امریکی صدر عدلیہ کے سامنے بے بس ۰۰۰

ہند ۔ اسرائیل تعلقات میں مزید قربیتیں ۰۰۰ نریندر مودی کا دورہ اسرائیل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب ایک نئے صدارتی حکم نامے پر دستخط کردیئے ہیں جس کی رو سے چھ مسلم ممالک یعنی ایران، لیبیا، شام، سوڈان، یمن اور صومالیہ کے شہریوں پر 90روز کے لئے امریکہ کے نئے ویزے کے حصول پر پابندی لگادی گئی ہے۔ اس حکم نامہ کے مطابق وہ افراد جن کے پاس پہلے سے ویزا موجود ہے وہ امریکہ جاسکتے ہیں۔ اس سے قبل جاری کئے گئے صدارتی حکم نامہ میں عراق پر پابندی عائد کی گئی تھی جبکہ اس نئے حکم نامہ میں عراق کا نام حذف کردیا گیا ہے۔ نئے صدارتی حکم نامے کے مطابق پناہ گزینوں پر 120دن کی پابندی لاگو ہوگی جبکہ اس حکم نامے کا اطلاق 16؍ مارچ سے ہوگا۔ اس سے قبل صدرٹرمپ کی جانب سے جنوری میں سات مسلم ممالک پر پابندی عائد کردی گئی تھی جس کے بعد ملک بھر میں مظاہرے دیکھے گئے اور امریکہ کے ہوائی اڈوں پر شدید افراتفری کا عالم تھا تاہم اس حکم نامہ کو فیڈرل کورڈ نے معطل کر دیا تھا اس کے بعد امریکی اپیل کورٹ نے صدر ٹرمپ کے اس حکم نامہ کی معطلی کا فیصلہ جو لوئر کورٹ نے دیا تھا برقرار رکھا اور اس پر نائنتھ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز کا کہنا تھا کہ وہ لوئر کورٹ کی جانب سے کئے گئے صدارتی حکم نامے کی معطلی کے فیصلے کو تبدیل نہیں کرسکتی اس عدالتی فیصلہ کے خلاف ٹرمپ نے شدید غصے کا اظہار کیا تھا اور نئے صدارتی حکم نامے کا عندیہ دیا تھا ۔ اب نئے صدارتی حکم نامہ میں مختلف ترمیمات کی گئی ہیں۔ ان چھ مسلم ممالک کے شہریوں پر مزید 90روز کیلئے سفری پابندی عائد کی گئی ہے۔ نئے حکم نامہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے منظور شدہ پناہ گزینوں کو ملک میں داخلے کی اجازت ہوگی تاہم ان کی تعداد اس سال کے لئے زیادہ سے زیادہ 50ہزار تک محدود کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ نئے حکم نامے میں شامی پناہ گزینوں کی امریکہ داخلے پر مکمل پابندی ہٹالی گئی ہے جبکہ گرین کارڈ رکھنے والے ان مذکورہ ممالک کے شہریوں پر یہ پابندی اثر انداز نہیں ہوگی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے حکم نامہ کے بعد یہ بات صاف ہوجاتی ہے امریکہ کا عدلیہ نظام کتنا مضبوط اور مستحکم ہے ایک لوئر کورٹ کے فیصلہ کی رو سے سوپر پاور ملک کا صدراپنے ہی ملک میں اپنے حکم نامہ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا اور مجبوراً اسے اپنے فیصلہ میں ردّوبدل کرنا ہی پڑا اگر اسی طرح ہر ملک کی عدلیہ انصاف پسندی کو اپنائے توعالمی امن و سلامتی بحال ہوسکتی ہے اوراسی صورت میں دہشت گردی جڑ سے ختم کی جاسکتی ہے۔

ہند ۔ اسرائیل تعلقات میں مزید قربیتیں ۰۰۰ نریندر مودی کا دورہ اسرائیل
ہند ۔اسرائیل کے درمیان دوستانہ تعلقات، محبتیں، قربتیں دونوں ممالک کی ترقی و خوشحالی کے لئے ہوں تو یہ ایک فائدہ مند اقدام ہوگا لیکن اگر یہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش ہوتو یہ تعلقات دونوں ممالک خصوصاً ہندوستان کے لئے ایک ناسور سمجھے جائیں گے کیونکہ جب جب دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں پر ظلم و اذیت کے پہاڑ توڑے اس کے بعد دنیا نے دیکھا کے ایک نیا انقلاب رونما ہوا۔ ماضی کی تاریخ اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کو جتنا دبانے کی کوششیں کی گئیں اتنا ہی یہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلتا گیااور آج بھی مسلمانوں کو دہشت گرد یا اسلام کو دہشت گرد مذہب کی حیثیت سے پیش کرنے کی دشمنانِ اسلام کوشش کررہے ہیں اور اس میں انہیں ناکامی و رسوائی ہورہی ہے۔گذشتہ دنوں عالمی سطح پر اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ میں سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکہ میں آمد پر پابندی عائد کردی گئی جس کے جواب میں مغربی و یوروپی ممالک میں ٹرمپ کے خلاف شدید احتجاج دیکھا گیا اور اس احتجاج کرنے والوں میں کئی مذاہب کے لوگ شریک تھے یہی نہیں بلکہ وائٹ ہاؤ زکے سامنے غیر مسلم احتجاجیوں نے نماز ادا کرکے ٹرمپ کی مسلم دشمنی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ہندوستان میں بھی گجرات فسادات اور بابری مسجد کی شہادت میں حصہ لینے والے بعض ہندوؤں نے اپنے اس گھناؤنے جرم کا اعتراف کرنے کے بعد مذہب اسلام قبول کیا۔ ایسی کئی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں بلکہ آج بھی دیکھنے میں آرہی ہیں۔ آغازِ اسلام سے ہی مسلمانوں نے سخت اذیتیں برداشت کیں ، اپنے دشمنوں کے خلاف خاموشی اختیار کرتے رہے لیکن جب ہجرت کے لئے اﷲ رب العزت کا حکم آگیا تو خاموشی سے اپنے گھر بار ، جائیدادا اور سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کئے۔ اس کے بعد بھی مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رہا ، پھر اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی جان ومال کی حفاظت کا حکم دیا ۔آج بھی مسلمان دشمنانِ اسلام کی ظلم و بربریت پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اگر اقوام عالم کے مسلمان متحدہ طور پر دشمنانِ اسلام کے خلاف صف بستہ ہوجائیں تو عالمی سطح پر ہر ایک بشر انسانی کا جینا حرام ہوجاتا۔ مسلمانوں نے جس صبر و استقامت سے کام لیا ہے ، لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ مسلمانوں نے کبھی اپنے دشمنوں پر حملہ کرنے میں پہل نہیں کی لیکن جب کبھی مسلمانوں پر حملہ کیا گیا تو اسکا جواب مسلمانوں نے بہادری ، شجاعت مندی اور دانشورانہ و دلیرانہ طریقہ سے دیا ہے۔ عراق، افغانستان ، شام، پاکستان وغیرہ کے حالات بھی آج دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا ہی نتیجہ ہے ورنہ آج عالمِ اسلام خصوصاً مشرقِ وسطی میں دکھائی دینے والی شدت پسندی یا دہشت گردی کا وجود ممکن نہ ہوتا۔ مسلم نوجوان اور بچوں نے گذشتہ دو دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ان ممالک میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی جارہی ہے۔ ایک طرف مغربی و یوروپی طاقتیں خطرناک ہتھیاروں کا استعمال کرکے لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اور انکی کروڑہا ڈالرس کی جائیدادوں کو ملیامیٹ کردیا یہی نہیں بلکہ اسلامی تاریخ و تمدن کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ تو دوسری جانب نام نہاد شدت پسند تنظیمیں مسلمانوں پر ہی حملے کرکے معصوم مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں۔ ان شدت پسند نام نہاد جہادی تنظیموں کے پیچھے بھی دشمنانِ اسلام کا ہاتھ بتایا جارہا ہے کیونکہ اسلام میں کسی بھی فرد کو ناحق قتل کرنے سے سخت منع کیا گیا ہے۔ آج مسالک کی بنیاد پر قتل عام کیاجارہا ہے اور یہی ایک بڑی سازش ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں کارگر ثابت ہورہی ہے۔ پاکستان ، افغانستان، شام، عراق، یمن میں بھی مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کا قتل عام کروایا جارہا ہے۔ دشمنانِ اسلام ان عرب ممالک کے حکمرانوں کواس قدر کمزور و ناتواں کرچکے ہیں کہ انہیں اپنے اقتدار پر فائز رہنے کے لئے مغربی و یوروپی طاقتوں کے سایہ میں رہنے کی ضرورت پیش آرہی ہے یعنی ان مغربی ویوروپی ممالک سے کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار صرف اور صرف اپنی حفاظت و دفاع کے لئے خریدے جارہے ہیں۔ اس طرح عالمِ اسلام میں خوف اور دہشت گردی کا ماحول پیدا کرکے اسے تقویت دی گئی اور آج اس کے ذریعہ مغربی و یوروپی طاقتیں اپنی آمدنی کا ایک بہترین ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشی طور پر مستحکم دکھائی دینے والا ملک سعودی عرب گذشتہ دو سال سے اپنا بجٹ خسارہ میں بتارہا ہے۔ کیونکہ سعودی عرب نے شام، یمن کی لڑائی میں حصہ لے کر اپنے آپ کو کنگال بنا چکا ہے۔ آج ہزاروں تارکین وطن سعودی عرب میں بے روزگار ہوکر اپنے اپنے وطنوں کو واپس لوٹنے پر مجبور ہیں ، سعودی عرب کے حالات انتہائی دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں ان حالات میں ہندوستان اپنے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو بحال رکھنے کا دکھاوا تو کررہا ہے لیکن ساتھ میں اسرائیل سے مضبوط تعلقات بنانے کی سعی کررہا ہے۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران ہند ۔اسرائیل کے درمیان تعلقات میں گہرائی آتی دکھائی دے رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں مزید بہتری 25سال قبل آئی اور یہی 25برس مکمل ہونے کے موقع پر ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی تل ابیب کا دورہ کرنے والے ہیں توقع ہے کہ یہ دورہ جولائی 2017میں ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندو پاک کے درمیان کارگل کی جنگ کے بعد ہندوستان کے دفاعی نظام میں اسرائیل کا رول بڑھتا گیا ۔ اس وقت ہندوستان، اسرائیل سے دفاعی سازو سامان خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ سرحدی حفاظتی نظام، قومی سلامتی اور انسدادِ دہشت گردی کے معاملات میں مشترکہ تعاون کے علاوہ ڈیری، بنجر علاقوں میں آبپاشی، زراعت و توانائی اور سائنس وٹکنالوجی کے شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ تعاون میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ہند اسرائیل تاریخ میں کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم کا اسرائیل کو یہ پہلا دورہ ہوگا اس دورے کی اہم بات یہ بتائی جارہی ہے کہ نریندر مودی ماضی کی پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے اسرائیل کے دورے کے موقع پر فلسطین کا دورہ نہیں کریں گے بلکہ انکا یہ دورہ صرف اسرائیل تک محدود ہوگا جبکہ ماضی میں کانگریس یا بی جے پی کی حکومتوں میں جب کبھی کسی ہندوستانی وزیر خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے تو وہ فلسطین کا بھی دورہ کئے ہیں۔ سابق ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور اقتدار میں یعنی 2000میں ہندوستانی وزیر خارجہ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ اسرائیل کا دورہ ہوا اس وقت جسونت سنگھ ہندوستان کے وزیر خارجہ تھے ۔ 13؍ تا 15مارچ 2015میں صدر جمہوریہ ہند پرنب مکرجی نے بھی فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کرکے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ہندوستان کے تعلقات دونوں ممالک کے ساتھ برابر ہیں۔

اس سے قبل 1997ء میں پہلی مرتبہ اسرائیلی حکومت کا صدر Ezer Weizman نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا اس وقت ہندوستان کے صدر شنکر دیال شرما، نائب صدر کے آر نارئنن اور وزیر اعظم دیوی گوڑا تھے ۔ 2003میں پہلی مرتبہ اسرائیلی وزیر اعظم کی حیثیت سے ایرئیل شیرون نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ یوں تو ہندوستان میں کانگریس کے دورِ اقتدار سے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم ہوگئے ۔ 17؍ ستمبر 1950، وزیر اعظم ہند جواہر لعل نہروکے دور اقتدار میں اسرائیل کا سفارت خانہ بمبئی میں کھولا گیا البتہ اسرائیل کو محدود سفارتی اختیارات دیئے گئے تھے اسکی وجہ عرب ممالک خصوصاً فلسطین کے ساتھ ہندوستان کے قدیم اوردوستانہ تعلقات تھے۔جواہر لعل نہرو عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ نہیں چاہتے تھے اس کی کئی وجوہ ہونگی لیکن ہندوستانی وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کے علاوہ یہودی نو آبادی مملکت اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔ کانگریس ہی کے وزیر اعظم اور بابری مسجد کی شہادت کا اصل ذمہ دار پی وی نرسمہا راؤ کے دور اقتدار میں ہند۔اسرائیل تعلقات میں مزید بہتری آئی ۔ 1992ء میں دونوں ممالک کے درمیان 20کروڑ ڈالر کی تجارت تھی جو2016میں 4.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ نریندر مودی جس وقت گجرات کے چیف منسٹر تھے انہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا اس دورے میں مختلف جماعتوں کے قائدین کپل سبل، شردپوار، کمل ناتھ وغیرہ بھی موجود تھے۔ 2015میں عالمی ماحول پر پیرس میں منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران نریندر مودی اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو میں گرم جوشی دیکھی گئی ۔ 2015میں اقوام متحدہ کی اسرائیل کی غزہ میں جارحیت پر جاری کی گئی رپورٹ پر اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق کے ووٹ میں ہندوستان نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دینے سے گریز کیا اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک یعنی اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئی۔ خیر اب نریندرمودی کے دورے کی تیاری زور و شور سے جاری ہے اسی سلسلہ میں ہندوستانی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے اسرائیل کا دورہ کیا جہاں وہ اپنے اسرائیلی ہم منصب اور وزارت خارجہ کے اہلکاروں کے ساتھ ہندوستانی وزیر اعظم کے دورۂ اسرائیل کو حتمی شکل دینے کے لئے مختلف امور کا جائزہ لیا ۔ہندوستانی حکومت خصوصاً نریندر مودی کی اسرائیل سے قربت پر مختلف گوشوں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن نریندر مودی جس طرح عالم عرب سے تعلقات بنائے رکھنے میں کامیاب حکمت عملی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو وہیں اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو بھی اہم موڑ پر لیجانے کی کوشش کررہے ہیں۔

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.