پچھلے چندماہ سے پاک افغان تعلقات میں بہتری اورامن کی
طرف پیش قدمی ہورہی تھی جس کی ایک واضح مثال حزبِ اسلامی کے امیرگلبدین
حکمت یارکی رہائی اوراقوام متحدہ اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے ان کانام
بلیک لسٹ سے نکالنے کے اعلان کے بعد خطے کے امن سفرکی شروعات کی امیدہورہی
تھی لیکن ایک مرتبہ پھرامن کی دشمن قوتوں نے ایک اوچھاوارکرتے ہوئے اپنے
ایجنٹوں کے توسط سے پاکستان میں اچانک دہشتگردی کی وارداتوں کاآغازکرکے
اپنے خوفناک اوربھیانک چہرے سے نقاب نوچ پھینکا ہے جس کے نتیجے میں
خیبرپختونخواہ ،سندھ اورپنجاب میں ہونے والے حملوں کے بعد افغانستان کے
سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف پاکستانی سیکورٹی اداروں کی کاروائی
اورپاکستانی حکومت کی جانب سے ۷۶مطلوب افرادکی لسٹ دینے،افغانستان کی جانب
سے جواب میں ۸۶افرادکی لسٹ دینے اورایک دوسرے پرالزامات اورپاکستان کے خلاف
افغانستان میں مظاہرے کرانے کے نئے سلسلے سے پاک افغان تعلقات میں کشیدگی
بڑھ رہی ہے۔
افغان حکومت نے پاکستانی مطالبات ماننے کی بجائے دشمن طاقتوں کی ایماء پر
جوابی الزامات لگا کرحالات میں کشیدگی پیدا کر دی ہے۔اس کشیدگی کا سب سے
بڑافائدہ پاکستان کے ازلی دشمن جہاں بھارت کوہواہے کہ اس کی آڑمیں مقبوضہ
کشمیر میں ہونے والے مظالم سے وہ اقوام عالم کی توجہ ہٹانا چاہتاہے۔ وہاں
وہ اپنے اتحادیوں کے مشترکہ پروگرام کے تحت پاک چین کوریڈورکی تعمیرکو
روکنے کی ناکام کوشش کررہاہے جبکہ اس واقعے کے فوری بعدتاجکستان نے
افغانستان کوبائی پاس کرتے ہوئے پاک چین کوریڈورکو"کیوٹی ٹی اے" کے تحت
براہِ راست سڑک کے ذریعے وسطی ایشیا(چین،پاکستان، کرغیزستان،قازقستان)سے
ملانے کیلئے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔یادرہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان
۲۰۱۱ءمیں تجارت کاحجم ۱۵ملین ڈالرسے بڑھ کر۲۰۱۶ء میں۹۰ملین ڈالر تک پہنچ
گیاہے جبکہ اس معاہدے کی تکمیل کے بعدیہ دونوں ممالک کاتجارت کا حجم آسانی
کے ساتھ ۵۰۰ملین سے زائدتک بڑھ جائے گا۔
ادھرسانحہ لاہوراورسہون کے بعددہشتگردوں کی سرحدپارسے آمدورفت روکنے کیلئے
پاک فوج نے افغان سرحدسے متصل علاقوں پرسیکورٹی مزید سخت کرکے بھاری توپ
خانہ بھی پہنچادیاہے۔یادرہے کہ گزشتہ برس پاک افغان پورس بارڈرجہاں پچھلی
سات دہائیوں سے روزانہ تیس سے چالیس ہزارافراد بغیر کسی شناختی دستاویزات
کے سفرکرتے تھے، اس کو سختی سے بندکردیاگیاتھاکیونکہ جہاں آپریشن ضربِ عضب
کی کامیابی کاتقاضہ تھاوہاں باقاعدہ دونوں ملکوں کے درمیان عالمی قوانین
وقواعدکے مطابق یہ بہت ضروری اور ساری قوم کا برسوں سے مطالبہ تھا۔سرکاری
ذرائع کے مطابق ملک میں جاری حالیہ دہشتگردی کی لہرکے پیش نظرجہاں ملک
بھرمیں سیکورٹی انتظامات سخت کردیئے گئے ہیں وہیں چنددنوں میں ہونے والے
دہماکوں کے تانے بانے افغانستان سے ملنے کے ٹھوس شواہدکے بعدسیکورٹی
فورسزنے پاک افغان سرحدپردہشتگردوں کی نقل وحرکت روکنے کیلئے مؤثر نگرانی
کافیصلہ کیا ہے۔
بھاری آرٹلری اورسیکورٹی فورسزکی تعدادمیں غیرمعمولی اضافے کے بعدتادمِ
تحریرپاک افغان سرحدپرہرقسم کی آمدو رفت معطل ہے اوردوسری جانب خیبر ایجنسی
کے تمام راستوں اورناکوں پرنگرانی سخت کردی گئی ہے۔خیبرایجنسی سرحد کئی
روزسے بندہے جس کی بنا پردونوں جانب مال بردارگاڑیوں کی طویل قطاریں
سرحدکھلنے کی منتظرہیں۔ادھرچمن میں بابِ دوستی بندہونے سے نیٹو سپلائی
اورپاک افغان ٹرانزٹ کاسلسلہ مکمل طورپرمنقطع ہے اور پیدل جانے والے
افرادکوبھی سرحدعبورکرنے کی اجازت نہیں۔کورکمانڈر پشاور لیفٹیٹنٹ جنرل
نذیربٹ نے خیبرایجنسی میں لوئے شلمان اوراگلے مورچوں پرتعینات جوانوں سے
ملاقات کرکے ان کی آپریشنل کارکردگی پرمکمل اطمینان کا اظہار کیا۔دوسری
جانب پاک افغان سرحدپرہرقسم کی غیرقانونی نقل و حرکت یاغیر قانونی
طورپرداخل ہونے والوں کوموقع پرہی گولی مارنے کاحکم دے دیاگیاہے۔
آرمی چیف کاکہناہے کہ پاک افغان سرحدپرسیکورٹی انتظامات میں اضافہ مشترکہ
دشمنوں سے مقابلے کیلئے ہے۔ دہشتگردکسی رنگ ونسل سے ہوں مشترکہ دشمن
ہیں،پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑی ہے اور پاکستان
اورافغانستان دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کوششیں جاری رکھیں گے۔ آرمی چیف نے
مؤثرسرحدی نظام کیلئے مربوط رابطوں کی ہدائت کرتے ہوئے کہاکہ سرحدی نظام
کیلئے افغان سیکورٹی فورسزسے تعاون کیا جائے ۔ پاک افغان سرحدپر دہشتگردوں
اورہرقسم کی غیرقانونی نقل وحرک مکمل طورپر روکی جائے۔پاکستانی حکومت نے
افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں غیرمعینہ
مدت تک پاک افغان سرحدبند کرنے پرغورشروع کردیا ہے لیکن آج مشیر خارجہ نے
اگلے چنددنوں میں سرحدکو کھولنے کاعندیہ تودیاہے لیکن پاکستانی قوم
کامطالبہ ہے کہ ملکی مفادکو ہرلحاظ سے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تمام اداروں
کے باہمی مشورے کے بعدنتائج کے حصول تک کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ کیا جائے۔
پاکستانی قوم کواس بات کاشدیداحساس ہے کہ اس عمل سے عام افغان شدید مشکلات
کاشکارہوسکتے ہیں اورپاک افغان تجارت بھی تباہ ہوجائے گی۔ افغانستان کی
زیادہ تجارت کاانحصارپاکستان پرہے اورغیرسرکاری سطح پریہ تجارت اربوں روپے
پرمحیط ہے جس سے دونوں ممالک کوفائدہ ہورہاہے،خاص کر افغانستان میں اشیائے
خوردونوش کی قیمت پاکستان سے جانے کی وجہ سے کم ہوتی ہے جبکہ روس اورایران
سے منگوانے کی صورت میں اس کی قیمت کافی بڑھ جاتی ہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ
افغان حکومت ہوش کے ناخن لیتے ہوئے پاکستان دشمنوں کے ہاتھوں کھیلنے کی
بجائے ان دہشت گردوں کے خلاف جلدازجلد مشترکہ کاروائیاں شروع کرے اوربھارت
اورامریکاکے اکسانے پراپنا اوراپنی عوام کو مزید نقصان سے محفوظ رکھے
اوراپنی قوم کے مستقبل اور خوشحالی کیلئے اپنے آزمائے ہوئے برادرمسلم
پاکستان کے احسانات کو یادرکھے کہ وہ پچھلی تین دہائیوں سے زائد افغانوں
کونہ صرف اپنے ہاں پناہ اور کاروبار کی اجازت دی بلکہ موجودہ حکومت کوبھی
اب تک ایک ارب ڈالرکی امدادفراہم کرچکی ہے۔
منگل کے روزخیبرپختونخوہ کے صوبائی دارلحکومت پشاورکے قریب واقع ضلع چارسدہ
میں ایک بارپھرخودکش حملے نے کئی سولات اٹھائے ہیں اور اس واقعہ نے
مزیدسوالات کوجنم دیا ہے کیونکہ یہ ضلع پاکستان کے قبائلی زیرانتظام مہمند
ایجنسی جوافغانستان کے صوبہ ننگرہارکے قریب واقع ہے۔ ۲۰۱۵ء میں پہلی مرتبہ
افغانستان کے پانچ صوبوں ہلمند،ذبول،فرح،لاگراورننگرہارمیں داعش کا وجود
دیکھاگیا۔پہلے نصف میں داعش مشرقی صوبے ننگرہارمیں بڑے خطے کا کنٹرول
سنبھالنے میں کامیاب رہی جس کی دووجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ داعش کی اہم
قیادت کا ٹھکانہ یعنی پاکستان کے قبائلی علاقوں کے قریب تھااوردوسرا یہاں
داعش کے مسلک سلفی/وہابی اسلام کے پیروکاروں کی تعداد قدرے بہتر تھی۔
داعش شمالی افغانستان میں بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے جہاں اس
کاہدف وسطی ایشیا میں چیچن اورچینی اوغرجنگجوؤں سے روابط قائم کرناہے
مگرافغان طالبان کی کارروائیوں اورنیٹوفوج کی کوششوں کی وجہ سے جنوبی
اورمغربی افغانستان سے تنظیم کاصفایاہوگیاہے۔گذشتہ چندماہ میں مشرقی
افغانستان میں بھی اس کے ہاتھ سے کچھ علاقہ نکل گیاہے مگرننگرہاراورکنڑ کے
کچھ علاقوں پراب بھی اس کاکنٹرول ہے جہاں سے حملوں کی منصوبہ بندی
اورجنگجوؤں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
اب ان حالات میں اگرپاکستان اورافغانستان میں تناؤبڑھ گیاتواس سے مشکلات
میں نہ صرف اضا فہ ہوگابلکہ سیکورٹی اداروں نے برف باری سے بند ہونے والے
راستے کھلنے کے بعدمزیدحملوں کابھی خدشہ ظاہرکیاہے۔مہمندایجنسی،باجوڑ
ایجنسی،دیرلوئر،چترال،خیبرایجنسی،جنوبی وزیرستان،غلام خان اور شمالی وزیر
ستان کے ذریعے افغانستان سے آنے والے راستوں پرخصوصی سیکورٹی دستوں کوہرقسم
کاتمام اسلحہ فراہم کرتے ہوئے پیش بندی کے طور پرخصوصی اختیارات دیئے ہیں
کہ غیرقانونی راستے سے پاکستان میں داخل ہونے والے افرادکوموقع پرفوری گولی
ماردی جائے ۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں جمع ہوئے درجنوں خوارجیوں کوطیاروں سے
نشانہ بناکرجہنم واصل کردیاگیا اوریوں پاکستان نے افغانستان سے غیرمعروف
راستوں سے داخل ہونے والوں کے خلاف سخت کاروائی کانہ صرف فیصلہ کیا ہے بلکہ
اس پرعملدرآمدبھی شروع کردیا گیا ہے لیکن اس خطرے سے نمٹنے کاآخری
اورواحدطریقہ یہی ہے کہ اس آگ کی تپش کوپوری قوت کے ساتھ دشمن کی سرزمین
پرمنتقل کیاجائے اوراس فیصلے میں تاخیرایک قومی جرم سے کم نہ ہوگا۔ |