آئندہ بار انتخابات اوروکلاء سیاست کا احوال (حصّہ دوئم)
(Shahzad Imran Rana Advocate, )
حصّہ اوّل میں ، میں نے 23جنوری کو
ہونے والے لاہور بار ایسوسی ایشن کے سالانہ الیکشن 2017-18 سے قبل کا جائزہ
پیش کیا تھا جس کی صدارت حامد خان گروپ کے نام رہی۔اِس حصّہ میں،میں
25فروری کو ہونے والے لاہورہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن کی بات
کروں گاجس کی نشستوں کی تعداد لاہور بار کے مقابلے میں کافی کم یعنی چارہے
جن میں صدر، نائب صدر،سیکرٹری اور فنانس سیکرٹری کے عہدے شامل ہیں مگر یہاں
ووٹرز کی تعداد کافی زیادہ ہے کیونکہ یہاں سو سے زائد بار ایسوسی ایشنز کے
ممبران جو لاہور ہائی کورٹ کی حدود میں آتے ہیں ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔
یہاں بھی صدر کی نشست پر ہربار حامد خان کے پروفیشنل گروپ اور عاصمہ
جہانگیر کے انڈیپنڈنٹ گروپ کے مابین ہی مقابلہ ہوتا ہے گزشتہ سال حامد خان
گروپ نے کافی عرصے بعد صدارت اپنے نام کی تھی جس میں راناضیاء عبدالرحمن نے
اپنے مضبوط سیاسی حریف رمضان چوہدری کو شکست سے دوچارکیا تھا ۔
عاصمہ جہانگیر گروپ نے دوبارہ رمضان چوہدری کوہی میدان میں اتارا ہے مگر
اِس بار دو ایسے امیدوار بھی میدان میں کودپڑے ہیں جو ہمیشہ اِس گروپ کے
سیاسی حلیف رہے ہیں اور جو رمضان چوہدری کے لئے بڑی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں
اِن میں سابقہ گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کے فرزند اور پیپلز لائیرز
فورم کے راہنما سردارخرم لطیف کھوسہ اور ایک مشہور وکیل راہنما آزر لطیف
خان صدر کے لئے کھڑے ہیں جبکہ حامد خان گروپ کی طرف سے لاہور بار کے سابقہ
صدر چوہدری ذوالفقارعلی میدان میں ہیں اِس طرح عاصمہ جہانگیر گروپ کے تین
امیدواروں کا حامد خان گروپ کے ایک امیدوار سے مقابلہ ہے۔
نائب صدر کی نشست پرون ٹو ون مقابلہ ہے جس میں دونوں امیدواروں کا یہ دوسرا
الیکشن ہے جن میں قائداعظم لاء کالج کے بانی حاجی چوہدری سلیم جبکہ اِن کے
مدمقابل ممبر پنجاب بار کونسل آغا فیصل کے امیدوار اور پیپلز لائیرز فورم
کے راہنماراشد لودھی ہیں دونوں امیدواروں کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع
ہے یاد رہے کہ حاجی چوہدری سلیم پنجاب بار کونسل کے انتخابات 2014میں بھی
لاہور سیٹ کے لئے امیدوار تھے اور ہارگئے تھے ویسے اب تک حاجی چوہدری سلیم
کسی بھی الیکشن میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔
سیکرٹری کی نشست پر کل پانچ امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے اوریہ تمام
امیدوار پہلی بارالیکشن میں حصہّ لے رہے ہیں جن میں حامد خان گروپ کے
سرگردہ راہنما ممبرپاکستان بار کونسل مقصود بٹرکے امیدوار حسن اقبال وڑائچ
جبکہ اَسی گروپ کے ایک اور راہنما ممبرپاکستان بار کونسل طاہر نصر اﷲ وڑائچ
کے امیدوار عامر سعید راں بھی میدان میں ہیں اِن کے علاوہ عاصمہ جہانگیر
گروپ کے راہنماسیالکوٹ سے ممبر پنجاب بار کونسل رفیق جٹھول کے امیدوار
عرفان ناصر چیمہ جن کو اِسی گروپ کے لاہور سے ممبرپنجاب بار کونسل سید
فرہادعلی شاہ کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے جبکہ ملک زاہد اسلم اعوان اور میاں
مظفر حسین کو مختلف بار ایسوسی ایشنز کی موجودہ اور سابقہ عہدیداروں کی
حمایت حاصل ہے یعنی سیکرٹری کی نشست پر بھی دلچسپ مقابلہ متوقع ہے۔یاد رہے
کہ حالیہ الیکشن لاہور بار میں سید فرہادعلی شاہ کے امیدوار برائے نائب صدر
عرفان صادق تارڑ اور طاہر نصر اﷲ وڑائچ کے امیدوار برائے سیکرٹری ملک فیصل
اعوان کامیاب رہے تھے۔
فنانس سیکرٹری یعنی لاہور ہائی کورٹ بارکی آخری نشست۔اِس نشست پر کل تین
امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے اوریہ تمام امیدواربھی پہلی بارالیکشن میں
حصہّ لے رہے ہیں جن میں سابقہ فنانس سیکرٹری اور آئندہ امیدوار برائے ممبر
پنجاب بار کونسل بھکر سیٹ سید اخترحسین شیرازی کے امیدوارحافظ اﷲ یار سپراء
جن کو موجودہ فنانس سیکرٹری سید اسد بخاری کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے، اِ ن
کے علاوہ سابقہ سیکرٹری لاہور ہائی کورٹ بار اور پاکستان مسلم لیگ
(ن)لائیزز فورم کے سرکردہ راہنمارانا اسد اﷲ خاں کے امیدوار محمد ظہیر بٹ
اورایک آزاد امیدوار انتظار حسین کلیار شامل ہیں اِس نشست پربھی تمام
امیدواروں کومختلف بار ایسوسی ایشنز کے موجودہ اور سابقہ عہدیداروں کی
حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے اِس نشست پر بھی تمام امیدواروں کے درمیان
کانٹے کا مقابلہ تصور کیا جا رہاہے۔ویسے بھی وکلاء سیاست میں قبل ازوقت پیش
گوئی غلط بھی ہوجاتی ہے کیونکہ اِس الیکشن میں بھی لاہور بار کی طرح مختلف
گروپوں کی آخری وقت کی ’’معاملہ کاری‘‘ بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور جو
بڑے بڑے برُج الٹ بھی دیتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا آخری الیکشن تاریخ میں پہلی بارمکمل
طور پر ’’بائیومیٹرک ووٹنگ سسٹم ‘‘کے تحت ہوا تھا مگر اِس بار لاہور بار
ایسوسی ایشن کا الیکشن ــ’’بائیومیٹرک ووٹنگ سسٹم‘‘کے تحت تمام تیاریوں کے
باوجود نہیں ہوسکا اور ایک ہفتے کے لئے ملتوی بھی کیا گیا تھا اِس بات کی
وجہ سے عاصمہ جہانگیر گروپ کے امیدوار رمضان چوہدری نے چیئرمین الیکشن
بورڈجاوید اقبال راجہ کے سامنے موقف اختیار کیا کہ وہ آخری الیکشن
میں’’بائیومیٹرک ووٹنگ سسٹم ‘‘کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوگئے تھے جس پر
انہوں نے اپنے ہی گروپ کے اہم راہنما اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل
محمد احسن بُھون سے ’’دستی ‘‘ طریقہ سے الیکشن کروانے کے لئے حکم نامہ بھی
حاصل کرلیا ہے جس کوصدراتی امیدوار خرم لطیف کھوسہ نے مداخلت قرار دیتے
ہوئے چیلنج کردیا ہے اور حامد خان گروپ کے امید وار چوہدری ذوالفقارعلی بھی
اِس معاملے کو چیلنج کرنے والے ہیں اب دیکھنا یہ ہوگا کہ الیکشن کس طریقہ
کے تحت ہوتا ہے یا مقررہ وقت سے ملتوی ہوجاتا ہے ویسے وکلاء برادری کی
اکثریت وقت کے ضائع سے بچنے کے لئے ’’بائیومیٹرک ووٹنگ سسٹم ‘‘ کے تحت
الیکشن کو ہی پسند کرتی ہے۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|