سیاسی کارکنان ماضی میں سیاسی پارٹیوں اور
تحریکوں کے اہم اثاثے سمجھے جاتے تھے کارکنان کے کندھوں پر ہر وہ کام لا د
دیا جاتا جو سیاسی جماعت کو کرنا چاہئے تھا سیاسی کارکنوں میں طلبہ تنظیموں
سے وابستہ کارکنوں کی تاریخ اس سے بھی نمایاں ہے قیام پاکستان کے موقع پر
قائد اعظم کے ہر اول دستے کے طور پر کام کرتے رہے جس کا جگہ جگہ اعتراف بھی
کیا گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نظام پاکستان میں شاید طلبہ سے بڑھ کر کسی
اور نے اتنا جاندار کردار ادا نہ کیا ہوگو کہ اس کردار میں طلبہ کے پاس
منظر مختلف تھے مگر نظام کے قیام کے لئے جدوجہد میں پیش پیش تھے۔ ایوب خان
کی بلاشرکت غیرے آمریت کے خلاف طلبہ کے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی
اور زوالفقار علی بھٹو کو ایک ملازم سے قائد کی حیثیت تک پہنچایا خود
زوالفقار علی بھٹو کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ایوب خان کے ساتھ لاتعلق کے
بعد راولپنڈی اسلام آباد سے لاہور کا ریلوے میں سفر انہوں نے صرف اس غرض سے
کیا کہ وہ عوام کی حمایت دیکھنا چاہتے تھے ۔ بھٹو صاحب کے ساتھ اس سفر میں
چند ایک طلبہ تھے جب یہ ریل گاڑی مختلف سٹیشنوں پر رکی تو طلبہ کا جم غفیر
نظر آتا گیا جس نے ان کے اس خیال کو مزید پختگی بخشی کہ سیاسی جدوجہد کے
لئے میدان خالی ہے ۔
اگر طلبہ اور کارکنان کی اس داستان کو پاکستان کے موجودہ اور خصوصی طور پر
انتخابات کے پس منظر میں دیکھا جائے یہی وہ کارکن ہیں جو دن رات کی محنت سے
گلی کوچوں میں پارٹیوں کا پیغام لیکر پہنچ جاتے ہیں انتخابات کا میں
پارٹیوں کی کامیابی کا دار و مدار انہیں کارکنوں پر ہوتا ہے جو جگہ جگہ
پارٹی کے بینرز لگانے ، پینا فلیکس سجانے اور سماجی رابطہ سائٹس پر ’پوسٹ‘
لگاتے پھررہے ہوتے ہیں۔گھر او ررشتہ داریوں سے الجھ الجھ کر پارٹی کی گود
میں سکون پانے والے کارکنان پھر انتخابات کے بعد ’دلبرداشتہ ‘ہوجاتے ہیں
۔ہمارے سیاسی مزاج ہے کہ پرانے کارکنوں پر پیراشوٹ ہولڈرز کو ترجیح دی جاتی
ہے اس کے باوجود خاموشی سے اپنا پیغام ’عبادت ‘ سمجھ کر پھیلاتے رہتے
ہیں۔کیا مجال ہے کہ کوئی ناصح انہیں اپنے مستقبل کی فکر کی طرف راغب کرکے
زخموں پر نمک چھڑکے ۔
سادگی و پرکاری ، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزماپایا۔
ایم ایس ایف ن گلگت بلتستان کے صوبائی صدر کے تحفظات بھی اسی انداز کے ہیں
8جون 2015کے عام انتخابات میں پورے گلگت بلتستان اور خصوصی طور پر حلقہ
نمبر2گلگت میں اپنے پارٹی کے نامز د امیدوار حافظ حفیظ الرحمن کی کامیابی
کے لئے کارکنوں نے دن رات کام کیا ۔مسلم لیگ ن کے کمرہ نما سیکریٹریٹ کو
آباد کرکے حقیقی طور پر سیکریٹریٹ بنادیا ۔کوئی بھی جلسہ ،ریلی یا اجتماع
کارکنوں کے بغیر نامکمل تھا صرف حلقہ 2یا ضلع گلگت ہی نہیں بلکہ پورے
24حلقوں میں ان کارکنوں نے دن کو دن نہیں اور رات کو رات نہ سمجھ کر اپنی
موجودگی کا نہ صرف احساس دلایا بلکہ عددی اکثریت کی اس جنگ میں اپنا کردار
بھی ادا کیا ۔ رضوان راٹھور کا استعفیٰ واپس لینا کم اور استعفیٰ دینا
زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔
مسلم لیگ ن نے 8جون کو گلگت بلتستان میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل
کرلی اور سنگل پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ۔ ڈیڑھ سال سے زائد کا
عرصہ گزرنے کے بعد آج تک کوئی ایسی شکایت نہیں آئی کہ لیگی کارکنان نے کسی
دفتر میں پہنچ کر فائلوں کی جانچ پڑتال خود شروع کی ہو۔ سرکاری ملازمتوں کے
لئے فہرستیں پارٹی کے کارکنان نے بنائی ہو ، خفیہ ٹیلیفون کالز پر کسی طلبہ
رہنما کی آواز آئی ہو ۔حکومت بننے کے بعد بھی ان کارکنوں خصوصی طور پر ایم
ایس ایف کے کارکنوں کی صورتحال جوں کے توں رہی ہے صرف مخالفین کو دکھانے کے
لئے حکومت کا دھبہ اپنے دامن پر لیتے ہیں ۔وسائل کی اعداد و شمار میں ان کا
کوئی نام و نشان نہیں ۔یہ تو کم از کم طلبہ کا حق بنتا ہے کہ طلبہ اور
تعلیم سے متعلق کوئی بھی پالیسی میں ان سے رائے پوچھی جائے پڑھے لکھے افراد
کی کمی نہیں ڈگریاں گھروں میں سجائے باہر سیاست کرنے والے تو موجود ہیں۔
رضوان راٹھور کا احتجاجی استعفیٰ کم از کم اس بات کی دلیل دیتا ہے کہ
وزیراعلیٰ پر لگنے والے محلہ داری ، اور کارکن نوازی کے الزامات میں کوئی
حقیقت نہیں ۔رضوان راٹھور کا استعفیٰ اور دیگر اضلاع کے کارکنوں کا صوبائی
حکومت کے مقابلے میں رضوان راٹھو ر کے ساتھ کھڑے ہوکر اظہار یکجہتی کرنا
زمینی سطح پر خاموشی سے چلنے والے اس لاوے کا شاخسانہ ہے جو 8جون سے اب تک
پرانے کارکنان کو نظر انداز کرکے ’فلائٹ‘رہنماؤں کو نوازا گیا ۔ 8جون کے
بعد سیاسی صورتحال گلگت بلتستان کی ویسی نہ رہی کہ خاموشی سے حکومت کرتے
جائیں بلکہ روایتی حریف جماعت پیپلزپارٹی سابقہ پوزیشن سے بھی بڑھ کر سامنے
آئی ، تحریک انصاف نے قیادت ان کے ہاتھوں میں دی جو کم از کم امتناعی
صورتحال کو توڑ کر اپنی پوزیشن بنانا چاہتے ہیں فتح اﷲ خان کا جنرل
سیکریٹری بننے بھی حلقہ 2کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ یہ حلقہ اب وزیراعلیٰ
کاحلقہ بن چکا ہے اور ایسی صورتحال میں وزیراعلیٰ پر سیاسی مخالفین کا دباؤ
بڑھتا جارہا ہے ۔ جو اس کے ممبران کم از کم محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ اس
احتجاج میں کارکنوں نے صاف کہا کہ وزیراعلیٰ سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں
بلکہ ہمیں فخر ہے لیکن خاموش سائلین کسی اور کے پاس جانے کے بجائے ہمارے
گھروں کی طرف رخ کرتے ہیں اور ہم وہ کام لیکر وزیراعلیٰ تک نہیں پہنچ پارہے
ہیں جبکہ وزراء اور دیگر ممبران کے پا س جائیں تو وہ مزید اضافی کام کا
بوجھ دیکر بھیجتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کارکنوں کی قدر کرتے ہیں آپ ہمارا کام
بھی وہی سے نکل والیں۔وزیراعلیٰ کے علاوہ اس وقت اسمبلی میں مسلم لیگ ن
گلگت بلتستان کے جنرل سیکریٹری اکبر تابان بھی بحیثیت سینئر وزیر برائے
پانی و بجلی کے زمہ داریاں نبھارہے ہیں کئی نائب صدور بھی ہونگے اضلاع کے
صدور و زمہ داران بھی ہیں گورنر گلگت بلتستان خود سینئر نائب صدر جبکہ رکن
اسمبلی رانی عتیقہ بھی نائب صدر ہیں کیا مجال ہے کہ آج تک کسی نے کارکنوں
کے ساتھ کوئی نشست کی ہو کارکنوں کے مسائل پر گفت و شنید کی ہو ۔اس سے قبل
بھی لکھا جاچکا ہے کہ وزیراعلیٰ ان لوگوں کی نشاندہی کریں جو ان کے مستقبل
میں بھی دائیں بائیں نظر آئیں ورنہ ان کی جانب سے پیپلزپارٹی کی حکومت پر
لگائے جانے والے الزامات متبادل مدعی کے دوبارہ اٹھ جائیں گے صرف بجٹ اور
ترقیاتی کام کے علاوہ بھی چیزیں ہیں جنہیں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔مسلم لیگ ن
کے سیکریٹریٹ کو آباد کرنے والوں کا پریشان رہنا یقینا لمحہ فکریہ ہے ۔
رضوان راٹھور کے استعفیٰ کے اگلے روز ایک صوبائی وزیر اور ایک پارلیمانی
سیکریٹری نے کارکنوں سے ملاقات کی کارکنوں نے (بشمول رضوان راٹھور) ان
دونوں ممبران کا جن الفاظ سے ’استقبال ‘کیا اور جن الزامات سے انہیں رخصت
کیا اور جو رویہ اپنایا وہ ان کے لئے آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہیں لیکن وہ
الفاظ ناقابل تحریر ہیں۔کارکنوں اور خصوصی طور پر طلبہ کے مسائل کا یوں
جمود کا شکار ہونا لازمی طور پر پورے تنظیمی ڈھانچے کا سوال بنتا ہے ۔
کارکن تو اپنی سادگی اور جنون میں ویسا ہی رہتا ہے جیسے نادان نادان رہتا
ہے ۔
زمانے کو بدلتا دیکھ کر بھی خود کو نہ بدل سکا میں
’نادان‘’نادان‘ہی رہا،الٹا بھی لکھا سیدھابھی |