پختونوں کے خلاف آپریشن!!

آپریشن کو ناکام بنانے کی یہ ایک کڑی ہے۔ کے پی کے اسمبلی نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک قرارداد منظور کی۔ جس میں ملک میں شروع تلاشی آپریشن کی مذمت کی گئی۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک بھر بالخصوص پنجاب میں آپریشن کا نشانہ پختون قوم ہے۔ یا اس کا ہدف افغان ہیں۔ یا کسی ایک خاص قوم کو کسی امتیازی سلوک کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ کے پی کے اسمبلی نے پنجاب، سندھ، آزاد کشمیر اور ملک کے دیگر علاقوں میں پختونوں کی گرفتاریوں کی بھی مذمت کی ہے۔ یہ تاثر پھیلا ہے کہ پختونوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جا رہا ہے۔ جسے فوری طور پر بند کیا جائے۔ یہ بھی تاثر دیا جا رہا ہے کہ ملک میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی میں افغانوں اور قبائلی علاقوں کے شر پسند عناصر ملوث ہیں۔ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی مسلم لیگ ن کی حکومت پر سر عام الزامات لگا رہی ہیں۔ یہ پارٹٰیاں پتہ نہیں کن وجوہات سے یہ سب الزامات عائد کرتی ہیں۔ یہاں تک کہجماعت اسلامی کے سربرای علامہ سراج الحق نے لاہور میں جرگہ بلانے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ جس کی وہ تیاریوں میں مصروف ہیں۔

پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور دیگر پارٹیوں کو مسلم لیگ ن سے سیاسی اختلافات ہیں۔ تا ہم یہ کوئی نہیں جا ن سکتا ہے کہ کوئی پارٹی کسی نسل، فرقے یا لسانی بنیادوں پر ملک میں نفرت اور تعصب کو ہوا دینے کا باعث بنے گی۔ اگر ایسا ہو رہا ہے تو یہ بلا شبہ ملک دشمنی ہو گی۔ ملک کے عوام چاہے وہ کسی بھی فرقے ، زبان اور علاقے سے تعلق رکھتے ہوں ، سب محب وطن ہیں۔ پختون قوم بھی محب وطن ہے۔ اس قوم نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اس قوم کا بھی اس لئے سب سے زیادہ استحصال کیا گیا کیوں کہ یہ پاکستان اور اسلام پسندی میں بھی سب سے آگے ہے۔ مگر یہ الزام شاید درست نہ ہو کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف شروع کسی آپریشن کا نشانہ کوپختون ہی ہوں۔ اس کا نشانہ صرف دہشت گردی ہی ہے۔ ملک میں یہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کس نے شروع کی۔ اس کا ماسٹر مائینڈ کون ہے۔ یہ کیسے ختم ہو سکتی، یہ سب کام اس کی وجوہات کو ختم کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا ہے۔ مگر ایسا بھی درست نہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی گروہ اپنے مفاد میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنائے۔ ریاست کے اندر ریاست تشکیل دینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جانی چاہیئے۔ کوئی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شکوہ ہے کہ وہ شر پسندوں کو گرفتار کرتے ہیں اور عدالتیں انہیں رہا کر دیتی ہیں، تو پھر بھی ان تحفظات کی وجہ سے کوئی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا ہے۔ انصاف کی فراہمی اور سزا صرف عدالتون کا کام ہے۔ سول عدالتوں پر اعتماد کا نہ ہونا بھی ملکی قوانین پر عدم اعتماد کا اظہار ہو گا۔اسی وجہ سے فوجی عدالتوں کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ اصل خرابی کو دور یا اس میں ترامیم کے بغیر ہی یا اس کی موجودگی میں ہی نئے قوانین کی ضرورت کے پیش نظر اس میں سقم محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ جس پر مفصل روشنی دالنے کی ضرورت ہے۔

یہ المیہ ہے کہ ایک صوبے کی اسمبلی کو ملک میں منافرت یا تعصب کو اجاگر کرنے کے لئے بروئے کار لایا گیا ہے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ پنجاب اور وفاق مسل لیگ ن کے پاس ہے۔ سیاسی اختلاف کو اداروں کے اختلاف میں تبدیل نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر ملک میں کسی بھ جگہ آپریشن میں پختون نشانہ بن رہے ہیں یا ان کو ہی امتیاز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو بلا شبہ یہ سب قابل مذمت ہے۔ مگر افواہوں اور سازشوں کو منتقل کرنا اور پھیلانا بھی ملک دشمنی ہو گی۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو براہ راست نشانہ بنانا ہے۔ پنجاب کی پولیس یا دیگر فورسز کسی ایک پارٹی کے نہیں ۔ یہ ملک کا ہی اثاثہ ہیں۔ اسی طرھ سندھ اور کے پی کے کا معاملہ ہے۔ اگر پنجاب کے قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلم لیگ ن، سند پی پی پی اور کے پی کے کو پی ٹی آئی کی ملکیت سمجھ لیا جائے تو یہ ملک دشمنی ہو گی۔ قانو نا فذ کرنے والے ادارے اس ملک کے عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ یا مراعات لیتے ہیں۔ و ہ کسی ایک پارٹی کے زاتی غلام نہیں۔ اگر ایسا ہی تو و ہ کیوں کسی پارٹی کی ہدایت پر ملک کے کسی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھ سکتے ہیں۔ اگر ایسا ثابت ہوتا ہے تو ان کی نوکری کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ وہ نہ صرف نوکری سے برطرف ہوں گے بلکہ قرار واقعی سزا بھی ملے گی۔ قانون اور انصاف کی پاسدار ریاستوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ قانون سے کوئی بالا تر نہیں ہو سکتا ۔ چاہے وہ کوئی جنرل یا آئی جی ہو یا کوئی نائب قاصد یا خاکروب۔

وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون نے اس بارے میں وضاحت کی ہے۔ اگر الزامات ہیں تو ٹھوس شواہد بھی ہوں گے ورنہ ملک میں تعصب اور نفرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیئے۔ پاک فوج کو بھی سامنے آنا پڑا ہے۔ وہ بھی اسے سازش سے تعبیر کرتی ہے۔ اگر صوبائی تعصب اور لسانی نفرتوں کو ہوا دینے سے کسی کی سیاست چمک سکتی ہے تو یہ بھی المیہ ہو گا۔ سرچ آپریش کے طریقہ کار کو صافا و شفاف ہو نا چاہیئے تا کہ کوئی بے گناہ اس کی لپیٹ میں نہ آسکے یا کسی کو نفرت پھیلانے کا موقع نہ مل سکے۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہو اتو بھی قانون نافز کرنے والے ادارے ہی نہیں بلکہ موھودہ حکومت بھی اس کے نرخے میں آئی گی۔ ملک کا شہری جہاں چاہے جا سکتا ہے۔ تعلیم ، کاروبار یا ملازمت کے لئے وہ اپنی من پسند جگہ کا انتخاب کرنے میں آزاد ہے۔ کوئی اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ پنجاب یا سندھ، بلوچستان یا کے پی کے پر حق اس ملک کے ہر ایک شہری کا ہے۔ افسوس ہے ملکی سالمیت اور یک جہتی کو فروغ دینے کے بجائے سیاست چمکانے کے لئے لسانی یا صوبائی تعصب اور نفرتوں کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا اس ملک کے عوام اتنے معصوم اور شعور سے عاری ہیں کہ وہ سازشیوں کے بہکاوے میں آجائیں گے۔؟آپریش ردالفساد کا مقصد صرف دہشتگردی کو رد کرنا یا اسے جڑسے اکھاڑنا ہے۔ دیہات ہی نہیں بلکہ شہروں میں لوگوں کی زاتی دشمنیاں بھی ہوتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی دشمنیاں کرسکتے ہیں ۔ زاتی دشمنی یا عداوت یا سیاسی مخالفت کی بنیاد پر کسی آپریشن کا رخ موڑنے کی کسی کو اجازت نہیں ملنی چاہیئے۔ اگر کسی سے زیادتی ہو رہی ہے تو اس کا ازالہ بھی ہونا چاہیئے تا کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 557007 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More