برے سیاست دانوں کے خلاف اچھے پاکستانی سیاست دان کب متحد ہوں گے ؟
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے
پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ہمیں واضح طور پر دکھائی دے گا کہ
ہماری قوم کی قیادت کا دعوی ٰ کرنے والے سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں دو
گروپوں میں بٹی ہوئی ہیں ،سیاست دانوں کے ایک گروپ کا تعلق کئی عشروں سے
سیاست کرنے والے برسراقتدار طبقے سے ہے جو ماضی اور حال کی طرح مستقبل میں
بھی بدستور پاکستان پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے جبکہ سیاست دانوں کے دوسرے
گروپ کا دعوی ہے کہ وہ برسوں سے آزمائے ہوئے سیاست دانوں کی کرپشن اور
جرائم سے اس قوم کو نجات دلانے کے لیئے میدان سیاست میں آئے ہیں اور وہ
تمام لسانی ،قومی اور مذہبی اختلافات کو دور کرکے پوری قوم کو پاکستانیت کے
جذبے کے تحت ایک پاکستانی قوم بناکر پاکستان اور پاکستانی عوام کے دیرینہ
مسائل حل کرکے اس ملک کو ترقی اور استحکام کے راستے پر گامزن کرنا چاہتے
ہیں۔ پہلی سیاسی قوت جو اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنا چاہتی ہے اس میں
نواز شریف کی نون لیگ اور آصف زرادی کی پیپلز پارٹی شامل ہیں جبکہ تبدیلی
لانے کا دعوی ٰ کرنے والی دوسری سیاسی قوت میں عمران خان کی پاکستان تحریک
انصاف اور مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی شامل ہیں۔
ماضی میں بدترین سیاسی اورنظریاتی اختلاف رکھنے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سے کے سربراہان نواز شریف اور آصف زرداری نے
پاکستان پر اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیئے آپس میں دوستی کرکے باری باری
اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیئے جس طرح ایک دوسرے کی کرپشن اور اقتدار کو تحفظ
دینے کا وطیرہ اختیار کررکھا ہے اور یہ لوگ اپنے اپنے عرصہ اقتدار میں ایک
دوسرے کے لیئے جس طرح فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں اگر یہ سلسلہ
اسی طرح جاری رہا تو ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ کسی تیسری سیاسی قوت کا
اقتدار میں آنا صرف ایک خواب ہی رہے گا، اگر پاکستان سے محبت کرنے والے اور
پاکستانی عوام کی قسمت بدلنے کا دعوی ٰ کرنے والے سیاستدانوں نے بھی آپس
میں اتحاد کرکے انتخابات میں حصہ نہ لیا تو پھر پاکستان میں کبھی کوئی
سیاسی تبدیلی جمہوری طریقے سے نہیں آسکتی۔
پاکستانی عوام ہوں یا پاکستانی عوام کی تقدیر بدلنے اور نیا پاکستان بنانے
کی باتیں کرنے والے سیاست یہ شاید سب کے لیئے آخری موقع ہے کہ وہ اپنی ڈیڑھ
اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانے کی بجائے ملک دشمن ،کرپٹ اور مفاد پرست سیاست
دانوں کے خلاف اکٹھے ہوجائیں کہ یہ وقت کی آواز ہے اور جو قوم یا رہنما وقت
کی آواز کو نظر انداز کرتے ہیں وقت بھی انہیں نظر انداز کرکے آگے نکل جاتا
ہے اور پھر لوگ باگ اقتدار میں آنے کے بس خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔ملک
اور قوم کے بہترین مفاد میں عمران خان ،مصطفی کمال اور ان جیسی سوچ رکھنے
والے دیگر تمام سیاستدانوں کو اپنا ایک مظبوط سیاسی اور انتخابی اتحاد
بنانا ہوگا تب ہی کوئی تبدیلی آسکے گی ورنہ ’’سولو فلائٹ ‘‘ بھرنے سے واہ
واہ کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔
عمران خان ہوں یا مصطفی کمال دونوں ہی سچے اور کھرے انسان ہیں ،دونوں خدا
کے علاوہ کسی دنیاوی طاقت سے نہیں ڈرتے ،دونوں محب وطن اور بہادر سیاسی
رہنما ہیں ،دونوں پاکستانی عوام کو کرپشن اور دہشت گردی سے نجات دلا کر
سڑکوں ،گلیوں اور محلوں کی سطح پر عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیئے اخیتارات
کا حصول چاہتے ہیں۔دونو ں قابل ،باصلاحیت ،فعال اور عوامی خدمت کے جذبے سے
سرشار سیاسی رہنما ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے لیئے نہیں بلکہ پاکستانی
عوام کے حقوق کی پاسداری کے لیئے سیاست کے میدان میں آئے ہیں۔دونوں کے
پیچھے ان کا شاندار کام ہے جو انہوں نے اپنی اپنی فیلڈز میں انجام دیا ہے
اور دونوں ہی پاکستانی عوام کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہونے کا اعزا ز
رکھتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عمران خان اور مصطفی کمال جیسے بے
مثال سیاسی رہنماؤں کا مقصد ومحور اور طریقہ کار ایک ہی ہے تو پھر یہ دونوں
اب تک کسی بھی مقام پر ایک ساتھ کیوں نظر نہیں آئے ؟ یا یہ دونوں عوامی
مسائل کے حل کے لیئے اب تک مشترکہ جدوجہد کے راستے کو اپنانے سے کیوں
اجتناب برت رہے ہیں ۔
اگر پاکستانی سیاست میں بدی کی قوتیں ایک جگہ جمع ہوکر کرپشن اور دیگر
جرائم میں ملوث سیاستدانوں کے اقتدار کو بچانے کے لیئے ایک ہوسکتی ہیں تو
نیکی اور سچائی کے راستے پر گامزن سیاست دان کیوں ایک نہیں ہوسکتے ؟ اپنی
اپنی سیاسی جماعتوں کو قائم رکھتے ہوئے ،اپنی اپنی سیاسی حیثیتوں کو برقرار
رکھتے ہوئے بھی تو کسی بڑے مقصد کے لیئے ایک ہوا جاسکتا ہے ۔ اگر صرف ایک
نکتے پر اتفاق کیا جائے کہ پاکستان سے کرپشن ،لسانی سیاست اور دہشت گردی کو
ختم کرنے کے لیئے متحد ہوکر باطل سیاسی قوتوں کو سیاسی میدان میں شکست دے
کرپاکستانی عوام کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیئے سیاسی اور انتخابی
اتحاد کرکے ملک دشمن ،علیحدگی پسند ،لسانی اور علاقائی جماعتوں اور کرپشن
میں ملوث سیاسی رہنماؤں کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور اس
مقصد کے حصول کے لیئے ہر اس سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت سے اتحاد کیا جائے
گا جو پاکستان اور پاکستانی جھنڈے کی عزت اور احترام کرتی ہو اور جو
پاکستان میں حقیقی تبدیلی لاکر یہاں کے عوام کی حالت بدلنا چاہتی ہو۔
اگر بدی کی قوتوں کی طرح نیکی اور سچائی کی قوتیں بھی پاکستانی سیاست میں
اتحاد کرلیں تو اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کو ان روایتی سیاست
دانوں کے چنگل سے آزاد کیاجاسکے جنہوں نے پاکستانی عوام کو درحقیقت اپنا
غلام بنایا ہوا ہے اور وہ اقتدار کے مراکز پر اپنا ہولڈ قائم رکھنے کی وجہ
ہر بار بڑی آسانی کے ساتھ برسراقتدار آجاتے ہیں ،دو پارٹیاں کئی عشروں سے
باریاں لے کر اقتدار میں آرہی ہیں لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں اپنی جگہ
موجود ہیں اس لیئے اس بار عوام کو بھی ووٹ دیتے ہوئے اپنا فیصلہ سوچ سمجھ
کر کرنا ہوگا کہ اگر2018 کے انتخابات میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو پھر شاید
کبھی بھی نہ آئے کہ سچے اور اچھے سیاست دانوں کے لیئے جیسے آئیڈیل حالات اس
وقت کراچی اور پورے پاکستان کے ہیں وہ پھر شاید ہی کبھی ہوسکیں ۔
عمران خان اور مصطفی کمال سے کون واقف نہیں ان دونوں بے مثال شخصیات کی
تعریف کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کہ ان دونوں کا بنیادی حوالہ
ان کی ذاتی قابلیت ،خصوصیات اور ناقابل فراموش خدمات ہیں جن کی وجہ سے آج
ان دونوں قابل سیاست دانوں کو ملک اور بیرون ملک عزت کی نگا ہ سے دیکھا
جاتاہے اور کیوں نہ دیکھا جائے کہ ان جیسے گوہر نایاب صدیوں میں پیدا ہوتے
ہیں اور صدیوں تک یاد رکھے جاتے ہیں ۔پاکستان کے مفاد پرست معاشرے میں ابن
الوقت اور مصلحت پسند سیاستدانوں کی بھیڑ میں عمران خان اور مصطفی کمال وہ
قابل فخر پاکستانی سیاست دان ہیں جنہیں ہم بلاشبہ اپنے پیارے ملک پاکستا ن
کی آبرو قرار دے سکتے ہیں ورنہ تو گزشتہ 9 سالوں کے دوران برسراقتدار رہنے
والے سیاست دانوں نے کرپشن ،مفاد پرستی ،بے شرمی اور عوامی مسائل سے
لاتعلقی کے وہ شرمناک مظاہرے پیش کیے ہیں کہ شاید ہی پاکستان میں اس سے قبل
اتنا برا دور سیاست گزرا ہو۔
سچائی ،بہادری ،عزم ،حوصلے اور پاکستانی عوام کی خیرخواہی کے حوالے سے ہم
عمران خان اور مصطفی کمال کو ایک ہی کشتی کے سوار قرار دے سکتے ہیں کہ ان
دونوں میں کئی مشترک باتوں کے علاوہ حب الوطنی کے جذبے کی شدت نے انہیں عوا
م الناس میں بہت تیزی کے ساتھ مقبول بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا
ہے۔عمران خان کی اصل وجہ شہرت ایک کرکٹر کی تھی اور انہوں نے پاکستان کے
ایک کامیاب ترین آل راؤنڈر کرکٹر کی حیثیت سے جو شاندار کارکردگی پیش کی
اسے آج بھی بطور مثال پیش کیا جاتا ہے ۔پاکستان کے لیئے کرکٹ کا عالمی کپ
جیتنے کے تاریخی کارنامے کے بعد عمران خان نے کرکٹ سے علیحدگی اختیار کرکے
فلاحی سرگرمیوں کا آغاز ’’شوکت خانم کینسر ہسپتال‘‘ بنا کر کیا جو کہ
پاکستان میں کینسر جیسے موضی مرض کے مہنگے ترین علاج کی سہولت فراہم کرنے
والا واحد ادارہ ہے ،یہ وہ شاندار کارنامہ تھا جس نے عمران خان کو راتوں
رات پاکستانی عوام کے دلوں کی دھڑکن بنا ڈالا جس کے بعد عمران خان نے بین
الاقوامی معیار کی تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے والا ادارہ ’’نمل یونیورسٹی
‘‘ قائم کیا جس سے عمران خان کی ساکھ میں مزید اضافہ ہوا اور پھر آخر کار
عمران خان نے ایک نئی سیاسی جماعت ’’ پاکستان تحریک انصاف ‘‘ کے نام سے
قائم کرکے میدان سیاست میں بڑے زور وشور کے ساتھ قدم رکھا اور اس میدان میں
بھی کامیابی نے ان کے قدم چومے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی قائم کردہ سیاسی
پارٹی تحریک انصاف نے ملک گیر سطح پر شہرت اور کامیابی حاصل کرکے پاکستان
پر کئی عشروں سے حکومت کرنے والی دو بڑی سیاسی جماعتو ں پاکستان پیپلز
پارٹی اور مسلم لیگ ( ن) کے لیئے خطرے کی گھنٹی بجادی ۔
عمران خان نے اپنی قائدانہ صلاحیت ،قابلیت،انتھک محنت اور جذبے کی شدت کی
وجہ سے کھیل کی طرح سیاست میں بھی شاندار کامیابی حاصل کی اور تحریک انصاف
کو پاکستان کی تیسری سیاسی قوت بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ عمران خان اقتدار
کے مراکز پرکنٹرول رکھنے والے کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ
برسر پیکار نظر آتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی قسمت
بدلنے اور ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے
کے لیئے ہمہ وقت تیار ہیں،چاہے ان کی جان کو کتنے بھی خطرات لاحق ہوں پر وہ
سچائی ،حق گوئی اور انصاف کے حصول کا راستہ چھوڑنے پر کسی صورت آمادہ نہیں
ہونگے حالیہ پانامہ کیس کے حوالے سے عمران خان کا کردار ان کو ایک اصولی
اور سچا محب وطن سیاست دان ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے۔
مصطفی کمال بھی عمران خان کی طرح ایک قابل ،باصلاحیت ،فعال ،بہادر ،سچے اور
محب وطن سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے 3 مارچ 2016 کو کراچی واپس آکر جس طرح
نہایت دلیری کے ساتھ کراچی کی سیاست پر قابض’’الطاف حسین ‘‘ نامی فرعون کو
للکارتے ہوئے اس کی منافقانہ اور ملک دشمن سرگرمیوں کا پردہ چاک کیا وہ ان
سے قبل کوئی بھی اردو بولنے والا دوسرا سیاست دان نہ کرسکا ۔مصطفی کمال کی
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کی گئی باتوں کو کراچی بلکہ پورے
پاکستان کے عوام نے نہایت غور سے سنا کہ یہ باتیں کوئی اور نہیں ماضی میں
ایم کیو ایم سے وابستہ رہنے والا ایک نیک نام سیاسی لیڈرمصطفی کمال کر رہا
تھا جس نے پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کی جانب سے سٹی ناظم
بنائے جانے کے بعد جس قابلیت،صلاحیت ،محنت ،خلوص ،جذبے اور لسانی و سیاسی
تعصب سے بالا تر ہوکر انتھک محنت کرکے کراچی کی تعمیر وترقی میں جو زبردست
کردار ادا کیا اسے لوگ آج بھی فراموش نہیں کر پائے کہ مصطفی کمال سے پہلے
یا بعد آج تک کراچی کو مصطفی کمال جیسا فعال ،مخلص اور قابل مئیر نہیں مل
سکا جس نے نہایت کم وقت میں کراچی کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی یہی وجہ ہے کہ
جب انہوں نے ایم کیو ایم اور الطاف حسین سے اعلانیہ بغاوت کرتے ہوئے اپنی
نئی سیاسی جماعت ’’پاک سرزمین پارٹی ‘‘ قائم کی تو انہیں پورے ملک سے بہت
اچھا ریسپونس ملا اور نہایت کم وقت میں انہوں نے نہ صرف کراچی بلکہ پورے
پاکستان لیول پر اپنی نئی سیاسی پارٹی کی علیحدہ شناخت قائم کرلی ۔
مصطفی کمال کی برق رفتار سیاست نے بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کو چونکا کر رکھ
دیا کہ کراچی میں آ کر کراچی پر حکومت کرنے والے بے تاج بادشاہ الطاف حسین
کو سرعام’’ را ‘کا ایجنٹ قرار دے کر ان کی شراب نوشی ،منی لانڈرنگ اور دیگر
اندرونی رازوں کا سر عام پردہ چاک کرکے مصطفی کمال نے اپنی بے خوفی ،حب
الوطنی اور قائدانہ صلاحیتوں کا جو شاندار مظاہرہ پیش کیا اس نے انہیں
راتوں رات وہ مقبولیت اور کامیابی فراہم کردی جس کا خواب ہر سیاست دان
دیکھتا ہے ۔ مصطفی کمال کو پاکستانی ایجنسیوں کا آدمی قرار دینے والے لوگ
بھی رفتہ رفتہ خاموش ہوتے چلے گئے کے مصطفی کمال کا قول وفعل اس بات کی
کھلی گواہی دے رہا تھا کہ مصطفی کمال کسی ایجنسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے
ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خوف خدا کے جذبے سے سرشار ہوکر گمراہی کا
راستہ چھوڑ کرسچائی کے راستے پر اس ثابت قدمی اور حوصلے سے گامزن ہوئے کہ
اب انہیں اپنی جان کا خوف نہیں بلکہ پاکستانی عوام کے مسائل کی فکر لاحق ہے
جسے وہ حل کرنا چاہتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیئے وہ باقاعدہ اپنا ایک
نظریہ اور پلان رکھتے ہیں جس پر وہ اقتدار میں آنے کے بعد ہی عمل پیرا
ہوسکیں گے ۔
عمران خان اور مصطفی کمال جیسے اچھے اور نیک نام سیاست دانوں سے بہت سی
امیدیں وابستہ رکھنے والے پاکستان کے محب وطن عوام کے لبوں پر آج ایک ہی
سوال مچلتا ہوا نظر آتا ہے کہ آخر برے سیاست دانوں کے خلاف اچھے سیاست دان
کب متحد ہوں گے ؟ لہذا برے اور کرپٹ سیاست دانوں کے ہاتھوں ستائی گئی مظلوم
پاکستانی قوم کی خاطر چھوٹے موٹے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر عمران خان
اور مصطفی کمال جیسے قابل، محب وطن ،فعال ،دلیراورپاکستانی قوم کے مسائل کو
حل کرنے کا جذبہ رکھنے والے اچھے سیاسی لیڈروں کوپاکستان اور پاکستانی عوام
کے بہتر مستقبل کی خاطر انتخابی اتحاد کرناہوگا کہ پاکستان میں جمہوری
طریقے سے تبدیلی لانے کا یہ ہی واحد راستہ ہے ورنہ 22 سال سے پاکستانی
سیاست کو کرپشن اور مفاد پرستی سے پاک کرنے کے لئے کوششیں کرنے اورنواز
شریف وآصف زرداری کی مبینہ کرپشن پر آواز اٹھانے والے عمران خان اور ان کی
جماعت’’ پاکستان تحریک انصاف‘‘ اور گزشتہ 10 ماہ سے تیزترین سیاسی سرگرمیوں
میں مصروف کراچی سمیت پورے پاکستان میں لسانیت کے خلاف برسرپیکارہوکر الطاف
حسین اور ایم کیوایم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے اور پاکستانیت کے جذبات
کو فروغ دینے والے مصطفی کمال اور ان کی جماعت ’’پاک سرزمین پارٹی ‘‘ہاتھ
ملتی رہ جائیں گی اور اقتدار کی کرسی پر ایک بار پھر وہ ہی لوگ برآجمان
ہوجائیں گے جن کے کرپشن اور جرائم کے قصے زبان زد عام ہیں۔
برے سیاست دانوں کے خلاف اچھے پاکستانی سیاست دان کب متحد ہوں گے ؟ |
|