بچپن سے بزرگوں کو کہتے سُنا کے بیٹا محنت کرو کامیاب ہو
جاؤ گے لیکن محنت کا صحیح مفہوم میں نے یہی سمجھا کے کوشش کرتے رہو بس،
لیکن میں نے ایک ایسے شخص کو بھی دیکھا جو الحمد ﷲ 40 سال سے ایک ہی ادارے
میں کام کر رہے ہیں اور اُن کے پڑھائے ہوئے بچے ڈاکٹر،پرنسپل،وکیل اور
مختلف بڑے بڑے اداروں کے ساتھ منسلک ہیں ،نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں اُن
کے پڑھائے ہوئے بچے پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں ،میں نے اُن سے ایک بات
سیکھی کے صرف محنت کافی نہیں بلکہ ثابت قدمی لازمی ہے ،انہوں نے ایک ہی
ادارے میں کام کیا ورنہ شاید ہم ہوتے تو کہیں اور جانے کی سوچتے، لیکن
انہوں نے اپنی تمام سوچ کے دروازے بند کر دئیے اور صرف یہ سوچا کے یہ ادارہ
ہی میری زندگی ہے اور الحمد ﷲ کامیاب بھی ہوئے ،اور جو کچھ میں نے سیکھا
ملاحظہ فرمائیں:
۱)ثابت قدمی
۲)محنت و کوشش
۳)پڑھانے کے ساتھ ساتھ ادارے اور بچوں کے تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش
۴)مصروفیت کے باوجود نماز روزے کی پابندی
۵)بچوں کی روحانی باپ بن کر تربیت کرنا
۶)ٹیچرز کے مسائل کو سُننا اور اُن کے ساتھ تعاون کرنا
۷)بچوں کی بہتری کے لئے Extra Classes کو Arrange کرنا اور 100% Attandence
کا ہونا
۸)بچہ اسکول نہ آئے تو والدین سے بچے کی خیریت معلوم کرنا
۹)کسی ٹیچر کے گھر میں خوشی ہو یا غم اپنی شرکت یقینی بنانا
۱۰)بچوں کے مالی مسائل کو حل کرنے کے لئے جدو جہد کرنا
۱۱)پیار کے ساتھ ساتھ بچوں کی غلطی پر اُن کو ہلکی پھلکی تنبیہ کرنا
۱۲)بچوں میں وقت کی قدر کرنے کااحساس بیدار کرنا
۱۳)پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل وغیرہ میں بھی بچوں کا ساتھ دینا۔
۱۴) اسکول میں اور اسکول کے باہر جو بھی مقابلے ہوں اُن میں بچوں کو شریک
ہونے اور جیتنے کے لئے Motivate کرنا۔
اب ذرا فکر کریں اگر یہ تمام باتیں ہم اپنے اندر لے آئیں اور اسی طرح بچوں
کی تعلیم و تربیت کریں تو سوچیں اگر ایک بچہ بھی آپ کی تربیت سے کچھ سیکھ
گیا تو نہ جانے کتنے افراد کو اس سے فائدہ ہو گا اور بے شک یہ صدقہ جاریہ
ہے انسان مر بھی جائے تو اُس کا نام اور کام بے شک زندہ رہتا ہے۔صرف کتابیں
پڑھانا آپ کو اُستاد نہیں بنا سکتا بلکہ بچے کی ہر لحاظ سے اچھی تربیت آپ
کو ایک اچھا اُستاد بنا سکتی ہے۔اور ایک اچھا انسان بننے کے لئے اس اصولوں
پر عمل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
|