پاکستان دہشت گردی اور جنگ کی حالت میں ہے۔ دشمن نے مغربی
اور مشرقی سرحدوں پر ہماری فوج کو مصروف رکھا ہوا ہے ۔ عالمی استعمار
بیرونی اور اندرونی آلہ کاروں کے ذریعے شہروں اور بستیوں میں بم دھماکوں کے
ذریعے خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے کبھی
سنی عالم کو نشانہ بنایاجاتا ہے اور کبھی شیعہ عالم دین کو موت کی گھاٹ
اتار دیا جاتا ہے۔ لسانی تفریق کو ہوا دینے کے لیے زبانوں اور علاقوں کی
بنیاد پر مطالبات اور دعوے کھڑے کیے جارہے ہیں۔ میڈیا پر بھاری سرمایہ کاری
کے ذریعے ان برپا کردہ فتنوں کو فروغ دینے اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر
لگا دیا گیا ہے۔ لبرل ازم کے نام پر مذہب اور نظریہ پاکستان کو ہدف بنایا
جارہا ہے، حد تو یہ ہے کہہادی عالم حضرت محمد صلی اﷲ وعلیہ وسلم کی شان میں
گستاخیاں کرنے والوں کو کھلی چھٹی دی جارہی ہے۔ فوج کو بدنام کرنے کا کوئی
موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جارہا۔ ایسی ایسی کہانیوں گھڑی جاری کہ ہرفرد
سوچنے پر مجبور ہے۔ دہشت گردی کے واقعات پر حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا
جارہا ہے، اندرون ملک آپریشن پر فوج کو، کسی عالم پر حملے کو مذہبی جماعتوں
کو اور افراتفری پر پوری قوم کو ہدف بنایا جارہا ہے۔
جہاں ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے وہاں عوام افواہوں اور ڈس انفارمیشن کی
زد میں ہیں۔ دشمن ملک سرحدوں پر کھلی جارحیت کررہا ہے ، اندرون ملک آلہ
کاروں کے ذریعے بم دھماکے کروارہا ہے اور قوم کا مورال توڑنے کے لیے
افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ یوں ہمیں روائتی اور نفسیاتی دونوں محاذوں پر
مصروف رکھا جارہا ہے۔روائتی جنگ اور دہشت گردی کا مقابلہ ہماری مسلح افواج
اور قوم بخوبی کررہی ہے اور ان شاء اﷲ کرتی رہے گی لیکن نفسیاتی جنگ میں
ثابت قدمی زیادہ مشکل ہے۔ نفسیاتی طور پر مضبوطی ہی روائتی جنگ کو ناکام
بنانے کی اصل قوت ہے۔ جس کو الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہدف
بنایا جارہا ہے۔ کچھ میڈیا ہاوسسز استعمار کے آلہ کار کے طورپر کام کررہے
ہیں۔ امریکی صدر نے گزشتہ سال برملا اظہار کہا کہ وہ پاکستانی میڈیا پر
بھاری رقم خرچ کررہے ہیں، اس کے باوجود قوم کی اکثریت میڈیا کے نفسیاتی
حملوں پر یقین کرتی جارہی ہے۔ کچھ میڈیا ہاوسز محض پوائنٹ سکورننگ اور
ریٹنگ کے چکر میں وہ کچھ کررہے ہیں، جس سے قومی یک جہتی تار، تار ہو تی جا
رہی ہے۔
پاکستان ایک پرامن خطہ ہے۔ اس کی خمیر میں نہ فرقہ واریت ہے اور نہ لسانی
جھگڑے، نہ جاگیردار اور مزارع کی جنگ ہے۔ پاکستانی معاشرے میں صدیوں سے لوگ
پرامن انداز میں رہنے کے عادی ہیں۔ ایک ہی محلے میں سنی، شیعہ اور وہابی
رہتے ہیں، باہم رشتہ داریاں اور دوستیاں بھی ہیں۔ اسی طرح کہیں پنجابی،
پٹھان، سندھی اور بلوچی کی نفرت موجود نہیں۔ سرکاری دفاتر، بستیاں اور شہر
کہیں بھی نفرت موجود نہیں۔ غیر مسلم پوری آزادی اور اعتماد سے ہمارے درمیان
زندگی گزار رہے ہیں۔جس طرح فلموں اور میڈیا میں ڈانس، ناچ، گانے اور لغویات
کو ہمارا کلچر بتایا جاتا ہے اسی طرح میڈیا میں پورے ملک کو نفرتوں کی
آمجگا ہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ میں نے فلموں میں جو کلچر دیکھا وہ پاکستان
کے کسی شہر، کسی بستی اور کسی علاقے میں دکھائی نہیں دیا۔ اسی طرح
الیکٹرونک میڈیا، لفافہ مارکہ تجزیہ نگار اور چمک زدہ پیش کار (اینکر پرسن)
پاکستان کا جو نقشہ ٹی وی سکرین پر کھینچتے ہیں، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق
نہیں۔ کل تک ہمیں شکایت تھی کہ غیر ملکی میڈیا ہماری غلط تصویر پیش کررہا
ہے، آج خود ہمارا میڈیا ہمارے درمیان بیٹھ کر ہماری تصویر مسخ کررہا
ہے۔تازہ ترین منظر نامہ دیکھیں عمران خان نے مہمان کھلاڑیوں کے بارے میں
ایک لفظ کیا استعمال کردیا، میڈیا پر طوفان برپا ہے۔ چند ایک موچی، مسلی،
بھینسے پورے تواتر سے ہمارے محبوب رسول اﷲ کی شان میں گستاخیاں کرتے رہے،
ہمارے نصب العین اور ہمارے عقیدے کو نشانہ بناتے رہے، پاکستان کی نظریات
سرحدوں پر حملے کرتے رہے اور کرپٹ میڈیا خاموش رہا، کیوں؟ اس سے ثابت ہو
گیا کہ اس کرپٹ اور غیر ملکی آلہ کار میڈیا کی ترجیحات کیا ہیں۔ملالہ جیسی
بچی کو ہیروئین بنانے والے، گستاخی کے مرتکب کسی عیسائی کے لیے گھنٹوں
شورشرابا کرنے والے میڈیا نے ہمارے ہادی دوعالم کی شان میں گستاخی کرنے
والے، ہماری نظریاتی سرحدوں پر حملہ آوروں اور ہمارے ایمان اور عقیدے کا
مذاق اڑانے والوں کا تذکرہ کیوں نہیں کیا۔ جب ریاستی اداروں نے ان پر ہاتھ
ڈالا تو ان شیطان صفت درندوں کو مظلوم بنا کرپیش کرنے والوں سے کسی نے نہیں
پوچھا کہ تم کس کی زبان بول رہے ہو۔ دشمن ہماری جغرافیائی سرحدوں پر حملہ
آور ہے اور ہمارا دشمن میڈیا ہماری نظریاتی سرحدوں پر ضرب لگا رہا ہے۔
ہماری یک جہتی اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہے۔ ہمارے ایمان اور
عقیدے کو بے توقیر کرنے کررہا ہے ۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ
ہے۔
آج ہمیں قومی اتحاد اور یک جہتی کے ذریعے ایک نظریاتی اور فکر ی قوت کا
مظاہرہ کرنا ہے۔ بیرونی دشمن کا مقابلہ کرنے والی مسلح افواج کی پشت پر
کھڑا ہونا ہے اور ہماری یک جہتی، نظریاتی پختگی اور قومی اتحاد پر حملہ آور
میڈیا کو لگام دینی ہے۔ یہ ہمارا دینی اور ملی فریضہ ہے۔ علمائے کرام
صوفیائے عظام ، سچے صحافیوں اور مرد و زن کو ہوش کے ناخن لینے ہیں۔ دشمن کے
وار کو ایک دوسرے پر لگانے کے بجائے دشمن کو تلاش کرنا ہے۔ کسی بھی مرحلے
پر شیعہ سنی، پنجابی پٹھان، سندھی بلوچی کی تفریق کو آڑے نہیں آنے دینا۔ یہ
سب جھوٹ پر مبنی دشمن کی تراشیدہ کہانیاں ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق
نہیں۔
کچھ سیاستدان اقتدار کی خاطر قومی سلامتی اور وقار کو پامال کررہے ہیں۔
نوازشریف پر کرپشن کے الزامات اندرونی معاملہ ہے اور پی ایس ایل کا انعقاد
ہمارے قومی وقار کا معاملہ ہے۔ ملک میں بدامنی ہمارا مشترک مسئلہ ہے۔ پی
ایس ایل کی راہ میں رکاوٹ ہمارے دشمنوں کی برپا کی گئی دہشت گردی تھی نہ کہ
نوازشریف کی کرپشن۔ کچھ سیاستدانوں نے پی ایل ایس پر بھی سیاست کی حالانکہ
اس پر قومی یک جہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ یہ بد بخت کشمیر اور بین
الاقوامی تعلقات میں بھی قومی وقار کے خلاف لائن لے لیتے ہیں۔ اقتدار کے
پجاری ایک لوکل کونسل سیٹ کے لیے تو نواز لیگ سے اتحاد کرلیتے ہیں لیکن
قومی سلامتی کے معاملے پر سیاست کرتے ہیں۔ ایسے بے وقوف اور اقتدار پرست
سیاست دانوں کی حوصلہ شکنی بھی قومی یک جہتی کے لیے لازم ہے۔
بہتری کے لیے اختلاف رائے تو ہر گھر میں ہوتا ہے اور یہ فہم و فراست کی
نشانی ہے لیکن جب معاملہ قومی وقار، قومی سلامتی کا ہوتو اختلافات کو پس
پشت ڈال کر قومی سلامتی کے لیے یکسو ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی طور
پر نوازشریف سے کوئی ہمدردی نہیں اور نہ فوج کے سابقہ سیاسی کردار سے کوئی
ہم آہنگی ہے لیکن آج ہمیں قومی سلامتی کے لیے افواج پاکستان کو پورا اعتماد
دینا ہے اور حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے اور دشمن کی چالوں کا مقابلہ کرنے
کے لیے پوری حمایت دینے کی ضرورت ہے۔ سیاست ۲۰۱۸ء کے انتخاب کے موقع پر
کرنے کی کھلی چھٹی ہوگی۔ تب تنقید بھی اچھی لگے گی اور نئی قیادت کے انتخاب
بھی کرنا ہوگا۔سیاست مہنگائی پر کیجیے، تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی حقوق
پر کیجیے، قومی سلامتی کے معاملات پر یکسوئی کا مظاہرہ کرنے والی قومیں ہی
سرخرو ہوتی ہیں۔
موجودہ جنگی حالات میں جس یکسوئی کی ضرورت ہے، اس کا ادراک کرنے اور اس کے
مطابق روئیے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک پرامن قوم کو جنگجو، انتہا پسند
اور دہشت گرد قوم کا لبادہ اڑانے کی عالمی سازش کی جارہی ہے اور اس میں
ہمارا میڈیا بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔ جس کی وجہ سے رائے عامہ کو منتشر
کرنے، باہمی اختلافات کو ہوا دینے اور ہمیں فرقوں، علاقوں اور زبانوں کی
بنیاد پر دست و گریبان کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ ہمارے ایمان، عقیدے، محبت
رسول اور جذبہ حب الوطنی کو لبرل ازم کے نام پر نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ
یہ قوم منتشر ہو جائے۔ ایک دوسرے کا گلا کاٹے اور پورا ملک آگ اور خون میں
ڈوب جائے۔ ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ہرفرد کو باہر نکلنا ہے، اپنا
کردار اداکرنا ہے اور میڈیا کے ذریعے پھیلائی ہوئی نفرتوں کو ختم کرکے
پاکستان کے روائتی پرامن اور محبت سے عبارت معاشرے کو قائم رکھنا ہے۔ اس
طرح ہم دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور ان شاء اﷲ شکست دے کر
رہیں گے۔ |