’’ سفیر سخن‘‘ حصہ اول

مارچ کا پربہار مہینہ تھا۔ہم نے اپنی والدہ ،بہنوں اور انکے بچوں سمیت دہلی شہر اپنے ننھیالی عزیزوں سے ملاقات کے لیئے رخت سفر باندھا۔یہ ہمارا پہلا سفر نہ تھا دہلی شہر کے لیئے ہم ان فضاؤں کو بچپن سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔اگر سفارتی سطح پر آمدورفت مشکل ترین نہ بنا دی گئی ہوتی تو ہمارا تازہ ترین سفر آٹھ سال کے وقفے سے بھی نہ ہوتا۔ان آٹھ برسوں میں ہمارے پاسپورٹ نے کتنی بار ــ’’نا منظور‘‘ کا ٹھپہ سہا اور ہر بار اس ٹھپہ نے ہم کو کس قدر آرزردہ کیا وہ نظام وضع کرنے والے کیا جانیں۔

اسکائپ ،وائبر ،واٹس اپ جیسے کتنی ایپلی کیشنز ہوں ،لیکن تشنگی برقرار ہی رہتی ہے۔ہم نے بھی جہاز کی سیٹ پر بیٹھ کر آخری ہدایت ملنے سے قبل تک تھری جی سے فیض اٹھا کر اہل دلی سے رابطہ رکھا اور پل پل کی خبر دی لیکن منزل پر پہنچ کر جو اپنی آنکھوں سے سب کو دیکھا تو ٹھنڈک ہی اور تھی۔لگتا تھا جیسے مینتھول کا اسپرے کسی نے کر دیا ہو۔خوا ہ مخو اہ ہنسی اور سرشاری سی تھی۔یہ وہ مہبتیں تھیں جو جڑوں میں اتری تھیں۔خالایئں ،ماموں اور انکے پھیلے ہوئے خاندان کے افراد سے ملنے کا مزہ ہی اور تھا۔کچھ ہی دن کے قیام میں منجھلی خالا انجم نے اتنی سرعت سے گھومنے پھرنے کے انتظامات کر دیئے تھے کہ آٹھ سال میں آئی دلی شہر کی تبدیلیاں ہم سے منحفی نہ رہیں۔ اسی دوران انکی کالج کی دوست بھی لندن شہر سے اپنے آبائی وطن نیپال جانے کے لیئے آگیئں تھیں ۔نام انکا رجن ہے ۔ڈاکٹر خاندان ہے سو خاصا نخرہ دکھاتی ہیں ۔میزبان کو سہنا آسان نہیں ہوتا لیکن بہر حال تاریخی دوستی کی لاج نبھانی پڑتی ہے۔اسی دوران ہم نے ان تین دنوں کے لئے خالا جی کو پورا پورا رجن کے حوالے کر کے سعدیہ خالا اور اکلوتے ماموں کا رخ کیا۔ہمارے اس وزٹ کا سارا سہرا سعدیہ خالہ کے شوہر رضوان کو جاتا ہے ،جنہوں نے خصوصی طور اور بے لوث محنت کر کے ہمارے لئے VISA کے لئے مطالبہ کاغذات مہیا کئے۔

کہتے ہیں کہ مسلمان جیسا گوشت کوئی نہیں پکا سکتا اور ہندو جیسی سبزی ۔سو ہم سب پاکستانی اس بات پرمتفق تھے کہ دہلی شہر میں اس بار محض ویج کھانوں کی انواع اقسام پر گزارا کرنا ہے۔لہذاہر ملنے والی دعوت کو ہم یہ کہ کر قبول کرتے کہ کھانا ویج ہو تو ہمیں زیادہ لطف آئے گا اور واقعی ہر بار بہت ہی لطف آیا۔حقیقتاََمزہ کھانے کا نہ تھا محض ،بلکہ کمپنی کا بھی تھا۔ایک بات ہمیں اس وزٹ میں نمایاں طو رپر لگی،وہ تھا مجموعی طور پر لوگوں کا اختلاف رائے کومعتدل انداز میں برداشت کرنا،اگر ناپسندیدگی ظاہر بھی کر رہے تھے تو معقول حد میں رہ کر کسی انتہا درجہ پر کوئی رویہ ظاہر نہ ہو رہا تھا۔نہ آوازوں میں اور نہ حرکات وسکنات میں ۔مسلم دشمنی میں ہندو قوم کتنی بھی متحد اور منفی انداز کسی بھی وقت اپنانے کی صلاحیت رکھتی ہو لیکن اپنے مرتب کردہ نظام تعلیم سے انہوں نے اپنے ہاں ایک بہتر قوم تیار کر لی ہے "تخلیق اور تحقیق "ہر معاملے میں اپنی رعنائیاں بکھرتی نظر آرہی تھی۔ایک ہیئر برش سے لے کر پرانے قلعہ میں لیزر شو کی مدد سے دہلی شہر کی تاریخ دیکھنے تک ہر جگہ کام اتنے منظم طریقہ سے تھا جمال اور کمال دونوں ہی نظر آتا تھا۔ مجھے دلی سے محبت ہے! یہ جملہ میری والدہ کہتی ہیں تو وجہ ٹھوس ہے انکی پیدایش ،پرورش اورپھر تعلیم سب اس شہر اور علیگڑہ کی ہیں۔انکے تمام تر شادی سے قبل کی وابستگیاں اس سے منسلک تھیں۔میرے نانا نے ا پنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم کالج سے دلوائی تھی۔کیونکہ دہلی شہر میں تمام تر مخلوط تعلیمی ادارے تھے تو یہ وجہ رکاوٹ نہ بنی بلکہ شہر بدل دیا۔ہمیں بھی دہلی سے محبت اپنی ماں سے ورثہ میں ملی ہے۔ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک کا دارلخلافہ وہی دہلی ہے جہاں مسلمانوں نے تقریباََہزار برس بڑی آن بان کے ساتھ حکومت کی ۔اس شاندار دور حکومت کے آثار ہندوستان کے چپہ چپہ پر موجود ہیں بلخصوص دہلی سے تو یہ نشانات مٹائے بھی نہیں مٹ سکتے ۔قدیم اور جدید عمارتوں کا حسین امتزاج ،ہر دور کے فنون کا گڑھ دنیا کی تمام اقوام کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔سیاحوں کے جھنڈ دہلی شہرمیں ہر جگہ ایسے نظر آتے نہیں جیسے تاج محل اسی شہر میں ہو۔حالانکہ یہاں تاج محل تو نہیں البتہ وہ جگہ ضرور ہے جہاں روایات کے مطابق آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو قید رکھ کر انکے شہزادوں کے قلم کیئے سر خوان میں انکے سامنے لائے گئے تھے۔ جہاں انکے تاج اچھالا گیا تھا ۔اسلامی فن تعمیر کی عمارتیں جو دہلی شہر میں جا بہ جا موجود ہیں ،گمشدہ عروج کے انمٹ نقوش ہیں ۔یہ مجھے اکثر ہی بر صغیر کے ماضی کے سفرپر لے جا رہی تھی۔وہ دور جہاں مسلمانوں کے اس طاقت ،اختیار،زروجواہر کا ابنوہ تھا مگر علم و حکمت کی درس گاہیں قائم کرنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔چہرہ روشن د ل ماشاد کے افسانے تھے،سبک رفتار ہوا،مخملی گھاس،رواں پانی،رقص کرتے فوارے،پھل پھول کے نظارے،کثرت سے تعمیرہوتی عمدہ عمارتوں کا لازمی جز بن چکے تھے۔مگر ان شاہوں میں سے کسی نے اگر دینی مزاج بھی پایا تو وہ انکی ذات تک محدود تھا۔ہزار سال کے دور حکومت نے کسی بھی ایسی درسگاہ کے آثار نہیں چھوڑے جہاں نت نئے علم و فنون ،الہا می ہدایات ،خیر اور بھلائی کے دھاروں سے گزار کر نسل کو منتقل کئے جاتے ہوں،تاکہ شر کی قوتیں دنیا پر غلبہ نہ پا سکیں اور دنیا میں آشتی نا پید نہ ہونے پائے۔ہاں نئے فنون سامنے آئے تو وہ’ شکم اور حسن ‘ سے جڑے تھے۔یہ وہ دور تھا جب مسلمان حکمراں طا ؤ س و رباب کی طرف رجحان رکھ کر ’’ علم وتحقیق ‘‘کے فن سے اتنے بے نیاز تھے کہ اپنی زمینی جنت کی نگہبانی بھی اپنے فرسودہ اور متردکہ طریقوں سے کر سکے جو اس زمانے کے لحاظ سے بھی موثر نہ رہیں تھیں۔بہترین کھانے ،عمدہ ترین نقش و نگار بنانے والے فنکار،شعر وشاعری کی کمال صلاحیت ،گل و گزار سے لدے باغات،زر وجواہرات اور ملبوسات کی میناکاریاں،کوئی طلسم سا طلسم تھا جو ہندوستان بلخصوص دلی پر رقص کناں نہ تھا۔اتنے پر کیف نظارے تھے اور خوشحالی کے وہ لبریز خزانے تھے کہ سات سمندر پا ر کی اقوام جو تحقیق و فنون کے کمالات دکھارہی تھیں،اس خطہ زمین پرنظریں لگا بیٹھیں اور چند سالوں کی مختصر سی جدوجہد نے ان کو اس قابل کر دیا کہ وہ ان جھلملاتے رنگوں والی
سر زمین پر قابض ہو گیئں۔یہ قبضہ اس لئے ہوا کیونکہ دلی کے حکمرانوں نے علم و تحقیق کے سوتوں کی سرپرستی نہ کی۔اس خطے میں کوئی جابر بن حیان نہ نکلا اور نہ کوئی البیرونی۔کوئی موسیٰ الخوارزمی نہ تھا۔حساب اور الجبرا کے پیچیدہ گھتیاں مسلم نسل کو نئے سرے سے سکھاتا ،کوئی بو علی سینا نہ تھا جو طب کے کمالات دکھاتا اور پڑھاتا اور دنیا کی نامور کتابـ ’’القانون فی الطب ‘‘لکھ کر دنیا پر خیر کی قوت کی دھاک بٹھاتا ۔جب میدان محض سحر انگریزیوں اور رعنا یؤں کے لئے کھچا کھچ بھرا تھا تو بر صغیر میں کوئی جامعہ ،کوئی مدرسہ،کوئی تجربہ گاہ ایسی نہ تھی جہاں کوئی جابر بن حیان hydrochloricacid,Nitric,Sulpher تیار کرکے کیمیا میں کچھ جوہر دکھاتا۔ہاں آرائش اور زیبائش عروج پر تھیں۔ذائقے نت نئے وجود میں آرہے تھے اور ھر ان سب پر کلی ارتکاز کا نتیجہ وہی نکلا جو روز اول سے قانون فطرت میں ہے۔یہ نتیجہ کوئی اسرار نہ تھا جو ششد ر کر دیتا۔ہزار سال کی حکومت کے بعد تخت و تاج مسلمانوں کے ہاتھ سے ایسا نکلا گویا اور انکے گھوڑوں کی ٹا پوں نے ہندوستان کی زمین کو کبھی چھوا بھی نہ ہو۔ان کے فیوض اور برکات سے اس خطہ کو کبھی آشنائی ہوئی نہ ہو۔انکے طرز حکمرانی نے اس خطہ کے لوگوں کی تقدیریں بدلی نہ ہوں۔انکے گھٹن زدہ عورتوں کے بخت جگائے ہی نہ ہوں۔دیبل میں بن قاسم اور داہرکا معرکہ ہوا ہی نہ ہو۔محمود غزنوی نے سومنات توڑا ہی نہ ہو،شہاب الدین غوری کی تلوار کی چمک نے ہیبت نہ طاری کی ہو۔زوال کے نقارے پر ایسی چوٹ پڑی کہ آخری مغل تاجدار کو برما رنگون میں قید کر کے خون کی ندیاں بھی بہائی گیئں ۔وہ جگہ جہاں فوارے جھومتے تھے،اٹھکیلیاں اورنقرئی قہقے تھے وہاں بد بختی اور دکھ کے سائے چھا گئے ۔یہ سب قسمت میں اسلئے لکھا تھا کیونکہ محض بزم دل سجانے اور فرش جاں ابھارنے سے زندگی کی بساط پر جیت نہیں ملتی ۔مات سے بچنے کیلئے آور ش اور آگہی ۔تحقیق اور تخلیق ،عرفان اور وجدان سارے ہتھیاروں سے قومو ں کو لیس ہونا پڑتا ہے۔

دہلی گھومتے ماضی کے یہ باب گاہے بہ گاہے میرے چشم تصور میں ابھرتے رہے۔اس سال سردی کا قیام معمول سے زیادہ طویل ہو گیا تھا۔یہ لہر ہمارے لئے بہت ہی بھلی رہی۔ہم کراچی والے پنجاب کے خطہ کی گرمی اور سردی دونوں ہی برداشت نہیں کر پاتے جبکہ موسم اپنے جوبن پر ہو۔یہ سردی کی موجودہ لہر خوشگوار سی ٹھنڈک والی تھی،ہڈیوں کا گودا نہیں جم رہا تھا۔جبکہ معمول کے مطابق یہ چلچلاتی اور چبھتی سی سورج کے موسم کے ہلکے پھلکے آغاز کا دور تھا۔لگتا تھا رب نے ہمارے وزٹ کو خو شگوار بنانے کے لیئے اتنا دلکش موسم کر دیا ہے جہاں کبھی نیلے شفاف آسمان پر بادلوں کے ڈھیروں ٹکرے برف کی ڈلیوں کی مانند تیرتے نظر آتے تھے اور پھر سرمئی سا شیڈ چھا جاتا اور پھوار کچنار کے درخت پر جب برستی تو پھولوں سے لدی اسکی شاخیں جیسے ہمارے دل کو خوشی سے بھر دیدتیں۔یہ درخت میری چھوٹی خالا سعدیہ کے سول لاینز والے فلیٹ کے نچلے احاطے میں کھڑا تھا۔ٹیرس میں جانے کی بھی ضرورت نہ تھی ،کمرے کے اونچے شیشے کے دروازے سے پردہ ہٹاتے ہی کچنار کی خوشبو نھتنوں سے ٹکراتی اور ٹپاٹپ اسکے پھول ہوا کی مستی میں ساتھ دیتے نیچے گرتے دکھائی دیتے ۔سرمئی بادلوں کے ساتھ اردگرد لال اینٹوں سے بنی عمارتیں اور وافر درخت ایک مکمل تصویر لگتے جو مصور نے تازہ تازہ تیار کی ہو۔ہر چیز میں ترتیب اور حسن۔ دور دور تک کوئی بل بورڈ دہلی شہر میں نظر نہیں آتا۔اور اگر ہے بھی تو پرانے علاقوں میں، اسکی تعداد کراچی کے مہنگے اور مہنگے ترین علاقوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی۔ایک آدھ فاصلے پرنظرآجاتا ہے۔ہم تو جیسے بل بورڈ اورہو رڈنگز کے آ سمان تلے ہی سانس لیتے ہیں۔کراچی پاکستان کا دارالخلافہ موجودہ بیشک نہیں لیکن کیا ایک اہم ترین شہر بھی نہیں جسکے دکھ سکھ سے وفاق کو کوئی واسطہ نہ ہو۔ایسا ہے یا نہیں بھر حال ہم کراچی والے صفائی ستھرائی کے غیر معیاری سطح پر سانس لیتے ہیں۔

مارچ کی ایسی ہی خنک سی شام لودھی گارڈن کی پکنک طے کی گئی عام دن تھا لہذا صرف خواتین اور بچے ہی مستفید ہو سکتے تھے۔موسم بہار جوبن پر آرہا تھا۔میں نے باغ میں داخل ہوتے ہی کچھ ٹھنڈک کا زیادہ احساس پایا تو کارڈیگن کی زپ اونچی کر لی۔ خالا آ پی !! میری بھانجیوں نے میری طرف دیکھا اور قل قل کر کے ہنسنے لگیں۔انہیں میرے کارڈیگن اور لیدر شوز پر خاصا اعتراض تھا۔میں نے بھی کچھ مزے کا جواب دینا چاہا لیکن میری کزن نے بازو سے مجھے پکڑ کر روک لیا۔ ’’دیکھو رنگ برنگی تتلیاں!‘‘ اف کیا شہکار منظر تھا وہ دودھیا،ہری،نیلگوں،پیازی،کتنے ہی رنگ کی تتلیاں اس خوبصورت کنج میں تھیں۔پھولوں کاحسن آنکھوں میں تازگی بھررہا تھااور ان پر منڈلاتی وہ من موہنی تتلیاں اپنے خالق کی صناعی ر دنگ دنگ ہوتیں انکے پنکھڑیوں کے بوسے لے رہی تھیں۔ ’’سبحان اﷲ !!‘‘ کے سوا کچھ نہ تھا جو اس پر بہار منظر کے شایان شان تعریف ہوتی۔بوٹے بوٹے پر رعنائی تھی۔اٹھتے قدم پر کچھ فاصلے پر ٹھٹک جاتے۔سبزے کی باس،گرم گرم کافی کی یاد دلا رہی تھی۔یہ بے انتہا وسیع و عریض باغ ہے،جو نوے ایکڑ سے زیادہ قبہ پر پھیلائے عوام کو صحت اور تفریح سہولیات کے ساتھ مہیا کرنے کے لئے دہلی شہر میں خاسے اچھے انتظامات نہیں۔اوپن ائیر جم اکثر باغات میں مل جاتے ہیں۔واش روم صفائی کی عمدہ حالت میں نظر آتے ہیں۔باوجود اسکے دہلی شہر میں انسانوں کا ابنوہ کثیر ہے جو ٹڈی دل کے لشکر نماسا لگتا ہے بالخصوص میٹرو ٹرین کے اسٹیشن پر جب انسانی ریلا سیڑھیوں سے اتر رہا ہوتا ہے تو انکی منظم حرکات پر رشک آتا ہے۔نہ کوئی چھالیہ کا کاغذ اڑا رہا ہوتا ہے اور نہ پان کی پچکاری کی گلکاری بناتا ہے۔دیکھنے میں سب مہذب قوم کے مہذب افراد ہی لگتے ہیں جنکی وفاداریاں اپنے ملک وقوم کے ہر آثاثہ کے ساتھ بستی ہوں۔

پھولوں کے ایک ایسے ہی کنج میں مقامی ڈرامہ سوسائٹی اپنا کوئی ڈرامہ سین مختلف لوگوں سے ادا کروارہی تھی۔نہ کوئی سیٹی تھی اور نہ کوئی شور اتنی شائستگی سے یہ سب کچھ ہورہاتھا کہ جیسے یہ سب سرگرمی نہ ہو بلکہ درخت،پھول اور پھلواری ہوں جو ہوا کے ساتھ ہلکورے لے رہے ہوں سیاحوں کے ایک گرو پ نے ہمارے عبایہ ،اسکارف والے حلیہ باغ میں بہت ہی خاص جانے تو ایک خاتون نے درخواست کی
’’ کیا ہم آپکا ایک گروپ فوٹو لے سکتے ہیں ‘‘دیکھینے میں چینی یا کورین خدو خال کی وہ دوشیزہ انگریزی میں ہم سے پوچھ رہی تھی اور جواب دینے سے پہلے ہم عبایہ یا یوں کہ لیں ننجا ممبرز کو ہنسی آگئی۔’’ یس شیور‘‘ ۔اور ہمارے جواب ملتے ہی کھٹا کھٹ کیمرے کی آنکھ نے ہمیں قید کر لیا۔چلو بھئی ہمارا سفر دہلی تک نہیں بلکہ ان چینی ،جاپانی یا کوریا ئی سرزمین تک ہو گیا۔خوب محضوظ ہوتے میری نگاہ لودھی کے مقبرے کی عمارت پر جم گئی تھی۔دھیرے دھیرے قدم اٹھائے میں جیسے جیسے اسکی جانب بڑھ رہی تھی،ایک سحر تھا جو طاری ہورہاتھا۔میزبانوں نے ایک گوشہ منتخب کر کے چادربچھالی تھی۔اور اب پنیر سینڈوچ کے ساتھ بھان اڑاتی کافی سرو کی جا رہی تھی۔میرے اٹھتے قدم دیکھ کر امی نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔میں نے گردن کے اشارے سے لودھی کے گوشہ آرام کی جانب اشارہ کیا اور آگے بڑھ گئی۔ ’’چلو وہ گئیں آتما سے ملنے‘‘ مجھے عقب سے کسی میزبان ممبر کی چلبلی سی آواز آئی اور مسکراہٹ نے مجھے آ سودہ سا کردیا۔’[ یا رب یہ رشتے آ پنے کتنے خوبصورت بنائے ہیں‘‘ مینا کاری سے مزین اینٹوں سے مسلم انداز کی بنی عمارت سکندر لودھی کی آخری آرام گاہ ہے ۔عمارت قدیم تعمیراتی فن کا شہکار ہے۔اس باغ میں محمد شاہ کا مزار ،شیش گنبد اور بڑے گنبد کے نام سے بنی عمارتیں بھی مختلف مقامات پر موجود ہیں۔یہ تمام مسلم اندازتعمیر کے دلفریب نمونے ہیں۔قدیم عمارت کی پہلی اینٹ پر قدم رکھتے ہی گویا انسان اسکے عہد میں سانس لینے لگتا ہے۔بالخصوص وہ عمارتیں جن سے قوموں کے عروج و زوال کے رشتے کے سلسلے گندھے ہوں۔میں ماضی اور حال کے درمیانی راہ پر تھی کہ عقب میں آہٹ ہوئی اور گرم کافی کا کپ کزن نسترن نے ہاتھ میں تھما دیا۔ہاتھوں کو گرم مگ کے گرد لپیٹتے میں نے اسکے گولڈن براؤن بالوں میں سفید گلاب کی کلی اٹکی دیکھی تو مسکراہٹ آگئی۔ ’’ نسترن کو نسترن کی کیا حاجت جانی،تم تو اسم باسمیٰ ہو نسترن سفید گلاب! ‘‘میرے تبصرے پر وہ بلش ہو گئی۔سفید گلاب اب گلابی ہو چکا تھا۔ ’’یہ ڈائیلاگ میرے میاں کو بھی سنایئے گا وہ شوخی سے بول کر ہنس دی‘‘۔میں مقبرے کی سیڑھیوں پر کھڑی تھی۔شام تاقد نگاہ پھیلے سرسبز میدان میں اتر رہی تھی۔نسترن اپنے چھوٹے سے بیٹے کی فکر میں پلٹ کر جا چکی تھی۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ لودھی کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے باغ میں ہلچل سی ہو گئی ہو۔تصوراتی دنیا پوری طرح متحرک ہوگئی تھی۔وہ دلی جو آج ہم سے جدا ہے کل ہمارے زیر نگیں تھا۔لودھی اور افغان یہاں فتح کے جھنڈے گاڑتے اسکو سجانے سنوارنے میں مصروف تھے۔پھر مغلیہ دور حکومت کے نشانات ابھرے یہ سب ایک آدھ صدی کی بات تو نہیں تقریباََ ہزار سال پر پھیلا عروج ھے۔کیسا عروج پایا اور پھر کیسا زوال نصیب بنا۔رب سے گریہ وزاری کر کے اسکا کرم مانگا،خطہ زمین مانگا جہاں مفتوح قوم کے بجائے فاتح کی شان سے کلمۃ لعیلیٰ کا سا یہ نصیب ہو۔رب نے سنا بھی اور بخشا بھی ،مقبرے کی سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں ا ور سوچیں بھی محو سفر تھیں۔پلیٹ فارم گو بہت زیادہ بلند نہ تھا لیکن سوچوں نے قدمو ں کو جما سا دیا تھا۔کیا کیا گزر گیا اس مدت میں ۔2015 میں سانس لیتے ہوئے میں 1517 میں پہنچ گئی تھی جب سکندر لودھی دنیا سے رخصت ہوا ور آج میں اسکے مقبرے میں کھڑی تاریخ کے ان دو سروں کے درمیا نی معا ملات کو چشم تصور سے دیکھ رہی تھی۔میں نے ہاتھ میں تھامے کافی مگ سے گھونٹ بھرا۔خنکی نے اسکو ٹھنڈا کر دیا تھا۔کب تک گرم رہتا،حرارت ہمارے جذبات اور احساسات کی بھی ایسی ہی ٹھنڈی ہو چکی ہے ۔من حیث القوم ۔مگ میں نے سیڑھیوں کے ساتھ بنی منڈیر پر ٹکا دیا ۔مقبرے کے اندرونی حصہ میں اکا دکا لوگ آ جا رہے تھے۔تاریخ انکے لئے ایسی دلخراش نہ تھی کیونکہ راج پاٹھ انکا تھا سو زخم بھر چکا تھا۔وہ اب تصویر میں گم تھے۔

’’تمہیں سنا نہ سکے جو کچھ ،کیا دہرائے میرے سکوت نے وہ فسانے ؟؟‘‘ مقبرے کے درو دیوار سے سرگوشی ابھری ۔میں نے چونک کر سر اونچا کیا ۔’’ لودھی کیا اب بھی گھوڑے کی یپٹھ پر ہے ؟‘‘ لودھی گھوڑے کی یپٹھ پر ہوتا تو کیا اسکی مسلمان قوم کو برصغیر کے بٹوارے کے وقت آگ اور خون کے دریا سے گزرنا پڑتا،کیا اسکی ماوں ،بہنوں،بیٹیوں کے سہاگ اور شباب تہ تیغ کوئی کر سکتا؟میرے دل میں ابھرے سوال کا فضاؤں سے جواب آیا۔ ’’مملکت خداد پانے کے لئے حوصلوں کی کرامت کی ضرورت تھی۔ان گنت نے اپنی جانیں ،حرمتیں ،مال دان کر د یے کہ آنے والی نسلیں کلمہ خبیثہ سے محفوظ رہ سکیں مگر احسان فراموش انسانوں نے سب کچھ بھلا دیا‘‘۔ہواؤں کا جھکڑ سا مجھے محصو ص ہوا۔’’یہاں ایک سیلفی !‘‘ انکو ہوائیں کیوں نہیں ہلا رہیں؟میں نے حیران ہوتے اس نوعمر غیر مسلم جوڑے کو دیکھا جو مقبرے کی کسی دیوار کے ساتھ کھڑا سیل فون سے تصویر لینے میں گم تھا۔’’انھوں نے رب سے عہدباندھ کر نہیں توڑا۔نہ بندگی کا دعوی ٰکیا تو کیسی پرستش؟انکے لئے جو دن مقرر ہے اسی دن کا حساب ،پر تمھارے قدم کیوں بہک گئے ،جھکڑ تمھارے لئے نہیں ‘‘۔جواب ہواؤں نے پھر ناراضگی سے دیا۔سامنے نظر آتا کافی کا مگ بھی لڑھک گیا تھا ۔سیال بہہ کر مٹی میں جذب ہو گیا۔میں نے انگلی سے اسے چھوا ۔یخ مٹی تھی۔’’یہ ایسی ہی ہے جیسے احسان فراموش کی مٹی ‘‘اب کے بات بہت کڑوی تھی۔مقبرے کی دیواریں اب غم آلودہ سی ہو گیئں تھیں۔جب تک قوم کی کمان آبرومندوں کے حوالے رہتی ہے اس وقت تک اسکا بھرم زندہ رہتا ہے۔اب کہ وہ نوعمرجوڑا ایک دوسرے کے ساتھ فلمی قسم کے سین بطور سیلفی لے رہے تھے۔میرا دل چیخا ’احترام کریں یہ انسانی وجود کے مٹی میں ملنے کا مقام ہے،یہاں ذات ختم ہو کر بے نشان ہوتی ہے اور اعمال بقا پاتے ہیں۔تم اس جگہ ذات کی خود نمائی میں مگن ہو نادانوں!!‘ ’’یہاں محدود ختم ہو کر لامحدودیت بن جاتا ہے‘‘۔دل نے پھر فلسفہ سنایا۔مگر اب خاموش تھے۔کیسے کہتے جرم ضعیغی اور مرگ مفاجات ظاہر تھا۔حکومت ہند نے ہر اسلامی تاریخی عمارت پر بزور طاقت اپنے احکامات نافذ کر رکھے ہیں۔مسجدوں میں نمازیں ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں۔آسمان سے کچھ قطرے ٹپکے ۔میں نے بے اختیارنظریں لامحدود وسعتوں پر اونچی کیں۔ـ’’دیکھ تو سہی کرشن جی کی تصوریں بادلوں میں!‘‘وہ الہڑ حسینہ سیلفی بھول بھال شروع ہوتی بوندا باندی سے پرجوش ہوتی افق کی جانب سے اشارہ کرتی اپنے ساتھی کو متوجہ کر رہی تھی،ٹھیک ہی کہا ہے شاعر سلیم احمد نے لوگ وسعتوں میں شعور کھو دیتے ہیں۔میں نے گلابی ہرے رنگ کے مختلف شیڈز کے بادلوں سے بنے تجریدی شاہکار کوآسمان کے کینوس پر سجے دیکھا اور ہاتھوں کے پیالے میں بوندوں کوروکنا چاہا۔’’سورج جلدی ڈھل گیا آج آریہ!‘‘بے فکر ہنسی ہنستی ہوئی وہ لڑکی ساتھی کا بازو تھامتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف آگئی ۔ہم افسردگی کے درمیان ہی تھے اسکی آنکھوں میں دیپ جل رہے تھے۔مقبرے کے اندرونی حصے کی جانب میرے قدم بڑھ بھی نہ پائے،مجھے وہاں سائے لہراتے محسوس ہو رہے تھے۔ماضی سے آکرحال کو جھنجھوڑنے کے لئے بے تاب ،دھوپ اور چاندنی کے راز دہرانے کے آرزومند لیکن میں ان کے اشارے پا کر بھی ان تک نہیں گئی۔ویرانی سی دل میں اترآئی تھی اور فاصلے سے آتی مدھم آوازیں مجھے متوجہ کر رہی تھیں۔’’اگرآتماؤں سے ملاقات کاوقت پورا ہو گیا ہے تو واپس آجائیے‘‘۔میرے کندھے پر عقب سے کسی نے ہاتھ رکھا توسرد لہرسی دوڑ گئی۔طہورہ میری کزن یہاں آگئی تھی۔کب سے سیل فون پر کال کر رہے تھے تمھیں ،اٹھا کیوں نہیں رہی ہو؟اسنے ہاتھ میں پکڑا فون لہرایا تو میں نے شرمندگی سے کندھے پر ڈالے بیگ کو دیکھاجسکی جیب میں میرا فون اگر چیخا بھی تو مجھے لودھی اور 2015 کے زمانے میں سفر کرتے آواز نہ آئی۔’’مغرب بلکل قریب ہے،چلو یہاں سیــ‘‘ اسکے یہ کہتے ہی اسکے سیل فون سے آذان کی آواز بلند ہو گیٔ۔چھوٹے دن تھے سوا چھ بجے مغرب ہو گئی تھی۔تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے طہورہ نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور دوبارہ اشارہ کیا نیچے آنے کا۔میں نے الوداعی نظر یں بلند گنبد پر ڈالیں ۔ہتھیلی مقبرے کی عمارت کی دیوار پر رکھ کر اسکے حسن،غرور،وقار اور شجاعت سے بنی دکھ کی خاموش زبان کو تھپکی دی اور قدم سرعت سے بڑھا دیئے۔’’اس وقت مقبروں میں رہنا مناسب نہیں ہوتا ،ان روحوں سے چٹ چیٹ دن کی روشنی میں کی جاتی ہے!‘‘مجھے اسکے جملے پر بے سا ختہ ہنسی آگئی۔آذان نئی دہلی کی فضاؤں میں کہیں نہیں بلند ہوتی۔سرکاری طور پر اجازت نہیں ہے۔ماسوائے اکا دکاعلاقوں کے۔سو دن ختم ہو رہا تھا،مگر کوئی کائناتی پکار نہ تھی جو انسانوں کو یاد دلاتی کہ’’ اٹھ فلاح کی طرف‘‘جو جہاں مصروف تھا وہ وہاں مصروف رہا۔اور مغرب کے تین فرض با غ میں ادا کرنے تک اندھیرا چھا نا شروع ہوچکا تھا۔بچوں کی ماؤ ں کو درخت،مقبرے اور اندھیر ے سے خاصے خدشات تھے لہذا ہم نے تیزی سے باغ کی خارجی راستے کا رخ کرلیا انھی ننھے منے بچوں نے ہمارے پکنک کے وقت کو بھی خاصا لیٹ کر دیا تھا محض ڈیڑھ گھنٹہ ہی مغرب سے قبل ملاجبکہ پروگرام باغ سے کچھ بھی فاصلے پر واقعے Indian Islamic Cultural Centre گھومنے کابھی تھا جو بظاہرکھٹائی میں پڑتا نظر آیالیکن بھلا ہو خالہ جانی کا۔ہم کچھ منٹ بعد اس دلکش عمارت میں داخل ہو رہے تھے جبکہ ساتھ لفظ’’ اسلام‘‘ جڑا تھااور اس جوڑنے اجنبیت جیسے سرے سے ختم کر دی تھی۔سب ہی کچھ اپنا اپنا لگ رہا تھا لیکن انتظامیہ کے چہرے ایکدم شناسائی کو دھندلانے لگے۔ان دیکھی نامانوس لہریں نمودار ہونے لگیں میری کیفیت سن کر میری بہن رعنا نے بھی تائید کی کہ اسے بھی الارم سے بجتے لگ رہے ہیں۔’’ہاں تو یہاں سب کلی اختیار مسلمانوں کا نہیں ہے بہت عملہ غیر مسلم ہے‘‘ ہمارے میزبان ہماری الجھن کو سلجھا چکے تھے۔طاقت اوراختیار کی یہاں بھی وہ نمائشی حیثیت تھی جو ہندؤں کی تنگ نظر فکر کا بنیادی حصہ ہے ۔حالانکہ دلی کو جب بھی حسن ملااس میں مسلمان حکمرانوں کا اس شہر سے خصوصی تعلق تھا۔پورے ہندوستان کی سرزمین مسلمانوں کی اس التفات پر گواہ ہے ، ہر جگہ عمارتیں موجود ہیں جن کا طرز تعمیر لاکھ کوشش کے باوجود ہندؤانہ نھیں لگتا ورنہ سب سے پہلے تاج محل ہی مندر قرار پا چکا ہوتا ، دعوے بیشمارتاج محل کے بارے میں کئے جاتے ہیں جس کا ہدف اسکو ہندو مقام ثابت کرنا ہے لیکن ابتک بابری مسجد کی طرح تاج پر ترشول کا قبضہ نہیں ہو سکا۔الحمداﷲ کلچر سینٹر کی عمارت دیدہ زیب ہے۔نماز روم ہم نے خاص طور پر جا کر دیکھاخالی تھا لیکن کچھ منٹ خدا کی یاد میں گزار کر دل نے دعا کی یا رب ان لمحات کو ہمارے حق میں قبول فرما۔ذائقے دار حلال گوشت سے بنے کھانے کے لئے مشہور مسلم ریسٹورنٹ ’’کریم‘‘ بھی اس کے احاطے میں ہے۔کریم کا کھانا کتنے بھی مزے کا تھا لیکن پھر بھی کراچی کے کھانوں کے آگے اس کی تعریف نہیں کی جاسکتی یہ بات گوشت سے بنے کھانوں کے لئے ہے ورنہ سبز ی بھاجی والے کھانے بلا شبہ دہلی میں زیادہ ذائقہ دار ہوتے نہیں نہ صرف مزیدار بلکہ تنوع بھی مہیا ہے۔ہر کچھ عرصے بعدایک نئی چٹ پٹی سی ڈش عوام کے لئے مارکیٹ میں آجاتی ہے اور لوگ گوشت کاذائقہ فطری طور پر پسند کرنے کے باوجود اس کی جانب ڈھیر نھیں ہوتے صحت بھی اچھی رہتی ہے اور کھال بھی۔میں نے ہندوستانیوں کو اس بار صحت اور حسن کے اعتبار سے بہت عمدہ حالت میں پایا۔دہلی میں نہ اب کالے رنگ کی کثرت تھی اور نہ فربہ جسم کی۔متناسب جسم اور صحتمند گندمی رنگت عمومی نظارہ تھی۔جب سے دہلی شہر میں چودہ پندرہ برس قبل میٹرو کا ٹرین آغاز ہوا جس نے فاصلہ اور سفر کی پریشانیوں کو اسقدر کم کر دیا کہ ہندوستان بھر سے لوگ کھچ کر دہلی شہر میں آنے لگے ہیں۔ نت نئے مواقع ،روزگار ،تعلیم اور صحت میٹرو کی بہترین اور سستی مگر عمدہ ترین ٹرین سروس نے مہیا کر دیئے۔ان پندرہ سالوں میں ٹرین نیٹ ورک میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اب زیر زمین نظام اس قدر فعال ہو چکا ہے کہ دہلی بنا میٹروٹرین ادھورا ہے۔انڈین کرنسی کے محض دس روپے ہمارے تقریبا سترہ روپے میں کراچی شہرکے ایک سرے سے دوسرے تک میٹرو کی بہترین اور صاف ستھرے چمکتے دمکتے اسسٹیشن سے بہترین حالت کی ٹرین میں سفر کر کے جایا جا سکتا ہے۔ہاں اس میں دہلی کے باسیوں کو اسٹیشن کی ڈھیروں سیڑھیوں کو کثرت سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔۔برقی بھی ساتھ ساتھ مہیا عموما ہوتی ہیں اور کہیں کہیں لفٹ بھی مریضوں کے لئے۔لیکن عمومی طور پر میٹروٹرین کاسفرصحتمند لوگوں کا کام ہے ۔وسیع و عریض اسٹیشن پر خاصا چلنا پڑتا ہے،کراچی کے لوگوں کی جیسی عمومی صحت میٹرو کے لئے نتیجہ خیز نہیں ہوتی ۔دہلی کے باسیوں کی صحت کا معیار بہت بہتر ہے۔اس میں بنیادی کردار مستحکم سیا سی حکومت اور فعال سرکاری اداروں کا ہے۔ان اداروں کا مقابلہ اپنے ہاں کے نظام سے کرو تو دل اور روح دونوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

مستحکم نظام تعلیم جو پاکستان اور مسلم مخالف کتنا بھی ہو وہ اپنی قوم کے لیئے واضح سوچ اور نظریہ رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے۔ان کی قوم کے لئے پاکستان سوچ کی نچلی ترین سطح پر بھی قابل تقلید نہیں۔جوانوں کو اپنے ہندوستانی ہونے پرفخر اور پاکستان محض ایک پسماندہ خطہ سمجھاجاتا ہے۔جس کی کوئی بھی خوبی ان کو خوبی نہیں لگتی سوائے شوبز کے سطح انسانوں اور کرداروں کے ۔یہ قوم پاکستان اور مسلمانوں کے لئے انتہائی مذہبی اور تنگ ذہنیت کی قوم ہے۔اس میں قصور ان کا خدا کے بارے میں عقید ہ کا ہے اور انسانوں کے اعمال اور افعال میں کلیدی کردار ان کا خدا کے بارے میں تصورات کا ہوتا ہے ۔وہ پتھر کو پوجتے ہیں جن کی ظاہری ہیتٔ تک اس قدر غیر فطری اور لطافت سے بعید ہے کہ کسی بھی اعلیٰ اور فراغ سوچ کا دخل اسکے پجاریوں پر ہونا ناممکن ہے۔وہ ان بے جان کے آگے ماتھے ٹیکتے ہیں،ایسے ہی بے جان انکے تصورات زندگی ہیں ۔یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارے روح سے خالی سجدے جسکے کوئی اثرات ہماری زندگیوں پر نظر نہ آٰٗئیں۔
 
Nusrat Yousuf
About the Author: Nusrat Yousuf Read More Articles by Nusrat Yousuf: 16 Articles with 14144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.