ایران آگ سے کھیل رہا ہے یا عالمی طاقتیں مسلمانوں کو دہشت گرد بنارہی ہیں۰۰۰؟

کیا واقعی ایران خطے میں سب سے بڑا خطرہ ہے؟ اس سلسلہ میں امریکی صدرٹرمپ نے گذشتہ دنوں ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل تجربہ کے بعد اس پر مزید پابندیاں عائد کردی ہیں اور اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعہ کہا کہ ایران آگ کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائیل تجربہ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی مائیکل فلن نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ہم آج سے سرکاری طور پر ایران کو نوٹس دے رہے ہیں۔ اس تجربے کے بعد امریکہ نے ایران پر اقوام متحدہ کی قرار داد 2231کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔گذشتہ دنوں جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی سیکیوریٹی کانفرنس میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکہ سے کہا ہیکہ وہ اسے دھمکیاں دینا بند کرے کیونکہ ایران اس کی دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہے۔ ایک صحافتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے جواد ظریف نے ٹرمپ انتظامیہ پر ایران کو مشتعل اور تنگ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ امریکہ ایران کو بیلسٹک میزائل کے حالیہ تجربے کے بعد نئی پابندیاں لگاکر ایران کو مشتعل کرنا چاہتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ ظریف نے امریکہ کو خبردار کیا کہ اگر ایران پر مزید پابندیاں عائد کی گئیں تو تہران جوابی اقدامات کا حق رکھتا ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ امریکہ کی جانب سے تو پابندیاں عائد کردی گئیں ہیں ایران کس قسم کے اقدامات کرتا ہے اور اس سے کس کا نقصان ہوگا۔ جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والے 53ویں سیکیوریٹی کانفرنس میں امریکہ کے نائب صدر نے شرکت کی انہوں نے اپنے خطاب میں ایران کو دنیا میں دہشت گردی کو اسپانسر کرنے والا سب سے بڑا ملک قرار دیا ۔ اسی کانفرنس میں سعودی عرب اور اسرائیل نے بھی ایران کو خطے کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق جواد ظریف کا کہنا ہیکہ ایران کسی کو چھیڑنے یا مخاصمت پیدا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا لیکن وہ اپنا دفاع ضرور کریگا۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف جس طرح میونخ میں کہا کہ ایران کسی کو چھیڑنے یا مخاصمت پیدا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اس میں کس حد تک صداقت یا جھوٹ ہے اس سلسلہ میں عراق، شام ، یمن کے حالات دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے۔ ایران ان ممالک میں جس طرح شیعہ ملیشیاء ، بشار الاسد اور ولادیمیرپوتین کی ظالم فوج کے ساتھ ملکر شام کے معصوم ، بے قصور سنی مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں اس کی رپورٹس میڈیا کے ذریعہ کئی مرتبہ منظر عام پر آچکی ہے۔

دہشت گردی پاکستان، افغانستان، شام، عراق ، یمن سے تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ہر آئے دن ان ممالک میں بم دھماکے، خودکش حملے ، فائرنگ کے واقعات میں پھر ایک مرتبہ اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستانی فوج اور حکومت کی جانب پاکستان کے کئی علاقوں میں ضربِ عضب کے تحت دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کی کوشش ناکام ثابت ہورہی ہے۔ سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کے دورمیں شروع کی گئی ضربِ عضب کاررائی سے سمجھا جارہا تھا کہ پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن ان ہی کی فوجی سربراہی کے دوران اور اب موجودہ پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجواہ کی قیادت کے دوران پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔پاکستانی فوج سیہون شریف میں لعل شہباز قلندرؒ کے مزار میں دھماکہ کے بعد جس تیزی سے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کیلئے انکے ٹھکانوں پر حملے کرتے ہوئے کارروائی کا آغاز کیا ہے اس سے محسوس ہوتا ہیکہ اس مرتبہ پاکستانی فوج اور دیگر سیکیوریٹی ایجنسیاں دہشت گردی پر قابو پالیں گے۔ لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر ہونے والے خودکش حملے میں کم و بیش 100زائرین ہلاک ہوگئے جبکہ تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس حملے کے بعد یعنی صرف 24گھنٹے کے اندر پاکستانی فوج اور رینجرزنے کومینگ آپریشنز میں 100سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کے دعویٰ کیا ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق سیکیوریٹی فورسز کو حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث شدت پسندوں کا نیٹ ورک توڑنے میں کامیابی ملی ہے اور پاک افغان سرحد پر شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کو موثر طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی لون نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر حالیہ حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی اچھا یا برا دہشت گرد نہیں ہوتا اور جب تک یہ تفریق اور تقسیم رہے گی ہم ہارتے رہیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ دہشت گردی ہمارے عہد کا واضح چیالنج ہے اس چیالنج پر فتح پانے کے لئے ایک پوری نسل کی جانب سے عزم و ہمت درکار ہے۔ جرمنی میں میونخ میں کانفرنس کے دوران انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہم دہشت گردی کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، ہونگے اور ضرور ہونا چاہیے کیونکہ آنے والی نسل کی زندگی اور خوشحالی اس پر منحصر ہے۔ ایک طرف پاکستانی حکمراں اور فوج دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پوری مستعدی دکھارہی ہے تو دوسری جانب افغانستان کی حکومت بھی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پرامید دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن کیا واقعی پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں اور فوج مل کر ان ممالک کے دہشت گردوں کا خاتمہ کرپائیں گے۔ کیونکہ عالم اسلام کے دیگر ممالک میں بھی شدت پسندی عروج پر ہے۔ ایک طرف سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک متحدہ طور پر شام، عراق اور یمن میں سنیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہیں تو دوسری جانب ایران، شیعہ ملیشیاء، روس اور بشارالاسد کی ظالم فوج سنیوں پر بے انتہاء ظلم و بربریت ڈھارہی ہے۔ لاکھوں بے قصور مردو خواتین اور معصوم بچے گذشتہ چند برسوں کے دوران جام شہادت نوش فرمائے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ زخمی اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ معصوم بچے جنہیں مدارس میں لکھنے پڑھنے اور کھیل کود میں ہونا چاہئیے تھا وہ پناہ گزیں کیمپوں میں بھوک و پیاس اور ادویات سے محروم کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، خوف کے سائے ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں، کئی یتیم و یسیر ہوچکے ہیں۔ عالمی طاقتیں دہشت گردی کے خاتمہ کی بات کرتے ہیں اور ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کے بہانے کئی مقامات پر حملے کرکے معصوم و بے قصورانسانیت کا قتل عام رہے ہیں۔ایران ،شام ، روس کی ظالم فوج ہو یا امریکہ، اسرائیل ،سعودی عرب و دیگر متحدہ ممالک کی فوج یا پھر شدت پسند تنظیمیں انکی جانب سے کہیں شادی بیاہ کی تقاریب کو نشانہ بنایا جاتا رہاہے تو کہیں عبادتگاہوں، اولیاء اﷲ اور صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ عنہم کی مزارات، تعلیمی اداروں ، بازاروں، تفریح گاہوں پر فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے یہی نہیں بلکہ ہاسپتلوں پر جہاں شدیدزخموں سے چُور وموت و زیست میں مبتلا بیماری سے کراہتے ہوئے افراد پر حملے کرکے انسانیت کو شرمسار کررہے ہیں۔ظالموں کی جانب سے انسانیت خصوصاً مسلمانوں کو حقیر سمجھتے ہوئے ان پر بے دریغ ظلم و بربریت ڈھائی جانے والی کاررائیوں کے بعدیہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے کہ آیاایران آگ سے کھیل رہا ہے یا عالمی طاقتیں کسی سازش کے تحت مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر یا بتا کرانکا قتل کرنا چاہ رہی ہیں ۰۰۰؟

عالمی امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ ۰۰۰
اسلامی ممالک میں ہونے والی دہشت گردی یا شدت پسندی دشمنانِ اسلام کو دکھائی دے رہی ہے جو کہ ان ہی کی پیدا کردہ ہے کیونکہ اگر عراق ،افغانستان، پاکستان میں جن الزامات کے تحت عالمی طاقتوں نے خطرناک فضائی حملے کرکے معصوم ، بے قصور مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کی کروڑہا ڈالرس کی املاک و اسلامی تاریخ کو مٹانے کی کوششیں کیں اس میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی لیکن اس کامیابی کے ساتھ ساتھ دشمنانِ اسلام کی نیندیں بھی حرام ہوگئیں کیونکہ مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والی ظلم و بربریت کو دیکھنے کے بعد کئی نوجوان ان دشمنانِ اسلام سے بدلہ لینے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ان میں بعض نام نہاد جہادی تنظیمیں بھی ہیں جو ان اسلامی ممالک میں مختلف مقامات پر بم دھماکے، فائرنگ اور خودکش حملوں کے ذریعہ ان ہی مظلوم مسلمانوں پر مزید مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی حکومت اور فوج کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں پر مختلف بہانوں کے ذریعہ ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل ، فلسطین کے کئی علاقوں پر قبضہ کرکے بے قصور فلسطینیوں کوبے گھر بھی کررہا ہے اور ان فلسطینیوں کی جانب سے احتجاج کئے جانے پر انہیں گرفتار کرکے کئی کئی برس سخت اذیتیں دیتا ہے۔اسرائیل کی دہشت گردی ان عالمی قائدین جو دکھائی نہیں دیتی کیونکہ وہ چاہتے ہی ہے کہ مسلمانوں پر کسی نہ کسی بہانہ ظلم و زیادتی کرکے ان کا قتلِ عام کیا جائے اور انکی معیشت کو تباہ و برباد کیا جائے۔ فلسطینی عوام پر ظلم و زیادتی کا ایک لامتناہی سلسلہ گذشتہ کئی دہوں سے جاری ہے۔ اسرائیل ایٹمی ہتھیاروں کے لئے خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے ہے اس سلسلہ میں ایران نے اس صیہونی حکومت کے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر کو عالمی امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ اور صیہونی حکومت کے وزیراعظم نتن یاہو کے بے بنیاد دعوؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے پاس سینکڑوں ایٹمی وارہیڈز موجود ہیں جو مشرق وسطی اور پوری دنیا کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔

امدادی جہازوں پر حوثیوں کا قبضہ۰۰
یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے امدادی جنگی جہازوں اور انکے عملے کو یرغمال بناکر ان بے قصور شہریوں کی خوراک اور طبی مواد کو انکے پاس پہنچانے سے روک دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق مصری بحریہ کے جنگی جہازوں کو حاصل ہونے والی صوتی ریکارڈنگ سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ حوثیوں نے درجنوں امدادی جہازوں اور ان کے عملہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔یمنی کے ساحل پر خوراک اور طبی مواد سے لدے درجنوں امدادی جہازوں کی موجودگی کے باوجود یمن کے شہری انسانی بحران سے دوچار ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق عرب اتحادی افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد عسیری نے بتایا کہ حوثی اب تک 34 امدادی جہازوں کو الحدیدہ کی بندرگاہ میں داخل ہونے سے روک چکے ہیں۔ بعض جہاز بندرگاہ میں داخل تو ہو گئے مگر حوثیوں نے ان پر قبضہ کر کے واپس جانے سے روک دیا جب کہ ان کا عملہ بھی لاپتا بتایا جارہا ہے۔سابقہ معلومات کے کا انکشاف کے بعد اب بحر احمر میں مصری جنگی جہازوں سے حاصل ہونے والی صوتی ریکارڈنگ سے اس کی تصدیق ہو گئی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت تقریبا 1.9 کروڑ یمنی بدترین صورتحال سے دوچار ہیں لگ بھگ ایک کروڑ بچے بتائے جارہے ہیں۔مشرق وسطیٰ کے حالات دن بہ دن بگڑتے ہی جارہے ہیں لیکن سعودی وزیر خارجہ نے مشرق وسطیٰ کے مسائل کے حل کی امید کا اظہار کیا ہے۔

عراق میں سنی عربوں کے مکانات مسمار
عراق، شام، یمن میں عام سنی مسلمانوں پر ظلم و زیادتی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ انسانی حقوق کا بین الاقوامی ادارہ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایران کے تربیت یافتہ عراقی شیعہ ملیشیا ارکان موصل کے گرد و نواح میں محض شبہات کی بنیاد پر سنی عربوں کے مکانات مسمار کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب شیعہ ملیشیا الحشد الشعبی کے ترجمان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مکانات کو تباہ کرنے کا سلسلہ داعش کے عسکریت پسندوں نے شروع کر رکھا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ شیعہ ملیشیا نے مغربی موصل کے نواحی علاقوں میں کم از کم 345 سنی عربوں کے مکانات پوری طرح تباہ کر دیے ہیں ۔ اس طرح سنی مسلمانوں کا قتلِ عام اور انکی جائیدادوں کی تباہی و بربادی کا لامتناہی سلسلہ صرف عراق میں ہی نہیں بلکہ شام،یمن،فلسطین، افغانستان، پاکستان کے علاوہ کئی ممالک میں جاری ہے۔
***
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 209481 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.