دہشت گردی کی جڑیں،گہری ہوچکی ہیں

پہلے آپریشن کا نام المیزان اور اب موجودہ کا نام رد الفساد ہے۔2002ء سے لیکر اب تک مختلف ناموں سے ایک درجن کے قریب آپریشن ہوچکے ہیں۔لیکن بیماری ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے میں اسکی جڑیں گہری ہوچکی ہیں۔پاکستان کی تاریخ کو سامنے رکھیں تو ابتدائی3۔دہائیوں میں ملک اس مرض سے محفوظ رہا۔بعد کے عرصے میں مرض شروع ہوا اور اب پورا ملک لپیٹ میں ہے۔80ء کی دہائی میں ملٹری نے روس کو روکنے کے لئے افغانستان میں مداخلت شروع کی۔جواب میں ہمارے پیارے ملک کو دھماکے اور کلاشنکوف کلچر ملے۔نئی صدی سے بات مزید الجھتی چلی گئی۔خودکش دھماکے اب عام ہوگئے ہیں۔کئی مذہبی تنظیموں نے خودکش دھماکوں کو امریکی ڈرون کے مقابلے میں میزائل کہا اور بہت سوں نے اسے جائز بھی قرار دیا۔اب پاکستان اور افغانستان خودکش دھماکوں سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔دونوں ملک ایک دوسرے پر سہولت کار ہونے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔چند دن پہلے پاکستان کے فوجی مرکز کی طرف سے 76۔دہشت گردوں کی فہرست افغان سفیر کے حوالے کی گئی اور جواب میں حکومت افغانستان نے اس سے بھی بڑی فہرست85۔افراد کی بنا کردی۔جب باڈر کھلا ہو ،آناجانا آسان ہوتو دہشت گردوں کے لئے دونوں ملکوں میں کاروائیاں کرنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے۔سرحد کے دونوں اطراف میں ایک ہی نسل اور قبیلوں کے لوگ آباد ہیں۔چھپنا اور پناہ لینا کوئی مشکل ہی نہیں۔پاکستان کے تو طول وعرض میں ہرجگہ سرحد پار سے آئے ہوئے لوگ پھیلے ہوئے ہیں۔پاکستان میں سہولت کاری کوئی مشکل کام نہیں ہے۔پھر پاکستان کے اندر بھی دوردراز علاقوں میں چھپ چھپا کر ٹریننگ اور تیاری آسان ہے۔ضرب عضب تقریباً2-1/2سال جاری رہا۔شمالی وزیرستان کو دہشت گردی سے مکمل طورپر پاک وصاف کرنے کے دعوے کئے گئے۔اسی آپریشن میں یہ بھی کہاگیاتھا کہ ہم دہشت گردوں کودوبارہ انکی محفوظ پناہ گاہوں میں آنے نہیں دیں گے۔لیکن آج (بروزپیر)ہی شمالی وزیرستان کے علاقوں شیرانی اور دتہ خیل سے گرفتاریوں کا ذکر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردوں نے ان علاقوں میں دوبارہ آنا شروع کردیا ہے۔آپریشن ضرب عضب میں کئے گئے دعووں میں مبالغہ آمیزی تب بھی محسوس ہوتی تھی اور اب توثابت ہورہی ہے۔آج چاروں صوبوں سے گرفتاریوں اور اسلحہ کی برآمد کی خبروں سے اخبار بھراپڑا ہے۔اگرضرب عضب میں پورے ملک کو دہشت گردوں اور ناجائز اسلحہ سے صاف کردیاگیا تھا اور ان علاقوں کی فورسز کی طرف سے نگرانی بھی کی جارہی تھی توموجود اسلحہ اور دہشت گرد کہاں سے آگئے۔کمرتوڑ دی گئی ہے تو روایتی فقرہ بن کررہ گیا ہے اور ہر ملٹری آپریشن کے بعد یہ روایتی فقرہ دھرا دیاجاتا ہے۔گزشتہ چند دنوں میں یکے بعد دیگرے11۔حملوں نے آپریشن ضرب عضب کے بعد کے دعووں کی قلعی کھول دی ہیہ۔لگتا ہے کہ مختلف آپریشنز میں دہشت گرد مرتے کم ہیں ۔وہاں سے بھا گ کر دوسرے محفوظ ٹھکانوں میں چلے جاتے ہیں۔اورپھر یہ تو قدرتی بات ہے کہ جو دہشت گرد مارے جاتے ہیں۔ان کے عزیز واقارب اور اولادیں انتقام لینے کے لئے دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوجاتی ہیں۔فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں انتقام کی روایت بہت پختہ ہے۔پنجاب کی حکومت نے بہت دیر بعد آکر یہ تسلیم کیا کہ یہاں بھی دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں۔اب رینجرز نے یہاں آکر کاروائیاں شروع کردی ہیں۔پنجاب کے تقریباً ہر ضلع سے ناجائز اسلحہ بھی مل رہا ہے اور مشکوک افراد کی بڑی تعداد بھی گرفتار ہورہی ہے۔درست یہی تھا کہ جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تھا تو کاروائیاں ہر صوبے کے اضلاع میں کی جاتیں۔اگر ایک صوبے میں کاروائیاں ہوتی ہیں تو دہشت گرد دوسرے صوبے میں ٹھکانے بنالیتے ہیں۔ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے دوردراز گاؤں،جنگلوں اور وادیوں میں چھپنا مشکل کام نہ ہے۔نئی صدی کے شروع سے لیکر اب تک16سالوں سے یہ جنگ لڑی جارہی ہے۔اگر پہلی افغان جنگ سے دیکھا جائے تومدت37سال ہوگئی ہے۔پاکستان کے اردگرد کئی دشمن ممالک کو فنڈنگ کے مواقع بھی مل رہے ہیں۔بھارت بذریعہ افغانستان زیادہ وسائل مہیا کرتا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ لنڈی کوتل سے لیکر کراچی کے ساحلوں تک دہشت گردوں کے ٹھکانے بن چکے ہیں۔افغان باڈر کے اس پار بھی بڑی سہولتیں ہیں۔ہم اس مہلک مرض سے کیسے اپنے ملک کو بچائیں۔سب سے ہم نقطہ تو پاک افغان باڈر کو مکمل طورپر محفوظ بنانا ہے۔ایجنسیوں نے لاہور اور سہون شریف حملوں کے تانے بانے واضح طورپر افغانستان سے ثابت کئے ہیں۔فاٹا سے بھاگے ہوئے ہزاروں دہشت گرد وہاں پناہ لئے ہوئے ہیں۔وہاں سے حملوں کی منصوبہ بندی کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔ابھی تک صرف طورخم اور چمن کے راستے محفوظ بنائے گئے ہیں۔بغیر کاغذات کی چیکنگ کے اب ان دونوں راستوں سے سرحد پارکرنا ناممکن ہوگیا ہے۔باقی ماندہ آنے جانے کے راستوں پر بھی ایسے ہی گیٹ تعمیر ہونا ضروری ہیں۔افغانستان کو بھی اب سرحد محفوظ بنانے کا احساس ہورہا ہے۔پاکستان اس کام کی طرف زیادہ توجہ دے اور تمام معروف راستے جو20۔سے زیادہ ہیں ان پر ایسے ہی گیٹ تعمیر کرے جیسے طورخم اور چمن پربنا دیئے گئے ہیں۔2430۔لمبی سرحد کو مکمل طورپر محفوظ بنائے بغیر حملہ آوروں کو روکنا ناممکن ہوگیا ہے۔دوسرا مسٔلہ افغان مہاجرین کا ہے۔جنکو یہاں قیام کیExtensionملتی رہتی ہے۔اب آخری تاریخ 31۔دسمبر تک ہے۔سیاسی لیڈر بھی اب انکے قیام کے حامی بنتے جارہے ہیں۔حکومت پاکستان اس مسٔلہ پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلائے اور چند ماہ کی آخری تاریخ دے اور اس پر عمل درآمد کرائے۔37سال کی مہمان نوازی ایک بڑا کارنامہ ہے۔افغانستان اور عالمی برادری کو پاکستان کا خصوصی شکریہ اداکرنا چاہئے۔ہم ان 2نقاط پر بھر پور توجہ دیکر دہشت گردی کے بیرونی اسباب کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ملک کے اندر شدت پسندی کے Mindsetکاخاتمہ بھی بڑا اہم ہے۔درس گاہیں چاہے دینی علوم کی ہوں یا جدید علوم کی،شدت پسندی کے رحجانات دونوں جگہوں پر پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔لیکن مذہبی درسگاہوں میں یہ رجحانات اب تک زیادہ پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ایسی صورت حال رہے گی۔اس کا حل یہی ہے کہ مشرف دور کے "مدرسہ بورڈ"کے ساتھ تمام دینی درس گاہوں کا الحاق بذریعہ پارلمنٹ لازمی کردیاجائے۔نصاب بدلنا آسان ہو جائے گا۔ترکی کی طرح ریاستی کنٹرول میں دینی تعلیم کا یہی ایک طریقہ ہے شدت پسندی کے رجحانات کو کنٹرول کرنے کا۔پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں دینی تعلیم پر ریاستی کنٹرول" Day One"سے ضروری تھا۔اس طرح فرقہ واریت پیدا نہ ہوتی۔دہشت گردی کی ایک قسم کا تعلق فرقہ واریت سے بھی ہے۔اس کا واحد حل تمام دینی اداروں پر مکمل ریاستی کنٹرول۔یہاں سے جب ایک نصاب پڑھ کرایک ہی طرح کے طلباء نکلیں گے تومعاشرے میں اختلافات کے رویے بھی کم ہونگے۔قرآن و مستند احادیثوں کو جدید سماجی علوم اور قدرتی علوم کے ماحول میں پڑھا یا جائے اور اگر ہم پاکستانی دونوں طرح کے علوم کو ایک چھت کے نیچے پڑھانے کا انتظام کرلیں تو دہشت گردی کی ماں یعنی شدت پسندی کی ماں ہی مر جائے گی۔آرٹیکل میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے صرف3۔تجاویز دی گئی ہیں۔اس پر مزید گفتگو کسی اور مضمون میں کی جائیگی۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.