پری کی بد دعا یا کسی جن کا جا دو

پر انے قصے کہا نی کابھٹکتا مسافر ایک نئے ملک میں داخل ہو تا ہے تو اس کی حیران آنکھیں دیکھتی ہیں کہ سارا شہر اجا ڑ بیا باں ہو چکا ہے چاروں جانب موت کا خوف ہے زندگی رخصت ہو رہی ہے ہر طرف آہ و بکا کی آوازیں ہیں غم کا نو حہ ہے سب اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگردان ہیں رو رہے ہیں چلا رہے ہیں کٹے پھٹے انسانی اعضاء اور لا شیں بکھری پڑی ہیں اک قیامت کا منظر ہے مسافر محو حیرت ہے کہ آخر الہیٰ ما جرا کیا ہے؟ سب اتنے ہراساں کیوں ہیں؟کیا اس ملک میں کو ئی عفریت ہے جو انسانی خون کا پیاسا ہے پل بھر میں سب کچھ نیست و نا بود کر کے منظر نا مے سے غائب ہو جا تا ہے مسافر یورپی ملکوں کی سیا حت میں آتش بازی کا حسین منظر دیکھ کر آیا تھاصاف ستھرے پر امن انسانوں کی دنیا جہاں سب کے چہرے آسودگی لیئے ہو ئے تھے عوام زندگی کی رعنائیوں اور ترقی میں حصہ دار بننے میں کو شاں، اپنی نئی نسلوں کو سا ئنس کی جدید ترقی سے ہم آہنگ کرنے کی تگ ودو کر رہے تھے لیکن یہ کیسا دیس ہے جہاں بم دھما کوں کا شور شب برات کے پٹا خوں سے زیادہ سنا ئی دکھا ئی دیتا ہے یہ خوف،یہ دہشت اکیسویں صدی کے سٹلایٹ دور میں بھی ان پر مسلط ہے کیا یہ کسی آسیب کا سا یہ ہے مسافر سمجھتاہے کہ کسی پری کی بد عا یا کسی جن نے جادو کے زور سے سا رے ملک کو اس حال پر پہنچا دیا ہے وہ بھی اس بر بادی پر نو حہ کناں ہو تا ہے اس وجوہا ت جا ننے کی کو شش میں لگ جا تا ہے و ہ ہر دہشت گردی کے وا قعے کے بعد بننے وا لی کمیٹی کا حصہ بن جاتا ہے اب وہ بھی بلند و بانگ بیا نات دینے کا ماہر بن جا تا ہے اپنے آس پاس جو کچھ دیکھتا ہے اس سے بلکل بے حس ہو جا تا ہے اب وہ یہ بھی نہیں سمجھ پا تا کہ پری کی بد عا اور جن کے جادو کا اثر اس پر ہے یا اس ملک کے بے گناہ عوام پر ہے ۔

اگر پا کستان کی تا ریخ کو غور سے پڑھا جائے تو ایسے کتنے ہی شگاف نظر آتے ہیں جو اپنے ہی لگاتے رہے ہیں جس خوف ناک سا نحے سے ہم روزانہ گزر رہے ہیں اس کی وجہ ایک دن یا ایک سال کا شا خسانہ نہیں ہمارے تما م ادارے دن بدن اپنے ہی لو گوں کے ہا تھوں لوٹ کھسوٹ کر تبا ہ کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں ہم روز ایک نئی تلخ حقیقت سے نبرد آزما ہو تے ہیں کبھی سا نحہ صفورا تو کبھی پشاور میں معصوم بچوں کی ہلا کتیں کبھی بلو چستان میں نہتے بے گناہ مزدوروں کو مو ت کے گھاٹ اتار دیا جا تا ہے سا نحہ ما ڈل ٹاون اور نجانے کتنے ان گنت واقعات پا کستاان کی سوانح عمری میں لکھی جا چکی ہیں ضرب غضب نے دشمنوں کو کافی پیچھے دھکیلنے میں مدد کی لیکن ابھی پوری طرح ختم نہیں ہو ئے جب بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ اپنی دہشت گردی کا موقع ہا تھ سے جا نے نہیں دیتے اس کی تا زہ مثا ل ایک ہی د ن لا ہور،وزیرستان اور کو ئٹہ میں بم دھمکا ے کئے گئے جس میں کئی قیمتی جا نیں ضا ئع ہو ئیں ان وا قعات پرپورا ملک سراپا مذمت ہے کم عمر نوجوانو ں کو جنت کا خواب دکھا کرانھیں اس کام میں لگا یا جاتا ہے دہشت گردی،شدت پسند ی پا کستا ن میں اپنے پنجے دوبارہ کیو ں گا ڑنے کی کو شش کر رہے ہیں اسکی سیدھی سی و جہ کہ ہم نے خو داپنے پیرو ں پرکلہا ڑی ما ری ہے آبیل مجھے مار کے مصداق، ہما ری اپنی پا لیسیا ں رہی ہیں اس وقت دہشت گر دی کی آگ میں پورا ملک جل رہا ہے امریکہ کی جنگ اپنے کھا تے میں ڈالنے کے بعدہمیں کیا حا صل ہو ا ماسوا ئے اس کے کہ مر ض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی،ہمارے سیاست داں کے سینکڑو ں گا رڈز کی جھر مٹ میں اپنے محلو ں میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ اس خوف کو کیا جا نیں دہشت گر دی کا شکا ر تو ایک عام آدمی کو ئی ٹھیلے والا کو ئی محنت کش یا پھر کوئی سپا ہی اور فو جی ہو تا ہے۔ آپر یشن ضرب غضب میں اپنے فو جی جو انوں کو جھونک کرہم نے کیا پایا دو سری طرف امریکہ ہے کہ اسکی ڈو مور ختم ہو نے کا نا م نہیں لیتی ہر قسم کے جدیدآلات اور تیکنیکی مہا رت کے با وجو دامر یکہ ا فغا نستا ن پر اپنا تسلط نہیں جما سکا اس کے تعاون کے صلہ میں آج دہشت گر دوں نے ہما رے پو رے ملک کو نشانہ بنا رکھا ہے طا لبا ن سے ہمدردی رکھنے والے سہولت کاروں کو سوچنا ہو گا کہ ہم ان د ہشت گر دوں کو پنا ہ دے کر ان کی حمایت کر کے کہیں ہم اپنے ہی پاؤ ں کے نیچے سے ز مین تو نہیں کھینچ رہے۔

ایک طرف عام لوگ خوا ہشات و مطا لبات کی چکی میں پس رہے ہیں بڑھتی آبادی، طبقاتی فرق کی محرومی نے انتشارو انحطاط کو جنم دیا ہے ہمارا معاشرہ جس قدر تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے وقت گزرنے کے ساتھ تشد دکے اثرات مزید گہرے ہو تے جا رہے ہیں اس حقیقت سے انکار نہیں لوگ پر یشان ہیں ایک ہیجان میں مبتلا ہیں ہماری فکری، تعلیمی اور اخلا قی پسماندگی کا اثر ہماری اجتما عی کردارو عمل پر پڑاہے ہم آئے دن سا نحوں کے جواب میں عوامی رد عمل کے طور پر سڑکوں پر املاک کو نقصان پہنچا نے کے مناظر عام دیکھتے ہیں اس عوامی نفرت و تشدد کو انقلا ب کا نام بھی دیا جا تا ہے ہم نے انقلابات کی جو تاریخ پڑھی ہے اس میں سما جی تبدیلی کا عمل عوام کی بغاوت سے شروع ہو تا ہے ہما رے پا لیسی میکرزکو اس وقت بڑی دوراند یشی سے حالا ت کی نزا کت دیکھتے ہوئے فیصلے کرنیکی ضرورت ہے یہ طویل پلا ننگ پر وگرام ہو سکتا ہے ا س لیے کہ جب تک عوام میں تعلیم کا شعور نہیں ہو گا وہ اپنے دوست اور دشمن کی صیح پہچا ن نہیں کر سکتے اسکے لیے مد رسوں میں جد ید تعلیمی سہو لتوں اور رو شن خیال مثبت ذہن رکھنے والے ٹیچر زرکھنے ہوں گے یہ ایک لمبا پروگرام ہے مگر ان سب مسا ئل کا یہی بہتر اور دیر پا حل ہے۔جب دہشت گردی کے واقعات پیش آتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم دوبارہ اسی جگہ کھڑے ہیں جہا ں سے سفر شروع کیا تھا آسیب کا سایہ ہم سے دور نہیں ہوا آپ تھو ڑی دیرکوتصورکر یں اگرکو ئی نیا مسا فر ہما رے آزاد ملک میں وارد ہو توکیا وہ حیران آنکھوں سے موت کے چھا ئے بادل اور ہمارے سیکو رٹی نظام کو کسی پری کی بد عا یا کسی جن کا جادو نہ سمجھے گا۔۔۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 161330 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.