’’ سفیر سخن‘‘ حصہ دوئم

میٹرو اسٹیشن کی برقی سیڑھیاں متحرک تھیں۔میں اس پر کھڑی معصوم پھو ل سے چہرے کو تک رہی تھی جسکے اجلے ماتھے پر ماں نے لہو رنگ کی بندیالگا کر اسکی فطرت کو مسخ کرنے کی کوشش کی تھی۔رحمن نے اسے اپنا بند ہ بنایا تھا،وہ اسے شیطان کے ٹولے میں شامل کر رہی تھی۔بچی مستقل بے آرام تھی۔نہ جانے کیا مسلہ تھا۔میں نے بیگ سے چاکلیٹ نکال کر اسے دینا چاہی تواسنے نفی میں گردن ہلا دی اور اور اسی لمحہ ہم سیڑھیوں کا سفر طے کر چکے تھے۔ماں نے نہایت خوبصورت مسکراہٹ سے مجھے دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔بلو جینز پر دھاری والی ٹی شرٹ پہنے تھی لیکن اپنا مذبی تشخص اسکے ماتھے پر بھی چسپاں تھا۔اسٹیپس میں بالوں کی کٹنگ تھی جس پر اسنے اپنے دھوپ کا برانڈڈ چشم ٹکارکھا تھااسٹیشن سے باہرنکل کر اسکی ضرورت پڑنی تھی۔اس اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی پرانی دہلی کا علاقہ تھا۔آذان کی آوازدنوں بعد سنی تو جیسے جسم وروح کے ہر جوڑ وبند میں تازگی سی دوڑ گئی۔لات اور عزیٰ کے نسل کے تمام سنگی وجود مجھے چٹخنے سے محسوس ہونے لگے۔قریب ہی مندر تھا۔آذان کی پھیلتی گونج نے اس طرف اٹھتے قدموں کو کچھ تو ٹھٹکایا ہوگا،میں جانتی نہیں لیکن سوچ ضرور آئی۔نئی دہلی سے پرانی دہلی تک میٹرو میں سفر اس لئے کیا تھا تاکہ اپنی ایک پرانی دوست سے ملاقات کی جائے جو شادی ہو کر پندرہ برس قبل کراچی سے دہلی آگئی تھی۔گو یہاں بھی قریبی عزیز اب بھی قیام پذیر ہیں لیکن اس جگہ کی رش اور تنگ راستوں سے ویسے ہی گھبراہٹ ہوتی تھی جیسے کراچی شہر کے قدیم علاقوں میں جا کر دل گھبراتا ہے۔بے ہنگم ٹریفک جام،رش اور تنگ راستے یہ سب دہلی کے پرانے علاقوں میں تھا مگر ایک نمایاں فرق گالم گلوچ کی مقدار میں کراچی کی نسبت خاصی کمی تھی۔برداشت اور انتظارکا عنصر خاصی بہتر حالت میں نظر آیا۔سوکھے سوکھے جسم سائیکل رکشہ کھینچ رہے تھے،مسلمانوں کی کثیر تعداد اس سے روزی روٹی کا بندوبست کرتی ہے۔مجال ہے کو ئی سردار اس پیشے سے وابستہ ہو۔سکھوں کی معاشی حالت دہلی شہر میں خاصی اچھی ہے۔بھارتی سرکار مسلمانوں کو کچل کر دوسری اقوام کو آگے بڑھاتی ہے خواہ وہ تعلیم کا میدان ہو یا کھیل کا یہاں کوئی مسلمان اپنی واضع شناخت کے ساتھ ابھرتا نظر آیا وہیں اس کو کچل دیا جاتا ہے۔ابھارا جاتا ہے تو ثانیہ مرزا جیسی عورت کو جس کی عادات ،حرکات و سکنات اور پہناوے سے اس کا تشخص رتی برا بر ظاہر نہیں ہوتا اور وہ بقیہ مسلمان نوجوان لڑکیوں کے لیئے ایک بہار ساماں کی طرح رکھی گئی ہے۔اورکرکٹ کے عرفان پٹھان کو اس کی صلاحیتوں کے باوجود دبا دیا گیا کیونکہ اس کے اور اس کے خاندان کے ظاہر سے اس کی دینی شناخت ابھرتی ہے اور یہ معاملہ ہر سطح پر ہے۔اس کے باوجود بھارتی مسلمان پاکستان کو آئیڈیل نہیں بناتے انھوں نے برسوں برس پہلے پاکستان سے لگاؤ ترک کر دیا ہے کیونکہ بظاہر ہمارے ملک ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جس میں آنکھیں جل رہی ہیں اور منافقت اور اختلافات نے 1947 میں جنم لینے والی امیدوں اور تمناوں کو رقص و شر میں تبدیل کر دیا ۔ ہر معاملے میں تپش ہے۔ ابر کی صورت گری کرنے سے سرکار اور قوم دونوں ہی آری ہو چکے ہیں۔انفرادی سطح پر بھی ہم وسیع القلبی اور وسیع و نظری سے محروم جسم ہیں اور سرکار تو سب سے زیادہ گلا سڑا طبقہ ہے۔وطن کی محبت کے نام پر یہ اجسام تھک تو سکتے ہیں ۔موسیقی کے سروں پر متحرک بھی ہو سکتے ہیں،چاند تارے جسم پر چسپاں بھی کر سکتے ہیں لیکن احساس ذمہداری اور وفاداری جیسے بنیادی اوصاف کے لیے جن تقا ضوں کا ہونا ضروری ہے جن سے قومیں عروج کی جانب سفر کرتی ہیں،امن اور خوشحا لی سے بہرہ ور ہوتی ہیں وہ عناصر قوم میں ناپید ہے۔ہاں کچھ سرپھرے ہیں جو ان تند وتیز ہواوں میں دئیے جلاتے رہتے ہیں ۔کٹتے بھی ہیں مرتے بھی ہیں لیکن ان کو یہ لذت طوفان لگتا ہے۔اپنے وطن اور دین کے لیئے وہ چاہے نامور ہو یا گمنام، طوفانوں سے ٹکراتے ہی رہتے ہیں اور اصل میں یہی قلیل ان کثیر شور شرابا کرنے والوں کی بھی حفاضت اور آبرو کے محافظ ہوتے ہیں۔ان لفظوں کے ساحروں کی حرمت کی نگہبانی بھی کر جاتے ہیں جن کو دنیا سودائی کہہ جاتی ہے لیکن یہ وطن کے رکھوالے ،وطن کے ماتھے کے جھومر ہیں۔یہ استاد بھی ہیں،یہ لوہار بھی ہیں،یہ سپاہ بھی ہیں،یہ ریڑھی بان بھی ۔یہ لعل کسی بھی جگہ مل جاتے ہیں لیکن من حیث ا لقوم یہ عنقا ہیں۔ہندوستان کی سرکار ذات پات ،اونچ نیچ میں مذہبی تفریق رکھنے کے باوجود انسانوں کے ابنوہ کثیر کو قوم ،ایسی قوم جو ہندوستان کے لیئے عمدہ ہو اور دوسری اقوام ومذہب کے لئے تنگ نظر ہو تیار کر چکی ہے۔ان کا نظام تعلیم اسی مقصد کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ان کی تمام سرگرمیاں اس نظریہ’’ ہند اور ہندوں‘‘ تلے گھومتی ہیں اور ان کی زبانیں انگریزی بولنے کے باوجود مسنکرت کو اہم ترین مضمون مانتی ہیں جس میں ان کا تمام مذہبی مواد ہے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارا نوے فیصد مذہبی نصاب اردو زبان میں ہے جس کو اہمیت دیناپاکستانیوں کو تر جیحات میں رکھنا مذاق لگتا ہے۔ اردو نہ بھی آئے تو فلاں ہے۔ ہاں انگریزی نہیں آتی تو بندہ محض ملاح ہے ۔یہ سوچ کے زاوئیے بنانے میں ان پالیسیوں کو بڑا دخل ہے جنھوں نے آزادی کے اڑسٹھ سال بعد بھی اردو کو غلاموں کی زبان کا درجہ دیا ہے۔پانچ سالہ بچہ محض یہ جملہ ’’پودے کو ہوا،پانی اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ جیسے عام فہم اور روزمرہ کے مشاہدے سے بھرپور جملہ’ یاد ‘کرنے کے لئے اپنی قیمتی ترین ذہنی استعداد اور وقت لگاتا ہے کیونکہ نام نہادسائنس کا مضمون انگریزی میں پڑھایا جاتا ہے جبکہ وہ خواب اردو میں دیکھتا ہے۔شعور اور لاشعور کا یہ تکر ار قوم کو منجمند حالت سے حالت زوال کی جانب گامزن کر دیتا ہے۔تحقیق کا سفر رک جاتا ہے،تحقیق خوابدیدہ ہو جاتی ہے اور سطحی سوچ اور لاحاصل فلسفے خودو نباتات کی طرح قوم میں پھیل جاتے ہیں ۔اردو زبان کسی بھی قوم کی ذاتی زبان نہیں ۔ یہ ایسا گلدستہ ہے جو پاکستان کی تمام زبانوں کی خوشبو اپنے اندر سموئے ہے۔انگریزی کے بدرجیسا آسان اور عام فہم پورے پاکستان کے لئے۔ہندوستان بھر میں اسقدر مختلف اور اتنی کثرت سے بھاشایئں پائی جاتی ہیں کہ انکے پاس انگریزی کوذریعہ تعلیم بنانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔یہ مسٔلہ الحمداﷲ پاکستان کو درپیش نہیں لیکن پھر بھی سرکار عید غلامی کی زبان کو دل و جان سے لگائے بیٹھے اپنے قیمتی ترین دماغوں کو سوچ سے عاری قوم بنا چکی ہے۔انگریزی کو ذریعہ تعلیم دیکھنا میرے لیئے ہمیشہ ہی تکلیف دہ موضوع ہوتا ہے۔یہ محض ان لوگوں کی زبان ہے جو نوے فیصد پاکستان پر حکومت کرنے کے لیئے تیار کئے جاتے ہیں وہ چاہے گوروں میں سے ہوں یا گوروں کے وفاداروں میں سے،انکو مخصوص ذہنی اور جسمانی طرز پر تیار کیا جاتا ہے جس سے یہ نوے فیصد پاکستان پر اپنی گرفت مظبوط رکھتے ہیں۔

بات دہلی کے میٹرو اسٹیشن سے ہوتی شاہ اور شاہ کے وفاداروں تک پہنچ گئی۔کیونکہ دل ہر وقت اور آنکھ ہر لمحہ گزرتے منظر پر سود وزبان کے حساب و کتاب میں مصروف ہو گئی تھی۔یہ وہ سرزمین تھی جہاں اقبال نے دل کی گھرایؤں سے نغمہ تخلیق کیا ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا،ہم بلبلیں ہیں اس کے یہ گلستان ہمارا‘‘۔اقبال جیسے آفاقی شاعر کو ہندوستان کی سرزمین سے محبت تھی،اس سرزمین کے بطن سے پاکستان جنم ہوا۔جب دنیا کے نقشے پر مشیت ایزوی کے تحت یہ معجزہ رونما کر دیا گیا تو’ کلیم عثمانی‘ نے یہ لافانی نغمہ تخلیق کیا اور مہدی حسن کی آواز نے اسے امر کر دیا۔’’یہ وطن تمھارا ہے ،تم ہو پاسبان اسکے،یہ چمن تمھارا ہے،تم ہو نغمہ گاہ اس کے،اس چمن کے پھلوں پہ رنگ و آب تم سے ہے،اس زمین کا ہر زرہ آفتاب تم سے ہے،یہ فضا تمھاری ہے،بہروبر تمھارے ہیں،کہکشاں کے یہ سارے رنگ تمھارے ہیں،یہ وطن تمھارا ہے ،تم ہو پاسبان اس کے،اس زمین کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا،ارض پاک مرکز پے قوم کی امیدوں کا،نظم وظبط کو اپنا میر کارواں جانو،وقت کے اندھیروں میں ااپنا آپ پہچانو،یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسان اس کے،یہ چمن تمھارا ہے،میر کارواں ہم تھے،روح کاروان تم ہو،ہم تو صرف عرنواں تھے اہل داستاں تم ہو،لذتوں کے دروازے خود پر بند ہی رکھنا،اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا،یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسبان اس کے‘‘۔سائیکل رکشہ دہلی کے پرانے علاقے میں موجود رش میں پھنس چکا تھا۔پسینے کی دھاریں تپتی دھوپ میں رکشے والے کے جسم سے بہہ رہی تھی۔موسم برہ راست دھوپ میں ٹھنڈا نہ لگ رہا تھا،عجب کیفیت میں میرا دل تھا۔عثمانی اور مہدی صاحبان کا نغمہ اور سامنے دھوپ میں لاغر جسم میلوں دور تک نظر آتا رش مجھے باور کرا رہا تھاہندوستان ہندوں کے لئے بلا شبہ جنت ہو سکتا ہے لیکن کلمہ طیبہ قبول کرنے والوں کویہاں سایہ عا فیت ملنا محض دیوانے کا خواب ہے جیسے قائد اعظم اور ان کے ہم خیال ساتھی ہندوں کے ساتھ کام کر کے جان چکے تھے۔یہ رام کا نام لے کر بندہ مارتے ہیں،ہم اﷲ کا نام لے کر جانور قربان کرتے ہیں۔ان کے ہاں انسانی خون کی بھینٹ ہے ہمارے ہاں جانور کو ذبح کیا جاتا ہے۔خون دونوں بہاتے ہیں لیکن توحید اور شرک کا کیا جوڑ۔توحید قیصر و کسریٰ کے محلات زمین بوس کر کے انسان کو انسان کے برابر کھڑا کرتا ہے،شرک قیصر کسریٰ کو جنم دیتا ہے۔میں رکشے کے اوپر تنی چھتری تلے بیٹھی تھی،اپنے آپ کو دھوپ میں پسینہ بہاتے رکشہ کھینچتے انسان کی تکلیف محسوس کرنے لگی تو گھبرا کے ادھر ادھر دیکھا،ساتھ ہی بیٹھی والدہ سے کہا’’ہم اتر کر پیدل چلتے ہیں،کچھ ہی فاصلہ باقی ہے‘‘۔رکشے والے نے پریشانی سے ہم کو دیکھا۔’’میڈم یہ ابھی چھٹ جائے گا آپ لوگ بیٹھو‘‘۔وہ سمجھاہم اتر گئے ہیں گویا اس کی آمدنی بھی رخصت ہو رہی ہے۔امی نے طے شدہ رقم سے اوپر اس کو تھماتے میرا ہاتھ تھامے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اور ہم دونوں احساس شکر سے لبریزتاثرات لیئے اپنے نفوس کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں تیزی سے اس جگہ سے ہٹ گئے۔انسانی نفس اﷲ کی دی توفیق سے کسی کی مدد کرنے کے بعد جھکا سر اور جڑے ہاتھ دیکھنے میں لطف محسوس کرتا ہے۔اﷲ کی ہی رحمت ہوتی ہے کہ بندہ محفوظ رہے۔رزق حلال کے لیئے محنت کرنا،پسینہ بہانا عبا دت ہے لیکن انسان کا انسان کے لئے اوتار کا درجہ بنا احکام الہی کے اختیار کر جانا اسکی تذلیل ہے۔میں نے قطار در قطار سایئکل رکشے میں بیٹھے مسافروں پر نظر ڈالی اکثریت خوشحال چہروں کی تھی جبکے کھیچنے والے سب ایک جیسے سوکھے،جھلسے جسم ،نا کافی لباس،کٹھن زندگی ،جھگی جھوپڑی کے مکین،جن کی نسل نے صحت اور تعلیم سے محرومی آنکھ کھولتے ہی ورثے میں پائی ہو گی نہ ان میں کوئی برہمن ہو گااور نہ کھتری،نہ سکھ،نہ بدھ۔اکثریت ان انسانوں کی ہے جن کے آبا و اجداد نے ہندوستان پر بڑی شان سے حکومت کی اور اسے بڑی محبت سے سنوارا۔اس کی فضاوں میں خدا کی کبریائی کی،آ ذانیں گونجی،روحا نی اور جسمانی آزادی کا مقصد دیا،ستی کے مقابلے میں عورت کے لیئے محبت کا اسخارا تاج محل آگرہ کی سرزمین پر ابھرا۔یہ سب اس خفیف و کمزور جسموں کے پرکھوں کی برکات تھی اور انہی سے کفر کے پجاری خوفزدہ بھی ہیں اور نفرت زدہ بھی ہیں۔یہ سب حقیقتیں اپنی جگہ جو تلخ بھی ہیں اور سفاک بھی لیکن ہندوستان کی مجموعی ترقی کی رفتار پاکستان سے کئی گناہ تیز ہے اور میں تو اس کے دارالخلافہ میں موجود تھی جہاں کی شان ہی اور ہے۔میری اس تعریف میں بہت ممکن ہے میرے جذباتی لگاؤ کا دخل بھی خاصا ہو لیکن دنیا ہندوستان کو اس کی ترقی اور سیاسی استحکام کی بدودلت بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے یہ بات طہ شدہ حقیقت ہے۔

تنگ اور رش والے راستے کچھ منٹ چلنے کے بعدایک پھاٹک نما گیٹ پر کھڑے کچھ لمحے توقف کیا،ماضی پھر قوت سے دامن کھیچنے لگا،یہ وہ گلی محلے تھے جنکاذکر اپنی مرحومہ دادی سے سنا تھا۔وہ وقت میرے جسم پر نہیں گزرا لیکن میری روح جیسے وہاں پہنچ گئی جو دادی مرحومہ کا زمانہ تھا۔بگھیاں اور پالکیاں ،کہار اورسقہ سے چمکتے چاندی کے برتن ،حجاب آلود آنکھیں،قلیل مقدار میں موٹر کاریں ۔زمین و آسمان کا عالم سکوت۔ورق سے سجی شیرنی کے تھال،حلال حرام کی واضع تفریق۔میرے اٹھتے قدم تھمے،ماضی سے حال کا سفر آنـا فانا طے ہو گیا جیسے میں فلم ’’ Back To The Future ‘‘ کا کردار تھی۔سیل فون پر’’ انیقہ کالنگ ‘‘ چمک رہا تھا۔فون دوست کا تھا ،پوچھ رہی تھی کیا مجھے گھر ڈھونڈنے میں کسی دشواری کا سامنہ ہے۔میں نے اسے تسلی دی ایسا کچھ نہیں بس زمانہ بدل گیا تھا،اسلیئے قدم بہت دھیمے ہو گئے تھے،امی بھی میرے ساتھ تہیں تو انکو بھی آسانی رہی۔

اگلے منٹ ہی ہم مطلوبہ گھر پہنچ چکے تھے۔گلیاں کتنی بھی تنگ تھیں۔بوسیدگی ماحول میں کتنی بھی ظاہر تھی لیکن گندگی کے ڈھیر اس مقدار میں نہ تھے کہ اسے مکھی ،مچھر کا کروچ یا گٹر کالونی کہا جاتا۔ہلکا پھلکا کاغذ کا کوڑا بلاشبہ تھا۔تعفن نہ تھا ،مجھے کراچی کے وہ پوش علاقے یاد آگئے جہاں کوڑوں کے ڈھیر جگہ جگہ تعفن اور بیماریاں پھیلاتے ہیں ۔کسی دن اس ڈھیر کو آگ بھی لگا دی جاتی ہے تاکہ میونسپل کمیٹی کا کام وہیں ختم ہو جائے۔چھوٹے اور پسمناندہ علاقوں کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ کس ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔صفائی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔انسان میں شر کو پنپنے کی قوت گندگی میں زور پکڑ جا تی ہے۔اسلئے جرائم غلیظ علاقوں سے بھی نمو پاتے ہیں اور پھر دوسری بیشتر جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔گھر کا دروازہ کھل چکا تھا۔سامنے انیقہ کھڑی تھی۔ہم دونوں اتنی گرمجوشی سے سلام کر کے ایک دوورے سے بغل گیر ہوئے کہ لگتا تھا کہ سالوں کا فاصلہ مٹا دینگے۔انیقہ سے ملنا اور یادوں اور تاثرات کے ورق لکھنا اپنی جگہ ایک موضوع ہے۔امی اور انیقہ کی ساس بھی ایک دوسرے سے واقف کار تھیں۔سو اب انیقہ تھی اور میں۔صحن میں بچھا تخت تھا اور طرح طرح کے پودوں سے سجا اسکا گوشہ میں نے بے اختیار انیقہ کا ہاتھ تھاما ’’تم گرین تھمب ہونا تقی‘ تو وہ کھکلا کر ہنس پڑی۔تم اب بھی ایسی ہی ہنستی ہو نقی‘‘میں نے مسرت سے اسکو دیکھا۔’’تو بچے نہ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ بندہ ویران ہو جائے‘‘اسنے مسکراتے ہوئے میرے منہ میں ’پانی پوری‘(گول گپہ)ٹھونس دیا۔آسمان پر خوبصورت دھاریاں بن رہی تھیں۔زندگی کے خوبصورت لمحہ منٹ بہ منٹ گزر رہے تھے۔میرے سفر کا ایک اہم ترین جز انیقہ پاکستان کی کہانیاں سننے کی متمنی تھی۔میں نے اچھی امیدوں اور آرزوں سے سجی جھلملاتی باتیں شروع کر دیں تھیں جو ہر باشعور پاکستانی کا خواب بھی تھیں اور آرمان بھی۔

Nusrat Yousuf
About the Author: Nusrat Yousuf Read More Articles by Nusrat Yousuf: 16 Articles with 13002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.