی اور سینیٹ میں قرارداد لانے کا اعلان کردیا بعض سینیٹرز بشمول طلحہ
محمود پریس کلب گلگت آکر وقتاً فوقتاً عجیب و غریب مطالبے کرتے رہتے ہیں
لیکن اخبارات اور میڈیا میں آج تک کوئی ایسی بات نہیں آئی ہے جہاں پر کسی
بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبر نے گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی موقف
اپنایا ہو ہاں اگر فاٹا کا مسئلہ سامنے ہو تو احتجاج بھی کرینگے اور واک
آﺅٹ کا بھی اعلان کرینگے ابھی تازہ تو دھرنا دینے کا اعلان ہوچکا ہے ۔
مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان بھی اسی سمت میں سمجھا جاتا اگر وہ کشمیر
کمیٹی کے چیئرمین نہیں ہوتے ۔
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمن پر ماضی قریب سے سخت
الزامات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے کشمیر کمیٹی کے بعض ارکان سمیت کشمیر کے ہی
رہنماﺅں نے بھی ان کے خلاف بیانات دے دئے ۔کشمیر کمیٹی کی اہم زمہ داری میں
مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے اور مسئلہ کشمیر میں جب تک گلگت
بلتستان کو اطمینان میں نہیں لیا جاتا کشمیر کمیٹی کا اکیڈیمک معاملہ بھی
مکمل نہیں ہوسکتا ہے ۔ نومبر 2015میں مولانا فضل الرحمن نے جیو ٹی وی کے
معروف پروگرام جرگہ میں سلیم صافی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ
ہندوستان نے کشمیر پر اپنا تسلط قائم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ نہ آگے بڑھ
سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے ہٹ سکتا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے
خلاف ہے گلگت بلتستان اور کشمیر کے عالمی طور پر معاملات یکساں ہیں حق
خودارادیت اس تنازعہ کے شکار لوگوں کا حق ہے انہوںنے گلگت بلتستان کے آئینی
پیچدگیوں کا زکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ متنازعہ خطہ اقوام متحدہ کے سامنے
ہوتا ہے کوئی بھی ملک اسے اپنی مرضی سے آئینی صوبہ نہیں بناسکتا ہے جس کی
وجہ سے گلگت بلتستان کو صوبے کی حیثیت دی گئی ہے ۔صوبہ ہونا اور حیثیت دینے
میں بہت فرق ہے اس پروگرام میں مولانا فضل الرحمن نے یہ بھی کہا کہ دونوں
خطوں کے درمیان روابط کی ضرورت ہے ۔ایک اور تقریب میں بتاریخ5فروری2016
مولانا فضل الرحمن نے گلگت بلتستان اور کشمیری عوام کے مابین دوریاں ختم
اور غلط فہمیاں دور کرنے کا اعلان کیا۔۔۔
مولانا فضل الرحمن کی جانب سے کشمیر کمیٹی کا اجلاس گلگت بلتستان میں بلانے
کا اعلان ہوچکا ہے معلوم نہیں کہ کب اس کی تاریخ متعین کی جاتی ہے ۔بہرحال
دیر آید مگر درست آید کے مصداق ایک اچھی پیشرفت کے لئے قدم اٹھایا گیا ہے
اس اقدام کا سب سے پہلے خیر مقدم جماعت اسلامی گلگت بلتستان نے کیا۔۔۔
مولانا فضل الرحمن اس وقت ملکی سیاست میں اس لحاظ سے انتہائی مرکزی کردار
میں ہے کہ ایک تو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوںنے ایک بنیادی
اور گہرے نقطے پر کام کا آغاز کردیا ہے جبکہ دوسری جانب فاٹا اصلاحات میں
مولانا فضل الرحمن نے تمام سیاسی جماعتوں سے یکسر مختلف موقف اپنایا ہے ۔
فاٹا اور گلگت بلتستان (سابقہ فانا) دونوں اس وقت پاکستان کے آئین سے حل
طلب مسائل ہیں جبکہ دونوں مسائل پر مولانا نے جمہور عوام سے مختلف موقف
اپنایا ہے فاٹا معاملے پر تمام جماعتیں خیبرپختونخواہ کے ساتھ ضم کرنے پر
بضد ہیں لیکن مولانا اس سے انکاری ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں اکثریتی آبادی
اور سیاسی قائدین (بشمول چند حکومتی وزراءبھی) گلگت بلتستان کو کشمیر سے
دور کرنا چاہتے ہیں ۔
گلگت بلتستان اور کشمیر کے درمیان تعلق آج کے دور کے مطابق حل طلب مسائل
میں سب سے اہم مسئلہ ہے اگر اکثریتی آبادی کے موقف کو دیکھا جائے تو وہ
پاکستان کے آئینی صوبے کی حیثیت اختیار کرنا چاہتے ہیں جو کہ انہیں خود بھی
معلوم ہے کہ ناممکن ہے ایک طالبعلم کی حیثیت سے حیرت ہوتی ہے کہ اگر
70سالوں سے ایک ہی نعرہ لگاکر قربانی(بقول انہی کے) دی گئی ہے اور معلوم
بھی ہے کہ یہ مطالبہ ناممکنات میں سے ہے پھر کیوں مزید ’قربانی ‘ دینے کی
تیاری کی جارہی ہے ۔پاکستان کے آئین میں شمولیت بڑی تعداد میں لوگوں کا
خواب ہے لیکن ایک بھی ایسی مثال سامنے نہیں ہے کہ کسی علاقے کو آئین میں
شامل کرنے کے بعد وہاں کے لوگوں کے معیار زندگی میں تبدیلی رونما ہوئی ہو۔
گلگت بلتستان کا کل رقبہ پنجاب کے سب سے چھوٹے ضلع (بلحاظ آبادی)کے برابر
ہے یعنی گلگت بلتستان جتنے رقبے کو پنجاب میں صرف ایک ڈپٹی کمشنر میسر ہے
جبکہ گلگت بلتستان میں 10ڈپٹی کمشنر ، چیف سیکریٹری ، درجنوں سیکریٹریز ،
ایک مکمل اسمبلی ، ہزاروں ملازمتیں سمیت کئی دیگر فوائد میسر ہیں ۔ گلگت
بلتستان کے گرد اس وقت مملکت پاکستان کے دو آئینی علاقے موجود ہیں جن میں
ایک چترال جبکہ دوسرا کوہستان ہے دونوں علاقوں کی صورتحال ان ’تالاب کے
مینڈکوں ‘کے سامنے ہے پھر بھی بضد ہے کہ گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ قرار
دیا جائے ۔ ایک اسمبلی ہے جس میں آج تک صحیح نمائندگی کا عنصر سامنے نہیں
آسکا ہے پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی کا مطالبہ کیا جارہا ہے
۔اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان قومی اسمبلی اور سینیٹ میں
نمائندگی ملنے سے کم از کم میڈیا کے حلقے گلگت بلتستان کی جانب رخ کرینگے
حیرت ہے ایسی سوچ پر زرا بتائیں کہ قومی میڈیا نے فاٹا کی جانب قومی اسمبلی
اور سینیٹ میں نمائندگی کے باوجود کتنی بار توجہ دی ہے مالاکنڈ میں آج تک
سوائے بارش کے امکانات کے علاوہ کوئی خبر نہیں چلی ہے پھر کس سوچ سے یہ
دعویٰ کیا جارہا ہے ۔
بدقسمتی ہے کہ موجودہ وقت میں کوئی بھی ایسا فورم نہیں جس میں تمام قائدین
اور اہل علم و دانش کسی بھی مطالبے کے مثبت اور منفی پہلوﺅں پر نظر ڈالے
۔ورنہ سی پیک کی صورتحال سامنے ہے جب علاقے کو باسیوں نے تیار ہی نہیں کیا
تھا کہ اس میں کتنی صلاحیت ہے اور سماج کو کتنی ترقی کی ضرورت ہے ،اس
منصوبے سے کیا اثرات مرتب ہونگے اور کن کن اہم منصوبوں کو اس میگاپراجیکٹ
کا حصہ بنانا ضروری ہوگا۔ایسی صورتحال اب ان مطالبات میں بھی سامنے آرہی ہے
کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ ایک بیٹھک رکھ کر مسائل پر گفتگو کی جائے
اگر کوئی بیٹھک رکھی جائے تو اس کی قرارداد 3دن قبل ہی بن جاتی ہے ۔ بہر
حال ایسے میں یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت نوجوانوں کے
ہاتھ میں دی جارہی ہے اور ان سے یہ امید ہے کہ مثبت اور منفی پہلوﺅں کے لئے
کوئی فورم ترتیب دینگے ۔
جمشید خان دکھی نے کیا خوب کہا کہ
احترام بشر سے ہونا فرار
ہے مرے دوست! یہ ابلیس کا کار
معبدوں میں بہشت کی باتیں
دیس سارا بنا جہنم زار |