طلبہ یونین کی ضرورت آخر کیوں؟
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ طالب علموں کے لئے
یونین تنظیموں کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے۔طالب علموں کا مقصد حیات تو علم کا
حصول ہوتا ہے۔اُس کے لئے تو گروہی صورت میں ایک جگہ جمع ہو کر سب اپنے اپنے
نظریات کا پرچار کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔علم تو کسی کی میراث نہیں
ہے ،اس لئے سب اس کو انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے بانٹ سکتے ہیں۔مگراس کے
لئے یہ ضروری نہیں ہوتا ہے کہ آپ کسی گرو ہ کی صورت میں جمع ہو جائیں اور
پھر علم کی جستجو کریں ،یہ تو کسی بھی فرد پر منحصر کرتا ہے کہ وہ کس طرح
سے اپنے آپ علم کے سمندر سے سیراب کرتا ہے۔اُس کے لئے تو کسی بھی طلبہ
یونین کا قیام ضروری نہیں ہو سکتا ہے۔اگرآپ طلبہ یونین کی تاریخ اُٹھا کر
دیکھ لیں تو ماسوائے سیاسی جہدوجہد میں اپنا کردار سرانجام دینے اور
جمہوریت کی تحریکوں کو چلانے کے سواء کوئی بھی بہترین سرگرمی کم سے کم
پاکستان میں دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔جو کہ ایک بطور طالب علم میں سمجھتا ہوں
کہ ایسا ہونا ہمارے لئے بدقسمتی کی بات ہے۔ایسے ہی سیاست گردی کی نظر ہمارے
کئی قابل نوجوان ہو چکے ہیں اور کئی سیاسی جماعتوں میں ایسے ہی نوجوان کو
آپس میں دست و گریبان کر ا دیا جاتا ہے تاکہ سیاسی مقاصد کا حصول ممکن ہو
سکے۔اگر طلبہ یونین ایسے مقاصد کی بجائے جو تعلیمی سرگرمیوں سے ہٹ کر ہوں
سرانجام دینے کی کوشش کریں گے تو پھر بہت سارے مسائل کھڑے ہونگے۔طلبہ یونین
کو صرف طالب علموں کی فلاح و بہود کے مقاصد تک رہنا چاہیے ،تب ہی اسکی
اہمیت رہے گی۔مگر یہاں تو طالب علم تعلیمی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ہی
سیاست میں آجاتے ہیں اور پھر تعلیم ایک طرف رہ جاتی ہے اور دیگر معاملات
سرفہرست ہو جاتے ہیں۔بہت کم ہی ایسے طلبہ ہیں جو تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر
سرگرمیوں کو جاری رکھ پاتے ہیں۔طلبہ کو سیاست میں سرگرم ہونے سے باز رکھنے
کے لئے حلف نامہ ایک عمدہ فعل ہے جس سے بہت سے مسائل پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔
اگر طلبہ یونین کا مقصد طالب علموں کی ذہنی نشوو نما،تعلیمی سرگرمیوں میں
بہتری اور اُن میں لیڈرانہ خصوصیات پیدا کرنے تک محدود ہو تو پھر اس کا
کردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔اس وجہ سے ملک کو بہترین انداز میں
نظم ونسق چلانے والے افراد کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔اگر یہ کہا جائے کہ
مختلف طرح کی سرگرمیوں مثلا کھیلوں میں شمولیت، تقریری مقابلوں میں حصہ
لینا اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بطور لیڈر اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر
کرنے کی تربیت دی جائے تو جب وہ عملی طور پر سیاسی میدان میں آئیں گے یا
دیگر کسی بھی شعبے میں کام کریں گے تو بہت زیادہ تبدیلی اور بہتری آنے کا
امکان ہوگا۔آج ہمارے پاس جو بھی سیاست کرنے والے ہیں اگرچہ اُن میں سے بہت
سے انہی طلبہ یونینز کی پیداوار ہیں ۔مگر بدقسمتی کے ساتھ یہاں بیان کرنا
پڑ رہا ہے کہ آج ہمارے ہاں جو بھی معاشی وسیاسی حالات ہو چکے ہیں ، انہی کی
مہربانی کا کرم بھگت رہے ہیں۔اگرچہ طلبہ یونین کی وجہ سے بہت سارے نام نہاد
و نامور سیاست دانوں کی کھیپ میسر ہوئی ہے مگر ان میں سے کم ہی نے ملک کی
باگھ دوڑ ملنے پر ملک کی تقدیر بدلنے کی کوشش کی ہے ۔جو کہ ہمارے لئے ایک
لمحہ فکریہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ابھی یہی دیکھ لیں کہ مختلف طلبہ یونین کی آپس میں لڑائی اور دیگر معاملات
کی خبرین اخبارات میں آتی رہتی ہیں، یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ کم سے کم ہمارے
ہاں طلبہ یونین کا ہونا بہت سے مسائل کھڑے کرتاہے۔اگر طالب علموں کو کسی
بھی قسم کا کوئی بھی مسئلہ ہوتا ہے تو اس کے لئے باقاعدہ سرکاری سطح پر
کوئی ایسا باقاعدہ عہدہ یا محکمہ قائم کیا جائے جو کہ اُنکے مسائل کو غیر
جانبداری سے حل کر سکے۔کم سے کم میری نظر میں تو بہت کم ہی ایسا دیکھنے میں
آیا ہے کہ زیادہ مثبت سرگرمیاں طلبہ یونین کی طرف سے کی جا رہی ہوں۔ہر شعبے
کی طرح یہاں بھی بدعنوان عناصر طلبہ کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں اور اپنے
مقاصد کے حصو ل کے لئے اُنکو آگے کر دیتے ہیں۔یہ بھی کم سے کم میری نظر میں
دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی بھی طالب علم کو کوئی مسئلہ ہو تو پھر اسکی
مدد تو کر دی جاتی ہے مگر بعدازں اپنے لئے بھی کام کرنے کی ترغیب دی جاتی
ہے اور پھر اس کو اپنے گروہ کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔اگرچہ اچھی طلبہ یونین
کے ساتھ برُی شہرت کی حامل یونین کا وجود بھی موجود ہے مگراہم ترین سوال
یہی ہے کہ آخر طلبہ یونین کا قیام ہی کیوں کیا جائے۔اگر طلبہ کو شعور عطا
کرنا ہے تو اس کے لئے مختلف طریقہ کار اختیار کر کے اُنکی ذہنی نشو ونما کی
جاسکتی ہے اورملک کی تقدیر بدلنے والوں میں ڈھالا جا سکتا ہے ۔یہ ضروری
نہیں ہے کہ طلبہ یونین کا قیام محض انکے مسائل کے حل کی وجہ سے کر دیا
جائے۔نوجوان یقینی طور پر ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں مگر اس کے لئے سوچ کا
زاویہ بدلنے کی ضرورت ہے اگر یہی طلبہ ازخود متحد ہو کر ایک نظریے کی خاطر
بوقت ضرورت جمع ہو کر اچھے عمل اورمقصد کے لئے آگے آئیں گے تو ملک میں ہر
لحاظ سے بہتری آئے گی۔لہذا اُوپر بیان کردہ مقصد سے ہٹ کر طلبہ یونین کی
بحالی موجودہ ملکی حالت کے پیش نظر کسی بھی خطر سے خالی نہیں ہوگی ،اس پر
سوچ سمجھ کر عمل درآمد کرنا ہوگا بصورت دیگر ملک دشمن عناصر اُن کو استعمال
کر سکتے ہیں۔
|
|