’’مؤثر ترین لوگوں کی سات عادات‘‘ دنیا کی معروف ترین
اور سب سے زیادہ بکنے والی کتب میں سے ایک ہے‘ اس کی ایک کروڑ پچاس لاکھ سے
زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں جبکہ پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں
اس کی غیر قانونی پرنٹنگ ہو کر بھی فروخت ہو رہی ہے، جس کا کوئی ریکارڈ
موجود نہیں کہ اس طرح کتنی کتب فروخت ہوئی ہیں۔
اس کتاب میں سٹیفن نے موثر ترین لوگوں کی سب سے پہلی عادت Proactiveness
بیان کی ہے، Proactive کا مطلب ہے کہ آپ مستقبل میں آنے والے حالات و
واقعات کے لئے پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ کسی شاعر نے بھی اسی نقطہ کو بیان
کیا تھا کہ ’’سفینہ بنائے رکھنا طوفان آنے سے پہلے‘‘۔ لہذا وقت سے پہلے ہی
ہمیں آنے والے حالات کا بندوبست کرنا ہوتا ہے‘ آپ نے روزانہ کچھ ایسا کرنا
ہوتا ہے جو آپ آج کے لئے نہیں بلکہ آنے والے کل کے لئے کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ
اپنے اردگرد موجود لوگوں پر غور کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ ہمارے معاشرے
میں زیادہ تر لوگ آج کے لئے یا گزرے ہوئے کل کے کاموں میں مشغول ہیں جبکہ
یہ لوگ مستقبل سے پریشان تو ضرور ہیں مگر انہوں نے اس کو سنوارنے کے لئے
کچھ نہیں کیا ہوتا۔
اگر آپ Proactive ہیں تو دنیا کے مؤثر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور
اگر نہیں ہے تو پھر آپ کو اس بارے میں لازمی سوچنا ہے۔ کامیاب وہ ہوتے ہیں
جو لوگ آج کے کاموں کے ساتھ ساتھ تھوڑے کام ایسے بھی کرتے ہیں جن کا کوئی
بھی فائدہ آج میں نہیں ہوتا مگر مستقبل میں اس کام کے بہت ہی سود مند نتائج
سامنے آنے کی امید ہوتی ہے۔ اگر آپ ایسا کر رہے ہیں تو آپ Visionary انسان
ہو‘ Visionary انسان وہ ہوتا ہے جس نے اپنے کل کا خواب دیکھ لیا ہوتا ہے‘
مستقبل جس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے‘ جس نے اپنی منزل کو اپنی نظروں میں
رکھا ہوتا ہے۔ تو سب سے پہلے آپ کو اپنے اندر Proactiveness پیدا کرنا ہے۔
تعلیم کا سب سے زیادہ تعلق مستقبل سے ہوتا ہے‘ اسی نے کل کو قوم کا مستقبل
سنوارنا ہوتا ہے تو یوں اساتذہ کرام کے لئے Proactive ہونا نہایت ضروری ہے۔
آپ نے حضرت موسیٰ ؑ کی یہ دعا تو سنی ہو گی کہ یا اللہ میرا سینہ کھول دے
میری زبان کی لکنت ختم کر دے اور میرا کام مجھ پہ آسان کر دے تاکہ یہ میری
بات کو سمجھ پائیں۔ اس دعا میں استاد کے لئے مکمل پیغام موجود ہیں۔
آپ نے سوچا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ یا اللہ ان کو بدل دیں
یہ بہت لائق ہو جائیں‘ یہ بہت تہذیب یافتہ ہو جائیں‘ یہ بہت نیک و پرہیز
گار ہو جائیں۔ اگر یہ ایسے ہو جائیں تو پھر تو موسیٰ علیہ السلام کی ضرورت
ہی نہیں رہنی تھی۔ استاد کی ضرورت ہی تب پڑتی ہے جب اس نے ایک عام سے بچے
کو شاہکار بنانا ہوتا ہے اور تب ہم کو وہ کام سیکھنے ہوتے ہیں جن سے ہم ان
کی تربیت کر سکیں اور ان کو شاہکار بنا سکیں، ہمیں اپنے کام کا طریقہ بدلنا
پڑتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ کا بچہ اگر کھیل رہا ہو اور ساتھ ہی ایک کھائی ہو تو آپ
اس کے بارے میں بڑے فکر مند ہوں گے اور آپ کا مکمل دھیان بچے کی طرف ہو گا
کہ کہیں وہ کھائی میں گر نہ جائے تو آپ اسے کھائی کے پاس جانے سے پہلے ہی
روک لو گے۔ اسی طرح آپ کو اپنے شاگردوں کے بارے میں بھی فکر مند ہونا
چاہیے۔ ان کی مانیٹرنگ کریں کیوں کہ یہی چیز آپ کے شاگردوں کو شاہکار
بنائے گی۔ آخری قطار میں بیٹھے بچوں کو پتہ ہو کہ استاد ہر وقت انہیں دیکھ
رہا ہے تو پھر سمجھ لیں کہ وہ بچے بھی مکمل دھیان سے آپ کو سننے لگ جائیں
گے۔ استاد کی اس Observationکا اگر بچے کو پتہ ہے تو وہ غلطی ہی نہیں کرے
گا۔ بچہ فنکار تب ملتا ہے جب اسے یقین ہوتا ہے کہ استاد کو نہیں پتہ چلتا
اور پھر وہ کلاس میں ہر وہ کام کرتا ہے جس کی اجازت نہیں ہوتی۔
اساتذہ کرام کے ساتھ جو سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ پرانے طریقے ہی
استعمال کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ آج کے دور میں روزانہ بہت کچھ نیا کرنے کو
ملتا ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بھی نئے نئے پڑھانے کے طریقے استعمال کریں۔
اپنے پڑھانے کے طریقے کو ترقی یافتہ دور سے ہم آہنگ کریں۔ اپنی کارکردگی کو
تنخواہ کے ساتھ مت منسلک کریں کہ ہم کو اتنی تنخواہ ملتی ہے تو ہم اس میں
صرف اسی طرح کا پڑھا سکتے ہیں۔ آپ اپنے کام کو عروج پر لے کر آئیں اور وہ
مہارت سیکھیں جس سے آپ اپنے شاگردوں کو شاہکار بنا سکیں۔ ہمیشہ اپنے مضامین
میں ہونے والے تازہ ترین ایجادات اور جدت سے واقف رہیں۔
ہر ایک انسان کے اندر اچھائی اور برائی ہوتی ہے‘ غصہ اور پیار‘ نفرت اور
محبت ہوتی ہے۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ اچھا انسان وہ ہے جو اپنے اندر
موجود غیر ضروری چیزیں نکال دیتا ہے۔ اب آپ کو بھی یہی کرنا ہے جو چیزیں آپ
کی راہ کی رکاوٹ ہے ان کو اپنی شخصیت میں سے نکال دینا ہے۔ اچھا استاد وہ
ہے جو پہلے خود کی تربیت کرتا ہے، اپنے اندر کے بھیڑیے کو بھوکا مار دے۔ ہم
جن چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے وہ ہماری شخصیت سے نکل جاتی ہیں۔ اپنی شخصیت
کی منفی چیزوں کو اہمیت دینا بند کر دیں اور جو مثبت ہیں ان کو اہمیت دیں،
ان کی تعریف کریں اور سننا پسند کریں۔ کہتے ہیں کہ تعریف ہی ایک چھوٹے سے
چور کو بہت بڑا چور بناتی ہے اور ایک چھوٹی سی نیکی کرنے والے کو بھی دنیا
کا نیک ترین انسان بنانے میں بھی اسی تعریف کا ہی عمل دخل ہوتا ہے۔
یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ جو کام ہم آج کر سکتے ہیں وہ ہم کو کل کرنے
کا موقع نہیں ملے گا تو ہم کو آج ہی ان کاموں سرانجام دینا ہے۔ دنیا میں
کوئی بھی انسان واپس نہیں جا سکتا مگر ہر کوئی آگے جا سکتا ہے، سو ہم کو
اب آگے کا سوچنا ہے اور ہر نئے دن کو زندگی کا پہلا دن سمجھ کر گزاریں،
نئی سوچ کے ساتھ نئے کام کریں۔ ماضی کا صرف ایک کام ہے کہ ماضی کی غلطیوں
سے سیکھیں اور مستقبل کی فکر کریں۔ |