فرقہ پرست طاقتوں کے بڑھتے جنون کو نہ صرف ہمیں بلکہ تمام
سیکولر طاقتوں کو بڑی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔یہ طاقتیں بڑی منظم اور
طے شدہ لائنوں پر اپنا کام کرتی جارہی ہیں اور انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے
، گذشتہ دنوں مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات میں ہوئی ان کی کامیابی اس بات
کا کھلا ثبوت ہی تو ہے کہ وہ اپنی فسطائی تحریکوں کے بل پر بڑی حد تک نام
نہاد ہی سہی سیکولر پارٹیوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب رہی ہیں ۔ایسا
نہیں ہے کہ یہ کامیابیاں ان کی جھولی میں یونہی چلی گئی ہیں ، بلکہ اس کے
حصو ل کیلئے وہ برسہا برس سے انتہائی صبر آزما حالات سے گزرتی ہوئی اپنے
مشن کی تکمیل میں جٹی ہوئی ہیں ۔آر ایس ایس کا ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے
کہ اپنے حامیوں اور ممبران کی تعداد اس قدربڑھا لی جائے کہ کہمستقبل میں
انہیں کسی طرح کی پریشانی نہ ہو اور وہ نہایت آسانی کے ساتھ عنان حکومت
اپنے ہاتھوں میں لے سکیں پھر اپنے مجوزہ آئین و قوانین کی بنیاد پر ایک
مضبوط سیاسی امپائر کھڑا کرسکیں ۔ان کو یہ تحریک جرمن نازی ازم سے ملی جس
کا انہوں نے بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے ، جرمن ڈکٹییٹر ہٹلر نے بھی یہی
طریقہ ٔ کار اپنا یا تھا، جرمن مقتدرہ سے براہ راست تصادم کے بجائے ایک
طویل مدت تک وہ نازی تحریک کے ذریعے جرمن عوام کے دلوں پر اپنے فکری اثرات
مرتب کرتا رہا جب اسے اپنے ارادوں میں خاطر خواہ کامیابی نظر آنے لگی تب
آسانی سے اس نے اقتدار پر قبضہ جمالیا اور ایک طویل عرصہ تک اپنی من چاہی
حکومت کرتا رہا ۔وہی حکمت عملی آج آرایس ایس کی عملی غذا بنی ہوئی ہے
۔مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی اور شیو سینا کی حالیہ کامیابی
اسی تحریک کے تناظر میں بہ آسانی دیکھی جاسکتی ہے جسے سنجیدگی سے سمجھنے
کی ضرورت ہے ۔بلدیاتی الیکشن کل دس کارپوریشنوں میں ہوئے جس میں ممبئی اور
تھانے کو چھوڑکر جہاں شیو سینا کو سبقت حاصل ہوئی بقیہ آٹھ بلدیوں میں بی
جے پی کو مکمل اکثریت مل گئی کہیں کہیں این سی پی کو کچھ زائد نشستیں ضرور
ملی ہیں لیکن کانگریس جیسی قومی پارٹی سمیت دیگر سیکولر جماعتوں کو زبردست
ہزیمت اٹھانی پڑی ۔
فی الوقت اترپردیش کے انتخابات سامنے ہیں جہاں اب تک پانچ مرحلوں کے
انتخابات ہوچکے ہیں ابھی دو مرحلے اور ہیں ، ذرا غور کریں کہ وہاں بی جے پی
اور اس کے حامیان کیسے کیسے غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال
کررہے ہیں اس کے سطحی قسم کے لیڈران الیکشن کمیشن کے وضع کردہ اصول و
قوانین کی نہ صرف دھجیاں اڑا رہے ہیں بلکہ معاشرتی و سماجی سطح پر ہندومسلم
منافرت پر مبنی بیانات دے کر ملک کے دستور و آئین کو بھی پیروں تلے روند
رہے ہیں لیکن نہ تو حکومت ہند اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو اتنی جرأ ت ہوسکی
کہ وہ ان پر قانونی شکنجے کس سکیں ۔روک تھام تو دور کی بات ان پر مواخذے تک
کی ہمت نہیں دکھائی دیتی ۔گذشتہ دنوں وزیراعظم کے اس بیان پر کہ جہاں
قبرستانوں کیلئے زمین الاٹ کی جائے وہیں شمشان کیلئے بھی زمین دی جائے بڑی
حد تک ایک متوازن اور قابل قبول بات ہوسکتی ہے لیکن اسی بی جے پی کے
ممبرپارلیمنٹ ساکشی مہاراج جو اپنے انتہائی اخلاق سوز اورمبنی بر شیطنت
بیانات کیلئے مشہور ہیں یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ قبرستان ہی نہ بنائے جائیں
بلکہ صرف شمشان ہوں اور ہندومسلم سکھ اور عیسائی سبھی کی آخری رسومات وہیں
ادا کی جائیں اور اگر قبرستانوں کیلئے اسی طرح زمینیں الاٹ کی جاتی رہیں تو
پھر کھیتیاں کہاں کی جائیں گی اور کھلیان کہا ں ہونگے ۔اس سے قبل ۶؍جنوری
کو ان کا بیان آیا تھا کہ ملک کے بے تحاشا بڑھتے مسائل دراصل بڑھتی آبادی
کے سبب ہیں اور اس کے ذمہ دارصرف مسلمان ہیں جو چار چار شادیاں کرتے ہیں
اور چالیس چالیس بچے پیدا کرتے ہیں ۔وہیں گورکھپور پارلیمانی حلقہ سے ممبر
پارلیمنٹ یوگی ادتیہ ناتھ جو اپنی دریدہ دہنی اور ہندومسلم منافرت پھیلانے
میں شہرہ ٔ آفاق ہیں ،انہوں نے نیوز 18 انڈیا سے ایک بات چیت کے دوران کہا
کہ اترپردیش کی ایس پی سرکار ہندوؤ ںکے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک کررہی ہے
اور اکھلیش نے دلتوں کے تعلیمی مسائل کی تکمیل کیلئے مختص رقومات مدرسوں کو
دے دی ہے ۔دیوا شریف کی درگاہ کو جب ۲۴؍گھنٹے بجلی فراہم کی جاسکتی ہے تو
مہادیو مندر کو یہ سہولت کیوں نہیں دی جارہی ہے ۔اترپردیش کی ترقی کیلئے
مختص فنڈ قبرستانوں کی دیواروں پر خرچ کئے جارہے ہیں ۔اسی طرح ان کا یہ بھی
کہنا ہے کہ اگر بی جے پی کامیاب ہوتی ہے تو رام مندر کی تعمیر کیلئے ساری
روکاوٹیں دور ہو جائیں گی ،لیکن اگر ایس پی اور بی ایس پی کی حکومت بنتی ہے
تو پھر پوری ریاست میں سوائے کربلاؤں اور قبرستانوں کے کوئی کام ہی نہیں
ہوگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ بی جے پی کے ہاتھوں کو مضبوط کریں تاکہ رام
مندر کا خواب پورا کیا جاسکے جو اس ملک کے ہندوؤں کی دیرینہ تمنا ہے ۔ان
حالات کے تناظر میں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ فسطائی طاقتوں کے زہریلے
بیانات کے پیش نظر ہماری سیکولر جماعتیں کیا کررہی ہیں ۔انتخابات ہوتے ہیں
تو درجنوں کی تعداد میں مختلف جماعتوں سےسیکولر امیدواروں کی بھیڑ سی لگ
جاتی ہے جس سے سیکولر مزاج اور امن پسند عوام شدید ذہنی اضطراب میں مبتلا
ہوجاتے ہیں اور بالآخر ووٹوں کی تقسیم کا کربناک عمل شروع ہوجاتا ہے ۔کسی
بھی انتخاب کا اوسط نکالیں تو معلوم ہوگا کہ فرقہ پرستوں کو ملنے والوں
ووٹوں سے کئی گنا زیادہ ووٹ سیکولر امیدواروں کے حق میں پڑتےہیں لیکن منتشر
ہونے کے سب وہ اپنی وقعت کھودیتے ہیں ۔ ایسے میں حضرت علی ؓ کا ایک قول یاد
آتا ہے جب انہوں نے اپنے عراقی ساتھیوں سے کہا تھا کہ ہم حق پر ہوتے ہوئے
منتشر ہیں اور وہ باطل پر ہیں لیکن متحد ہیں ۔ہم جب تک اس راز سے واقف نہ
ہوں گے ، چاہے جتنا زور لگالیں ناکامی ہی ہمارا مقدر ہوگی ، آخر اتنی
چھوٹی سی بات ہماری سمجھ میں کب آئے گی ۔آپ سن رہے ہیں نا ! |