مغربی یوپی کے علماء کے تعلق سے آج کل ایک
ایسی خبر گشت کررہی ہےجسے سن کر تعجب بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی ، وہ کہہ
رہے ہیںکہ جن گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہوگا ان گھروں کے لڑکوں کا وہ نکاح
نہیں پڑھائیں گے ۔اس طرح کی خبریں کئی دنوںسےمسلسل اخبارات میں آرہی ہیں ۔گذشتہ
دنوں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانامحمودمدنی نے بھی یہ باتیں
حفظان صحت کے تعلق سے منعقدہ آسام کانفرنس میں کہیں ، اس ضمن میں ہماچل
پردیش ، پنجاب اور ہریانہ کاحوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان ریاستوں کے
علمائے کرام نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسے مسلم نوجوان کا نکاح نہیں پڑھائیں
گے جن کے گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہوگا، ساتھ ہی اس عزم کا بھی اظہار کیا
کہ ان ریاستوں کی تقلید کرتے ہوئے جلد ہی ملک کی بقیہ ریاستو ں میں بھی ان
شرائط کا نفا ذ کیا جائے گا اور یہ امید بھی جتائی ہے کہ ملک کے دیگر مذاہب
کے رہنماؤں کو بھی اس تعلق سے بیداری لانے کی ضرورت ہے کہ وہ ان لڑکوں کی
شادیاں نہ کرائیں جن کے گھروں میں بیت الخلاء کا انتظام نہ ہو ۔انہوں نے
حفظان صحت کیلئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ بیت الخلاء کا استعمال کیا جائے
اور یہ عمل نہ صرف آسام اور کچھ ریاستوں تک محدود رہے بلکہ اسے بڑے پیمانے
پر وسعت دیتے ہوئے ایسی تحریک چلائی جائے تاکہ پورے ملک کو صاف ستھرا بنایا
جاسکے ۔
جہاں تک طہارت اور صاف صفائی کا معاملہ ہے اس کی افادیت اور اہمیت سے
بھلاکون انکار کرسکتا ہے اس کی ترغیب تو خود محسن انسانیت ﷺنے بھی دی ہے
اور طہارت و پاکیزگی کو جزودین قرار دیتے ہوئے اسے نصف الایمان کا درجہ دے
دیا ہے ۔طہارت کا تعلق انسانی طبیعت اور مزاج سے ہوتا ہے یہ کوئی ایسا
مسئلہ نہیں جس پر تحریک چلائی جائے اس تعلق سے صرف ترغیب و تلقین کافی ہے ۔اگر
ایسا ہوتا تو خود اللہ کے رسول بھی یہ تحریک چلاسکتے تھے لیکن انہوں نے
ایسا نہیں کیا اور نہ ہی ان کے بعد صحابہ اور دیگر علماء و صالحین نے ایسی
کوئی تحریک چلائی ، اس کے برعکس انہوں نے ہمیشہ ان امور پر توجہ دی جس سے
سماجی سطح پر ایک شاندار اور پرامن معاشرے کی تشلیل کو ممکن بنایا جاسکے ۔
آج امت کے درمیان بے شمار مسائل سر اٹھائے ہوئے ہیں جن کا تدارک نہیں ہوپا
رہا ہے بلکہ صورتحال یہ ہے کہ مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔کوئی
بتائے کہ نکاح جیسے ایک ضروری سماجی عمل کو بیت الخلاء سے مشروط کرنا اور
جوڑنا کہاں تک درست ہوسکتا ہے ۔نکاح ایک سماجی ضرورت ہے جو ایک پرامن اور
خوبصورت سماج کی تخلیق میں معاون ہوتا ہے وہ انسانی جبلتوں اور جنسی ہیجان
انگیزیوں پر قدغن لگاتا ہے ۔اللہ کے رسول ؐنے جب اپنی لخت جگر فاطمہ الزہرۃ
ؓکو حضرت علی ؓکی زوجیت میں دیا تو آپ نے بس اس بات پر زوردیا کہ وہ مہر
کی رقم کے علاوہ کچھ ضروری سامان خرید لیں تاکہ ایک عائلی زندگی کا بہتر
آغاز کیا جاسکے ۔
بیت الخلاء ایک انسانی ضرورت کی چیز ہے اور اس کا انتظام ہر شخص یا خاندان
اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اسے پرآسائش
اور آرام دہ بنانے کیلئے اس پر لاکھوں روپئے صرف کردیتے ہیں۔دنیا کا کوئی
بھی شخص یہ نہیں چاہتاکہ وہ کھلے میں رفع حاجت کرے لیکن غربت اور مجبوری
اسے اس عمل پر مجبور کرتی ہے ، دور کیوں جائیں ممبئی اور کولکاتہ جیسے بڑے
اور ترقی یافتہ شہروں میں آج بھی لاکھوں گھر ایسے ملیں گے جہاں بیت الخلاء
موجود نہیں ، ان گھروں کے مکین سرکاری اخراجات پر تعمیر شدہ بیت الخلاؤں
کا استعمال کرتے ہیں ، اسی طرح چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں تو ان سہولیات
کا بے حد فقدان ہے اس کے باوجود لوگ اپنے ذاتی اخراجات سے گھروں کے اندر یا
باہر فلش سسٹم کی تعمیر کرتے ہیں ۔یہ ایسی ضروریات ہیں جن کا تعلق معاشی
خوشحالی سے ہے اس کیلئے کوئی تحریک چلانے کے بجائے ، انتظامیہ پر دباؤ
بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ان کے لئے معاشی و اقتصادی سہولیات فراہم کرے اور
صنعت و تجارت کے شعبوں میں ان کے لئے کھڑی روکاوٹیں دور کردے، یہ کام خود
بخود فطرت اور ضرورت کے زور پر اپنے آپ ہوتا جائے گا ۔
استحصال ایک غیر فطری عمل ہے جسے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب نےبھی جرم قرار
دیا ہے ۔دیکھاجائے تو بیت الخلاءکونکاح سے مشروط کرنے کا عمل بھی اسی
استحصالی آمریت کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے جسے مودی سرکار نے مختلف شکلوں
میں جاری کررکھا ہے ،مثال کے طور اس ملک میں رہنا ہے تو ہندو میتھالوجی کو
تسلیم کرنا پڑے گا ،بڑے کا گوشت کھانا ہے تو پاکستان چلے جاؤ یا پھر سوریہ
نمسکار جیسے نہ جانے کتنے عمل سے گزرنا پڑے گا ۔یہ وہ شرائط ہیں جو نہ تو
قانونا ً درست ہیں اور نہ ہی معاشرتی و سماجی سطح پر اس کا جواز بنتا ہے
۔کرنے کے کام بہت ہیں ، ملک کی موجودہ سیاست ،جمہوریت کی حدود توڑکر بڑی
تیزی کے ساتھ آمریت کی طرف برھتی جارہی ہے اور یہ آمریت ہی ہے جس کے قلب
سے فاشزم کی تخلیق ہوتی ہے ۔ملک کو اس مزاج اور ماحول سے نجات دلانے کیلئے
جمہوری نظام کو مضبوط کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس کے لئے پارلیمانی
اور ریاستی انتخابات بہت اہم ہتھیار ہیں ۔لیکن یہ ہتھیار اسی وقت کارآمد
ہوسکتے ہیں جب ہم انہیں جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بنائیں نہ کہ حصول
زراور سامان تعیش اکٹھا کرنے کا ایک پرفریب جال ۔ سماجی و معاشرتی سطح پر
ملک کو پرامن اور ترقی یافتہ بنانے کیلئے ایمانداری ، دیانتداری اور خلوص
اولین شرائط ہیں جو ہمارے درمیان سے بڑی سرعت سے رخصت ہوتی جارہی ہیں ۔
|