گذشتہ
دنوں لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے بم دھماکے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک
کیپٹن (ر) احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت 20 افراد جاں
بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔
اطلاعات کے مطابق دھماکہ پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر ہوا، جس کے
نتیجے میں آج ٹی وی کی ڈی ایس ین جی کا ڈرائیور،انجینئر اور کیمرا مین بھی
زخمی ہوئے۔ دھماکے کے وقت مال روڈ پر فارما مینوفیکچررز اور کیمسٹس کا
دھرنا جاری تھا، اور کیپٹن (ر) احمد مبین مظاہرین سے مذاکرات کے لیے آئے
تھے۔ دھماکے کے بعد علاقے میں بھگڈر مچ گئی، پولیس کی بھاری نفری نے جائے
وقوع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور مال روڈ پر جمع لوگوں کو
منتشر کیا۔ ریسکیو ٹیموں نے ایمبولینسز کے ذریعے زخمیوں کو گنگا رام اور
میو ہسپتالوں میں منتقل کیا جہاں ایمرجنسی بھی نافذ کردی گئی ہے، جبکہ
زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ پنجاب حکومت نے
دھماکے کو خودکش قرار دیا ہے۔اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وزیراعظم نے
واقعہ کی فوری رپورٹ طلب کر لی ہے۔
جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہد ٹریفک وارڈن نے بتایا کہ موٹرسائیکل پر سوار
شخص نے خود کو گاڑی سے ٹکرایا جس سے زور دار دھماکہ ہوا اور موٹرسائیکل میں
آگ بھڑک اٹھی۔
وزیراعظم ، آرمی چیف سمیت تمام ملکی سیاسی قیادت نے بم دھماکے کی شدید
مذمت کی ہے۔ایک اطلاع کے مطابق نیکٹا نے 7 فروری کو ایک الرٹ جاری کیا تھا
جس میں لاہور میں دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا. یعنی کہ سیکورٹی
ادارے اس بات سے قطعی طور پر بے خبر نہیں تھے کہ کوئ ایسا واقعہ رونما ہونے
والا ہے جس میں کئ جانیں جاسکتیں ہیں.وہ بھی ایسی جگہ جہاں وزیر اعلی پنجاب
کا دعوی ہے کہ صورتحال مکمل طور پر انکے کنٹرول میں ہے خیر انکے دعوے کی
پول اس وقت ہی کھل چکی تھی.جب چھوٹو گینگ کو سیکورٹی اداروں کو کئ عرصہ
مسلسل جدوجہد کے بعد ڈسکورڈ کیا تھا.اور بقول چھوٹو گینگ کے ایک ملزم کے ہی
انھیں حکومتی اداروں کے کچھ ملازمین کی ہی سرپرستی حاصل تھی.خیر ہوسکتا ہے
کہ اس میں بھی کوئ حکومتی مفاد وابستہ ہو. ورنہ تو ان کئ کیڈیٹس کی ناحق
جانوں کا بھی اب تک خراج وصول کیا جاچکا ہوتا جو ٹریننگ سینٹر میں انتہائ
مشکوک حالات میں موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے.
ہمیشہ کی طرح تمام ملکی سیکورٹی ادارے بعد میں حرکت میں آئے. جگہ کو سیل
کرکے بم اسکواڈ کو طلب کرکے تحقیقات کا آغاز بھی کردیا گیا اور جہاں تک
اڑتی اڑتی خبریں آئیں کافی مشکوک افراد کو گرفتار بھی کرلیا گیا. یہ
کاروائیاں نیکٹا کی خبر کے بعد اور دھماکے سے پہلے بھی ہوسکتیں تھیں.پر خیر
یہ بھی رہنے دیں.انہی اوقات میں یا کچھ آگے پیچھے کوئٹہ میں بھی سریاب روڈ
پر ایک بم کی اطلاع ملتی ہے جسے
ناکارہ بناتے ہوئے ہونے والے دھماکے میں بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کے
کمانڈر عبد الرزاق اور ان کے محافظ عبدالمجید ہلاک ہوجاتے ہیں.
ناکارہ بنایا جانے والا بم 20 کلو وزنی تھا جسے سریاب پُل کے نیچے نصب کیا
گیا تھا۔
پولیس ذرائع نے کہا کہ زوردار دھماکے میں 5 افراد زخمی بھی ہوئے۔
جبکہ ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک میڈیا وین بھی وہاں موجود تھی
عین ممکنات میں ہے کہ اسے ٹارگٹ کرنا بھی مقصود ہو.
خیر یہ بات بھی آسانی سے ہضم ہونے والی ہر گز نہیں کہ لاہور بم دھماکہ جس
وقت ہوا وہاں ادویات بنانے والی کمپنیوں اور اداروں کی جانب سے پرزور
احتجاج جاری تھا اور ان سے بات کرنے کے لیئے
کیپٹن(ر)احمد مبین صاحب تشریف لے آئے تھے. اس موقع پر میڈیا نمائندگان کا
کہنا ہے کہ انھیں یہ کہہ کے طلب کیا گیا کہ جلد یا بدیر کوئ اہم پیش رفت
متوقع ہے یا کوئ خوش خبری دے جانے والی ہے جسکا ابھی تک کچھ کسی کو علم
نہیں.یہ دھماکے عین اس وقت ہوئے جب اسلام آباد کے ایوانوں میں نیشنل
سیکورٹی پلان اور اداروں کو لے کے دھواں دھار اور لاحاصل بحث جاری تھی.
ہمیشہ کی طرح اسکی ذمہ داری کچھ کالعدم تنظیموں نے قبول کرلی.امریکہ کے
مطابق خطے میں 20 شدت پسند گروپ آج بھی سرگرم ہیں لیکن اس خونریز لڑائی میں
کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور مہند ایجنسی سے آغاز پانے والی جماعت
الحرار ابھی بھی پیش پیش ہیں۔ لشکر جھنگوی العالمی اور القاعدہ برے صغیر
بھی اکا دوکا واقعات کی ذمہ داری لے رہی ہیں لیکن میڈیا سے مسلسل رابطے میں
پہلی دو تنظیمیں ہی ہیں۔جبکہ کراچی میں بھی ایک نجی ٹی وی کے صحافی کیمرہ
مین کی ہلاکت کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے جبکہ لاہور کے دل ہلا دینے والی
واقعے کی ذمہ داری جماعت الحرار اپنے سر لے چکی ہیں۔
تشدد میں بظاہر تیزی کی دو بڑی وجوہات دکھائی دیتی ہیں۔ ایک تحریک طالبان
پاکستان میں گزشتہ دنوں ایک محسود گروپ کی واپسی اور دوسرا جماعت الحرار کی
جانب سے غازی نامی کارروائی کے آغاز کا اعلان ہے۔ دونوں تنظیموں کی قیادت
کے بارے میں خیال ہے کہ وہ افغانستان میں روپوش ہیں۔ کافی عرصے تک غیرمتحرک
رہنے کے بعد غالباً وہ دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان میں شدت پسندوں کی بڑی تنظیموں میں سے ایک، کالعدم تحریک طالبان
پاکستان، نے گذشتہ دنوں ایک بیان میں محسود طالبان کی تنظیم میں دوبارہ
شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ عام تاثر یہی ہے کہ محسود جنگجو ہی اس تنظیم کا
پہلے دن سے اہم ترین اثاثہ ہیں۔ ان کے بغیر تنظیم کی طاقت میں بظاہر کمی
آئی تھی۔ خیال ہے کہ ان کی واپسی سے تنظیم دوبارہ متحرک ہونے کی کوشش کر
رہی ہے۔ دوسری طرف ایک خدشہ بھارتی انٹیلیجنس تنظیموں کی طرف بھی ظاہر کیا
جارہا ہے.جو ملک کی اندرونی امن و امان کی صورتحال مسلسل سبوتاز کرنے کی
کوششوں میں لگیں ہوئیں ہیں.اور اس ضمن میں بھی باقاعدہ ٹھوس شواہد موجود
ہیں.
تو پھر کیا وجہ ہے جب ہمارے سیکورٹی ادارے ہونے والے انسیڈنٹس کی پہلے سے
انفارمیشن حاصل کرسکتے ہیں تو کیا اسکی روک تھام کے لیئے کوئ حتمی ایکشن
نہیں لے سکتے آخر وہ کونسی روکاوٹیں ہیں جو انھیں اپنا قومی فریضہ انجام
دینے سے روک دیتیں ہیں. کیا ہمارا سیکورٹی پلان اس حد تک کمزور ہے کہ کوئ
بھی اس سے چھیڑ چھاڑ کرسکتا ہے اب چاہے وہ ملکی شرپسند عناصر ہوں یا غیر
ملکی ہم سارا ملبہ دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے.کب تک ہم ان
دھوؤں کے مرغولوں میں نہ ختم ہونے والی آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اپنے
پیاروں کی لاشیں مٹی کے سپرد کرتے رہے ہیں.جب تک ملک کے اندر سکون قائم
نہین ہوگا سرحدیں بھی محفوظ نہیں اور نہ ہی ہم دوسرے ممالک کے اور اقوام
متحدہ کے سامنے اپنا کشمیر پر صحیح معنوں میں موقف رکھ سکتے ہیں.تصویر کا
ایک رخ 8فروری کو منظور کیے جانے والا ترمیمی بل ڈرگ ایکٹ 1976بھی ہے. جسکے
خلاف احتجاج کی لہر جسکی ابتداء لاہور سے ہوئ اور ملتان، گوجرانوالہ،
سرگودھا،فیصل آباد، بھکر سے ہوتی ہوئ تاحال کراچی تک پہنچ گئ ہے ۔ آئے روز
تاجر ، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف ، نرسز، کلرکس اور کئی شعبوں سے وابستہ
افراد احتجاجی ریلیوں اوردھرنوں کی صورت میں اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں
پرنظر آرہے ہیں۔
ذرا سوچیئے اس سے کتنے لوگ متاثر ہورہے ہونگے. دوکاندار تو ہی رہے ہیں ہیں.
مریضوں میں سے کتنے اپنی جان ہار چکے ہونگے.
پنجاب بھر کے کیمسٹوں نے بھی شٹر ڈائون ہڑتالوں اور بھر پور احتجاج کاسلسلہ
شروع کر رکھا ہے اور پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے کے بعد اب وزیر اعلی ہاوس
کے گھیراؤ کی دھمکی بھی دے دی ہے۔
کراچی میں بھی احتجاج نے زور پکڑ لیا ہے وجہ بیان کی جاتی ہے کہ حکومت
پنجاب نے 6 اگست 2015 ء کو پنجاب ڈرگز آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے ذریعے ڈرگ
ایکٹ اور ترامیم میں اضافہ کیا گیا ہے ادویہ کی تحریفوں میں خود ساختہ
تبدیلیوں کی بنیاد پر سخت سزائیں تجویز کی گئیں ہیں.یعنی غیر معیاری
دواسازی پر 6ماہ سے5سال قیداور1کروڑ سے 5کروڑ روپے تک جرمانہ رکھا گیا
ہے.جبکہ میڈیکل اسٹورز پر کوالیفائیڈ فرد کے موجود نہ ہونے پر 30دن سے5سال
تک کی قید اور 5لاکھ سے 50لاکھ روپے جرمانے کی سزا رکھی گئ ہے.گو کہ وزیر
اعلی پنجاب کی طرف سے یہ یقین دہانی بھی کرائ گئ کہ اس قانون کو غلط طور پر
یا کسی ذاتی مفاد کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ ایسے میڈیکل
اسٹورز اور اداروں کی اطلاع پر دس دس لاکھ انعامات کا بھی اعلان کیا ہے پھر
وہی بات کیا ہمیشہ کی طرح حکومتی وعدوں میں کوئ سچائ ہے یا نہیں.یہ یقین
کون مضبوط کرے.دوسری طرف کیمسٹ برادری کے مطابق یہ ترامیم ڈرگ ایکٹ 1976ء
سے متصادم ہے۔
ڈرگ ایکٹ 1976 ایک وفاقی قانون ہے جس کا دائرہ کار سارا پاکستان ہے اس ایکٹ
میں پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ترامیم نہیں کی جاسکتیں۔ پاکستان میں ادویہ
سازی زیادہ تر برٹش فارما کوپیا اور امریکن فارما کوپیا کے مسلمہ
قواعدوضوابط کے تحت کی جاتی ہے۔ متذکرہ دونوں فارما کوپیا اور دنیا دیگر
فارما کوپیامیں ادویہ سازی اور ان کے معیار کوجانچنے کے لیے اجزائے ترکیبی
کے بارے قواعد و ضوابط موجود ہیں ان کو معیار بنا کر ہی تمام مراحل طے کیے
جاتے ہیں اور متحرک جزوکو ہی دواسمجھ کر اس کے معیاری ، غیر معیاری یا جعلی
ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ 1976ء کے ایکٹ کے مطابق بھی یہی قانون رائج ہے۔
مگر نئی ترامیم کے ذریعے حکومت پنجاب نے غیر معیاری کو اس فہرست سے نکال کر
ادویات کو معیاری اور جعلی دو اقسام میں تقسیم کر دیا ہے۔ دوا جس کا تجزیہ
کیا جائے گا اگر اس کی زائد ترکیبی 98%بھی درست ہیں پھر بھی محض دو فیصد پر
اسے جعلی قراردیا جائے گا ۔ اور اگر کسی دوا کا رنگ تبدیل ہو گیا یا پھیکا
پڑ گیا یا گولی کیپسول بلسٹر کے ساتھ چپک گیا تو بھی جعلی تصور ہو گا۔ اور
اس کی سخت سزا اور بھاری جرمانہ کیمسٹ کو ادا کرنا پڑے گا۔ ایسا قانون دنیا
کے کسی ملک میں رائج نہیں اور نہ ہی پاکستان کے دوسرے صوبوں یا وفاق کے زیر
انتظام علاقوں میں ہے کوئی فارما کوپیا اس طرح کی تقسیم نہیں کرتا یہ قانون
وفاق اور قانون سب کے لیے، یکساں ، کے مسلمہ اصولوں کے برعکس ہے۔
حیران کن طور پر حکومت پنجاب نے ترمیمی آرڈیننس جاری کر کے اور اس کو
بنیادبنا کر ڈرگ اتھارٹی آف امریکہ ، یورپین ڈرگ اتھارٹی ،میڈیسن اینڈ
ہیلتھ کیئر ریگولیرٹی اتھارٹی آف یو کے ،امریکہ ، آسٹریلیا اور جاپان کی
فارن ڈرگ اتھارٹی کو متعارف کروا کر غیر ملکی ادویات کی فروخت کا دروازہ
کھول دیا ہے۔ اب درج بالا تمام ممالک کی ادویات ہمارے ہاں منظور شدہ تصور
ہو ںگی اور مریضوں کو انتہائی مہنگے داموں پر مہیا کی جائیں گی۔ جبکہ
پاکستان میں ادویہ سازی کے 600 ادارے کام کر رہے ہیں۔ اور پنجاب میں 250 کے
قریب فارما یونٹس موجود ہیں۔ یہ ترامیم ملک میں بین الصوبائی تجارت ، ادویہ
سازی ، ادویہ فروشی میں رکاوٹ ہے یہی وجہ ہے کہ ملک دیگر صوبوں کے فارما
یونٹس نے پنجاب کو ادویات کی فراہمی معطل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے.
اس لمبی تمہید کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ
ان دھماکوں میں خاص طور پر ادویہ سازی کے اداروں کی طرف سے احتجاج کرنے
والے اور میڈیا کے لوگوں کوبھی نشانہ بنایا گیا.جو یقیننا لمحہ ء فکریہ ہے.
کہیں ایسا نہ ہو کہ
ہیں کواکب کچھ اور نظر آتا ہے کچھ
اور اس سے اپنی مراد بر آور ہو اسکے لیئے اپنے چند بندے کام میں آجائیں بھی
تو کیا مضائقہ
ہمارے ایک خبر اور ایک بریکنگ نیوز چند لمحوں کی بے چینی تاسف افسوس اور
پھر وہی معمول تاوقتیہ جب تک ہمارا اپنا کوئی اسکا شکار نہیں بنتا
زندگی شام کا اخبار ہوئی جاتی ہے
کچھ دن پہلے ملک کے اندر خوشی اور گہماگہمی کا ماحول تھا پی سی ایل کے
انعقاد کا عالمی سطح پر بھی خیر مقدم کیا جارہا تھا ایک کوشش یہ بھی ہوسکتی
ہے اسکے انعقادمیں روکاوٹیں ڈالی جائیں..اس ایک دھماکے نے بہت سی نئی
الجھنیں اور نئے سوال پیدا کردیئے ہیں. اور بہت سے سوالوں اور حقائق پر
پردہ ڈال دیا ہے.کرکٹ بورڈ پھر مشکل صورتحال کا شکار ہوسکتا ہے شاید غیر
ملکی ٹیموں کے کھلاڑی پھر پاکستان میں تحفظات پر مبنی سوال اٹھائیں.
شاید پھر دوسرے ممالک کی طرف سے پاکستان کے اندر جاری دہشت گردی پر سوالات
اور بحث کا آغاز ہو. شاید پھر عوام حکومتی اداروں کی نیت پر شک کریں شاید
پھر سے احتجاج اور نئے دھرنے شروع ہوجائیں.اسطرح کب تک چلتا رہے گا ہم کیوں
اپنے ہی گھروں میں محفوظ نہیں.کیوں آزادیء صحافت پر چھائے خدشات کم نہیں
ہوتے کیوں ہر نیا دن ایک نئے مسلے اور شکایت سے شروع ہوتا ہے.
شاید عوام اور حکومت دونوں ہی ذمے داران میں شامل ہیں.شاید تاحال جاتی
مقدمات بھی بنا کسی فیصلے حکومتی مدت پوری کرجائیں اور ہم پھر سے کسی نئے
ہاتھ کا کھلونا خوشی خوشی بن جائیں. اگر آپ ہم اور سب ایسا نہیں چاہتے اگر
ہم اپنی نئ نسل کو اس آگ مین جھونکنا نہین چاہتے تو ہم سب کو ایک ہوکر ذاتی
مفاد کو بالائے طاق رکھ کے چ مفاد کے لیے کام کرنا ہوگا اور اپنی جڑوں سے
ایسے تمام ناسوروں کو باہر نکال پھینکنا ہوگا. جو مسلسل ہمیں نقصان
پہنچارہے ہیں.اللہ حامی وناصر اور مددگار ہو.آمین |