یوں تو پاکستان میں بہت سے طبقے ہیں جنہیں پسے ہوئے،
پچھڑے ہوئے اور محروم طبقات کہا جا تا ہے اور بہت سے ایسے ہیں جنہیں کہا جا
سکتا ہے کیونکہ محرومیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو کہ مختلف طبقوں نے بنا
رکھی ہے۔ اکثر و بیشتر ایسے طبقات کی محرومیوں کی فہرست حقیقت سے کچھ دور
اور انکی خواہشات اور خوابوں کی فہرست لگتی ہے۔ ہمیں ریاست کو ذمہ دار قرار
دینا چاہئے لیکن کہیں کہیں خود سے بھی کچھ حصہ ڈالنا چاہئے کیونکہ ہم بھی
اسی ملک کہ رہنے والے ہیں۔نوجوان کسی بھی معاشرے کا انتہائی اہم جزو ہوتے
ہیں انکی بحالی کے لئے کوششیں اور کاوشیں دراصل معاشرے کی بحالی کی کاوشیں
ہوتی ہیں، گوکہ یہ خیال پاکستان میں حکومتوں کو دیر سے آیا مگر آیا تو ہے،
اب کچھ کام اس ضمن میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں ۔ عجیب المیہ
ہے پاکستان میں تعلیم کے حصول کا مقصد مادیت پرستی پر مبنی ہے، ہم اچھا
انسان بننے کے لئے نہیں بلکہ اچھا روز گار حاصل کرنے کے لئے تعلیم حاصل
کرتے ہیں اور جو تعلیمی ادارے جو تعلیم دے رہے ہیں اسکا پیشہ ورانہ مہارتوں
یا پروفیشنل ڈویلپمنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان میٹرک کے بعد اس
تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ ابFSC کروں ،ICSکروں,یاF.A، ایسی ہی صورتحال
انٹرمیڈیٹ کے بعد اور پھر گریجوایشن کے بعد ہوتی ہے۔ 16سالہ تعلیم مکمل
کرنے ک بعد جب نوجوانCVبنانے کا سوچتا ہے تو جائزہ نکلتا ہے کہ میٹرک سائنس
بیالوجی، انٹرمیڈیٹ میں Fscدو بار فیل پھر ICS، BA میں پنجابی عربی
اسلامیات اور ماسٹرز ان بزنس ایڈمنسٹریشن اب نہ تو تعلیم کا کوئی ربط نظر
آتا ہے اور نہ ہی یہ سمجھ آتی ہے کہ اب کام کیا کریں۔ جس نوجوان سے پوچھو
محترم/محترمہ کیا کرتے ہیں آپ تو جواب ملے گا کہ ابھی کچھ نہیں بس نوکری کے
لئے اپلائی کرتے ہیں۔ میرٹ کا قتل عام ہے رشوت چور بازاری اور اقرباء پروری
ہے ہمیں تو کہیں موقع نہیں ملتا۔ اس ملک میں کچھ نہیں ہو سکتا لگتا ہے زمین
بیچ کر باہر ہی جانا پڑے گا۔ان ہی نوجوانوں کے گھر والوں سے اگر بات چیت کا
موقع ملے تو وہ کہتے ہیں سارا دن موبائل لیپ ٹاپ کے علاوہ اسے کوئی کام ہی
نہیں ہے ، اللہ ہی ہدایت دے اسے۔ اور اگر بادل نا خواستہ ایک دن کی مصروفیت
کا جائزہ لے لیں تو 9گھنٹے نیند، ایک جگہ پر CVبھیجی اور باقی سارا دن سوشل
میڈیا پر مفکری، سیاست، دانشوری اور دیگر جملہ مصروفیات جنہیں نوجوان پڑھتے
ہو ئے سمجھ بھی رہے ہیں اور زیر لب مسکرا بھی رہے ہیں۔ شاعر اور ادیب حضرات
نوجوانوں کے لئے اولوالعزم، جوانمردی، ہمت شجاعت، بہادری،بلند حوصلہ،
ستاروں پر کمند،ثابت قدم اور بلند پرواز جیسی تشبیہات استعمال کرتے ہیں
جبکہ ہمارے نوجوان صرف Facebookاور Whatsappاستعمال کرتے ہیں اور انہی میں
سے ترقی کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔
نوجوانوں کی خود انحصاری سے محرومی اور دوسروں پر انحصار کرنے کی شرح کے
عالمی منظر نامے بلکہ صرف اگر اپنے خطے کو ممالک سے ہی موازنہ کریں تو
معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں تقریباً58فیصد نوجوان خودانحصاری سے محروم
ہیں اور اباجی کے خرچے پر عیاشی کر رہے ہیں جبکہ سری لنکا میں یہ
شرح37.2فیصد، انڈیا میں43.9فیصد،ایران میں33.10فیصدچائنہ میں
23.5فیصد،ملائیشیا میں35.2فیصد حتیٰ کہ پاکستان ہی سے غربت اور بھوکے
بنگالی کا طعنہ سن کر الگ ہونے والے بنگلہ دیش میں 44.9فیصد ہے۔یعنی ہمارے
100میں سے58 نوجوان اقتصادی اور معاشرتی سرگرمیوں سے کوئی واسطہ نہیں
رکھتے۔ یہ یاد رکھئے کہ ملکی ترقی میں نوجوانوں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے
اب ہم کیسے ترقی کریں جب کہ58فیصد نوجوانان کچھ حصہ ہی نہیں بٹا رہے۔ اب
نوجوانوں کی سنیں تو اکثریت اس لئے پریشان ہے کہ کیا کریں نوکری کریں یا
کاروبار اسی تذبذب میں دن رات ماہ و سال گزرتے جا رہے ہیں۔ ایک بزرگ کہا
کرتے تھے کہ بچہ جب میٹرک میں ہوتا ہے تو یہ سوچتا ہے کہ اس ملک کے سب
اعلیٰ عہدے پر میں نے براجمان ہونا ہے، انٹرمیڈیٹ کے بعد اعلیٰ ترین سول
سروس کے خواب دیکھتا ہے، بیچلرز کے بعد کوئی ڈھنگ کی نوکری ا، ماسٹرز کر
جانے والے کچھ عرصہ تو اکڑ میں رہتاہے پھر کہتاہے یا ر کوئی بھی نوکری مل
جائے اب "ویلا"رہنے کے طعنے نہیں سنے جاتے۔ دراصل ہمارا مسئلہ نوکری اور
کاروبار کرنا ہے لیکن در حقیقت ہمیں اس گرداب سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ
نوکری کریں یا کاروبار۔ میں چند انتہائی کامیاب لوگوں کی مثالیں آپ کے
سامنے رکھتا ہو جن کے پاس نہ تو بڑی بڑی ڈگریاں تھیں اور نہ ہی سرمایا لیکن
ان کی وجہ سے بہت سے لوگ اب ڈگریاں بھی حاصل کر رہے ہیں اور سرمایایہ بھی
کما رہے ہیں
سٹیو جابز۔۔ایک جان پہچانا اور مانا ہوا نام ہے، سوشل میڈیا، کمپیوٹرآئی
فون استعمال کرنے والے تمام لوگ انہیں جانتے ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ مجھے
میری ماں نے ایک بے اولاد جوڑے کو اس شرط پر گود دیا کہ وہ مجھے کالج کی
تعلیم دلوائیں گے۔ ایسا ہی ہوا غریب ہونے کے باوجود میرے والدین نے مجھے
ایک کالج میں داخل کروا دیا اور نادانستگی میں میں نے ایک ایسے کالج کا
نتخاب کر لیا جس کی فیسیں ادا کرنے کے لئے میرے والدین کی ساری عمر کی جمع
پونجی پہلے ہی سیمسٹر میں لگ گئی۔ اور میں نے بھی محسوس کیا کہ یہ مہنگی
ترین تعلیم شاید میرے کسی کام کی نہیں اور میں نے کالج میں کلاسز لینا چھوڑ
دیا۔ میں فالتو بوتلیں بیچ کر کھانا کھاتا اتوار کو خیراتی کھانا کھاتا اور
رات کو دوستوں کے کمرے میں فرش پر سو جاتا۔ مجھے خطاطی پسند تھی لہٰذا میں
نے فارغ رہنے کی بجائے کالج کی خطاطی کی کلاسز میں بیٹھنا شروع کر دیالیکن
پھر مجھے احساس ہوا شاید میری منزل کوئی اور ہے ، گریجوایشن نہیں کرسکااور
میں نے گھر کے گیراج سے کام کاآغاز کیا، ایک دوست کے ساتھ مل کر 1976میں
1300ڈالرز سے ایپل کمپنی کی بنیا رکھی جو 350بلین ڈالرز کی کمپنی بن کر
دنیا کی سب سے بڑی اور منافع بخش کمپنی بنی، اس کمپنی میں بھی اس نے عروج و
زوال دیکھے اپنی بنائی ہوئی کمپنی سے فارغ بھی ہونا پڑا، ایک نئی کمپنی کی
بنیا د رکھی اسے پھر ایپل نے خرید لیا اور وہ پھر واپس اپنی کمپنی میں
آگیا۔وہ کہتا ہے میں نے کبھی نوکری یا کاروبار نہیں کیا اور نہ کل کا سوچا
۔ بس موت کو یاد رکھا اور دل جان سے کام کیا اور اسکا صلہ سب کے سامنے ہے۔
دوسرانام بھی آپ سب جانتے ہیں۔ ہرلینڈ ڈیوڈ سینڈرز جسکا عرفی نام کرنل ڈیوڈ
ہے اسکاا پنا نام تو بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن اس کو پہچاننے والے دنیا کے
ہر کونے میں موجود ہیں۔ جی ہاں یہ وہی شخص ہے جس نے 65سال کی عمر میں کے
ایف سی کی بنیاد رکھی، آج کے ایف سی کا برگر کھانا سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا
ہے لیکن اگر کرنل ڈیوڈ کی زندگی اور کے ایف سی کی ابتداء کے بارے میں جانیں
تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جا تی ہیں۔65 سال کی عمر تک اس نے زندگی کی تمام
ناکامیاں دیکھیں بیوی جواں عمری میں ہی چھوڑ کر چلی گئی ایک مزدور اور اوک
ڈش واشر بن کر ساری زندگی گزاری ریٹائرمنٹ پر صرف ایک سو ڈالرز کے قریب
پینشن کا چیک لے کر اس نے سوچا کہ وہ ایک ناکام آدمی ہے اور اب اسے خود کشی
کر لینی چاہئے۔ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ کیوں نہ وہ کچھ ایسا کرے جو اسے
آتا ہے اور اسے چکن فرائی کرنے کی ایک ایسی ترکیب /ریسیپی آتی تھی جو اس کے
علاوہ کسی کو نہیں آتی تھی اپنی اس خفیہ مگر خاص ترکیب کو لے کروہ 1009دفعہ
مختلف جگہ گیا مگر ناکام رہا۔ 1009دفعہ ناکام ہونے کے باوجود اس نے ہمت
نہیں ہاری اور آخر ایک دن آیا جب وہ کامیاب ہو اور آج ساری دنیا میں KFCایک
سٹیٹس سمبل ہے ۔ اور اسکی کمپنی ملٹی بلین ڈالر کمپنی بن چکی ہے۔اس کی
کامیابی کی کہانی میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے، ایک اس نے ساری زندگی کام کیا
، دوسرا وہ کبھی ناکامیوں سے یہ سوچ کر نہیں گھبرایا کہ اب اور نہیں کرسکتا
اور سب سے لازم اس نے سب سے بڑا آغاز 65سال کی عمر میں لیا جس عمر میں لوگ
یہ سوچتے ہیں کہ اب آرام کرنے کی عمر ہے۔
تیسرا نام مائیکل جارڈن ہے، یہ باسکٹ بال کا کھلاڑی ہے اور اسے دنیا کا سب
سے امیر اور مہنگا کھلاڑٰ ی ہونے کا عزاز حاصل ہے اس نے NBAمیں ( امریکہ کی
ایک باسکٹ بال لیگ ) شکاگو بل کو 6بار فائنل میں پہنچایا اور 5بار لیگ کا
بہترین کھلاڑی ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا ۔ اس کی بھی اگر سوانح حیات پر
نظر ڈالیں تو یہ ایک جھونپڑی نما بستی بروکلی نیو یارک میں 1963میں پیدا
ہوا، غریب خاندان میں پیدا ہونے کے باوجود اس کے دل میں اچھی زندگی اور
خوشحالی کی تمنا ہمیشہ رہی۔ 13سال کی عمرمیں اس کے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ
رونما ہو جو کہ اس نے خود ایک انٹرویو میں بتایا۔ اس کے باپ نے ایک استعمال
شدہ کپڑا(شرٹ) دکھا کر پوچھا یہ کتنے کا ہو گا، اس نے دیکھ کر کہا کہ یہی
کوئی ایک ڈالر کا، اس کے باپ نے کہا کہ اسے دو ڈالر میں بیچ کر دکھاؤ۔ ان
کے گھر میں کوئی استری وغیرہ کی سہولت تو موجود نہیں تھی لیکن اس نے کپڑے
کو سیدھا کر کے بہت سے کپڑوں کے نیچے رکھا اور اگلے دن وہ یہ کپڑا سٹیشن پر
لے گیا اور بہت کوشش کے بعد دو ڈالر میں بیچنے میں کامیاب ہوہی گیا۔ واپس
آکر اس نے باپ کو پیسے دیے تو باپ نے پھر ویسا ہی کپڑا دیا اور کہا اسے اب
20ڈالر میں بیچ کر دکھاؤ تو مائیکل نے کہا کہ اس کے 20ڈالر کون دے گا۔ نا
ممکن۔ اس کے باپ نے کہا یہ ممکن ہے تمہیں بس سوچنا ہے اس نے شرٹ لی اور اس
پر مکی ماؤس کا کارٹون بنوایا اور شرٹ لے کر بچوں کے ایک سکول کے باہر کھڑا
ہو گیاوہاں ایک بچے نے شرٹ لینے کی ضد کی تو اسکے باپ نے اسے وہ شرٹ 20ڈالر
میں لے دی اور ساتھ میں مائیکل کو پانچ ڈالر ٹِپ بھی دی، 25ڈالر یعنی مہینے
بھر کی کمائی۔ وہ خوشی خوشی اپنے باپ کے پاس لوٹا تو اسکے باپ نے پھر ویسا
ہی کپڑا دے کر کہا کہ اب اسے 200ڈالر میں بیچ کر دکھاؤ۔اب کی بار اسنے باپ
سے کچھ نہیں کہا اور چلا گیا۔ ان دنوں ان کے علاقہ میں اس دور کی مشہور
ترین فنکارہ فرح فوسٹ شوٹنگ کے لئے آئی ہوئی تھی اس نے بھیڑ میں سے جگہ
بنائی اور جیسے تیسے فنکارہ کا آٹو گراف اس کپڑے پر لینے میں کامیاب ہو
گیا۔ آٹو گراف لے کر وہ قریبی بازار میں آیا اور آواز لگانی شروع کی کہ فرح
فوسٹ کے آٹو گراف والی شرٹ صرف 200ڈالرز میں۔ دیکھتے ہی دیکھتے خریداروں کا
تانتا بندھ گیا اور پرستاروں کے مابین بولی شروع ہو گئی بالآخر ایک تاجر نے
وہ شرٹ1200ڈالرز میں خرید لی۔وہ اپنے باپ کے پاس آیا تو اس کا باپ نہایت
خوش ہوا اور پوچھا کہ تم نے اس سب سے کیا سیکھا، تو مائیکل نے کہا کہ جہاں
چاہ وہاں راہ، یعنی جب کچھ کرنے کی ٹھان لو تو راستہ خود بخود نکل آتا ہے۔
تو اسکے باپ نے کہا کہ بالکل میں بھی تمہیں یہی سکھانا چاہتا تھا کہ جب ہم
ایک معمولی سے کپڑے کی قیمت سینکڑوں ہزاروں گنا بڑھا سکتے ہیں تو اپنی کیوں
نہیں، تمہیں کرنا بس صرف یہ ہے کچھ کہ اپنے آپ کو کبھی کم تر نہیں سمجھنا
اور نئے طریقوں سے سوچنا ہے۔اور ایک دن وہی مائیکل دنیا کا سب سے امیر ترین
اور مہنگا ترین کھلاڑی بنا، مائیکل دنیا کا پہلا کھلاڑی ہے جو ارب پتی
بنا،جب تک آپ اپنی مشکلات کی وجہ دوسروں کو سمجھتے ہیں تب تک آپ انہیں
سلجھا نہیں سکتے۔
چوتھا اور آخری نام میں لوں گا ہیملٹن۔ اس کو شاید بہت ہی کم لوگ جانتے ہوں
گے لیکن ہیملٹن ماسٹر آف میڈیسن تھا کیپ ٹاؤن کی میڈیکل یونیورسٹی سے۔ اس
یونیورسٹی کو میڈیکل سائنس کی دنیا میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا
پہلا بائی پاس آپریشن اسی یونیورسٹی میں ہوا تھا ۔ ہیملٹن کی سوانح حیات
بھی حیرت و ہمت سے بھرپور ہے۔ وہ کبھی سکول نہیں گیا، اسے انگریزی زبان کا
ایک حرف تک نہیں آتا تھا لیکن پھر بھی 2003میں اس یونیورسٹی میں دنیا کے
مشہور ترین سرج پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے اعلان کیا کہ آج ہم ایک ایسے شخص کو
ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگری دینے جا رہے ہیں جس نے دنیا میں سب سے زیادہ سرجن
پیدا کئے اور جو کہ نہ صرف ایک کامیاب سرجن ہے بلکہ اس کے کام نے میڈیکل
سائنس کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ایک نئی جدت اور راہ ہموار کی ، یونیورسٹی
آڈیٹوریم میں موجود ڈاکٹروں نے تاریخی استقبال کیا جو کہ اس یونیورسٹی کا
سب سے بڑا استقبال تھا اور اسے ڈاکٹر آف میڈیسن کی اعزازی ڈگری دی گئی۔مگر
ایسا ہوا کیسے ؟ کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کی تعمیر شروع ہوئی تو بھیڑ بکریوں کی
کھال پہن کر ننگے پاؤں بکریا ں چرانے والا ہیملٹن مزدوری کرنے آگیا۔ وہ
وہاں ایک معمولی مزدور تھا، یونیورسٹی تعمیر ہو گئی تو وہ وہاں مالی بھرتی
ہو گیا جس کا کام تھا لان میں گھاس کاٹنا۔ وہ جو کماتا کھر بھیج دیتا گھاس
پر سو کر رات گزارتا اور غربت کا یہ عالم تھا کہ صرف بھنے ہوئے چنے کھا کر
گزارا کرتا۔1953میں ایک دن ڈاکٹر رابرٹ جوئزرافے پر تحقیق کر رہے تھے کہ جب
یہ پانی پینے کے لئے گردن موڑتا ہے تو اسے غشی کیوں نہیں پڑتی۔ اس مقصد کے
لئے انہوں نے زرافے کو بے ہوش کیا مگر دوران آپریشن زرافے نے گردن ہلانی
شروع کردی۔ اب ڈاکٹر کو ایک مضبوط اور طاقتور بندے کی ضرورت تھی جو کہ
زرافے کی گردن کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھے۔ وہ باہر آئے تو ہیملٹن سامنے گھاس
کاٹ رہا تھا ڈاکٹر نے اشارے سے اسے بلایا اور اندر آکر زرافے کی گردن پکڑنے
کو کہا، ہیملٹن نے زرافیے کی گردن مضبوطی سے پکڑلی۔ آپریشن آٹھ گھنٹے جاری
رہا اس دوران ڈاکٹرز نے چائے کافی کے وقفے بھی کئے مگر ہیملٹن مضبوطی سے
زرافے کی گردن تھامے کھڑا رہا۔ آپریشن ختم ہو تو اس نے واپس گراؤنڈ میں
گھاس کاٹنا شروع کر دیا۔ اب یہ روزانہ کا معمول بن گیا کہ ڈاکٹر اسے تھیٹر
میں بلواتے اور وہ جانوروں کو پکڑنے میں ان کی مدد کرتا، فارغ ہو کر گھاس
کاٹنے لگتا۔ کئی مہینے اس نے دوہری ڈیوٹی کی مگر کسی اضافی معاوضے کا
مطالبہ نہیں کیا۔ ڈاکٹ رابرٹ اسکی استقامت سے متاثر ہوئے اور اسے مالی سے
ہٹا کر لیب اسسٹنٹ تعینات کردیا گیا۔
1958 میں اسکی زندگی میں دوسرا موڑ آیا۔ اس سال ڈاکٹر برنارڈ اس یونیورسٹی
میں آئے اور انہوں نے دل کی منتقلی کے آپریشن شروع کر دیئے۔ ہیملٹن ان کا
سسٹنٹ بن گیا ۔ اب وہ نہایت توجہ سے ڈاکٹرز کے کام کو دیکھتا اور باریکیوں
کو سمجھتا اور کچھ ہی عرصہ میں اسکی حیثیت اسسٹنٹ سے ایڈیشنل سرجن کی ہو
گئی اب وہ ڈاکٹروں کا سرجری میں ہاتھ بٹاتا، ڈاکٹرز اسکی باریک بینی سے
متاثر تھے اسے ٹانکے لگانے کا کام سونپ دیا کرتے۔ اس نے ایک ایک دن میں
50۔50آپریشنز میں ٹانکے لگائے۔وہ ڈاکٹروں سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے
لگا اور جونیئرسرجن ڈاکٹروں کو تنکیکی رہنمائی بھی فراہم کرنے لگا۔رفتہ
رفتہ وہ یونیورسٹی کا ایک اہم ترین آدمی بن گیا، وہ کامیاب سرجنوں سے زیادہ
بہترین سرجن بن گیا۔ 1970میں اسکی زندگی میں تیسرا اور اہم ترین موڑ آیااس
سال جگر پر تحقیق شروع ہوئی تو اس نے دوران آپریشن ایک ایسی شریان کی
نشاندہی کی جس کے ذریعے جگر کی منتقلی ممکن تھی۔اسکی اس دریافت نے نے بڑے
بڑے کامیاب سرجنز اور میڈیکل سائنس کی دنیا کو حیرت میں ڈال کر انقلاب
برپاکر دیا،دنیا میں جہاں بھی جگر کی منتقلی کا کامیاب آپریشن ہوتا ہے تو
اسکا براہ راست ثواب ہیملٹن کوجاتا ہو گا۔اس کا محسن ہیملٹن ہوتا ہے۔ اس نے
یہ مقام نوکری یا کاروبار کرکے نہیں حاصل کیا ۔ اس نے یہ مقام ثابت قدمی،
استقلال اور استقامت سے حاصل کیا۔ وہ 50سال تک 14میل پیدل چل کر یونیورسٹی
آتا، 3بجے گھر سے نکلتا او ر ٹھیک 6بجے آپریشن تھیٹر میں داخل ہو جاتاوقت
کا اس قدر پابند تھا کہ لوگ اس کے آنے کے اوقات پر گھڑیا ں ٹھیک کیا کرتے۔
اس نے ان 50سالوں میں کبھی نہ تو معاوضے میں کمی کا، نہ اوقات کار کی طوالت
کا اور نہ ہی کبھی سہولیات کے فقدان کا رونا رویا، پھر ایک دن آیا جب اس کی
مراعات اور تنخواہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے بھی زیادہ تھیں اور اسے وہ
مقام ملا جو میڈیکل سائنس میں آج تک کسی کو نہیں ملا۔وہ میڈیکل سائنس کی
دنیا کا پہلا ان پڑھ پروفیسرتھا، وہ پہلا ان پڑھ سرجن تھا جس نے 30000سے
زائد سرجنز کو تعلیم بھی دی اور ان کو تربیت بھی دی۔ وہ 2005میں انتقال کر
گیا اور اسے یونیورسٹی میں ہی دفن کیا گیا۔ اب اس یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہو
نے والے ہر سرجن پر لازم ہے کہ وہ اسکی قبر پر جائے اور سلام کرکے تصویر
بنوائے اور عملی زندگی میں شامل ہو جائے۔اور جانتے ہیں یہ مقام اس نے کیسے
حاصل کیا۔۔۔۔ صرف ایک ہاں سے جو اس نے زرافے کی گردن پکڑنے کے لئے کی اور
کئی ماہ تک دوہری مشقت کرنے کے باوجود نہ تو گھبرایا اور نہ ہی یہ کہا کہ
یہ تو میری جاب میرا کام نہیں ہے میں تو مالی ہوں، اسی ایک ہاں کی بدولت وہ
اس مقام پر پہنچا ورنہ وہ مالی ہی رہتا اور مالی ہی مر جاتا لیکن اس کی
8,8گھنٹے کی اضافی مشقت انسانیت کے لئے نئی راہیں کھول گئی۔اب سوچئے اگر وہ
پہلے دن ہی سرجن کی نوکری کے لئے اپلائی کر دیتا تو؟؟ یقیناًبری طرح پٹ
جاتا۔
دنیا میں ہر نوکری اور کاروبار کنے کے لئے کوئی نہ کوئی طے شدہ صلاحیت اور
تجربہ اور اکثر بہت سا سرمایہ بھی درکار ہوتا ہے لیکن کام کرنے کے لئے نہ
تو کوئی تجربہ ، نہ صلاحیت اور نہ ہی کوئی سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ یہ چاروں
کامیاب افراد صرف اور صرف محنت اور صدق دل سے کام کرنے پر یقین ر کھتے تھے۔
انہوں نے جب آغاز کیا وہ کچھ بھی نہیں تھے ہم سے بھی کم تر، غریب، بدحال
مگر ثابت قدمی اور محنت نے انہیں وہ مقام دیا جہاں پوری دنیا میں انکا کوئی
ثانی نہیں ہے۔ہماری نوجوان نسل کو اس گرداب سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ نوکری
کریں یا کاروبار۔ میری مانیں کام کریں وہ چاہے نوکری ہو یا کاروبار اور
محنت کا صلہ کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ "بیشک انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے
لئے وہ کوشش کرتا ہے" کام شروع کریں وہ کام جو آپ کو آتا ہے سوچنے کا انداز
بدلیں اور جدت لے کر آئیں ، اپنے آپ کو کبھی کم تر نہ جانیں اور پورے یقین
کے ساتھ محنت کرتے جائیں، ناکامیاں نئی جہت نئی راہیں کھولتی ہیں ایک دن
آئے گا اور منزل خود آپ کے سامنے آ کھڑی ہو گی۔ بل گیٹس کا کہنا ہے کہ اگر
آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو یہ آپ کا قصور نہیں ہے اور اگر آپ غریب ہی مر
جاتے ہیں تو بلا شبہ اس میں صر ف آپ کا ہی قصور ہے۔
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے راستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیا رگڑنے دے
مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا۔
نعمان نصیر اعوان |