گزشہ دنوں بھارتی گجرات میں مسلمانوں پرمودی
بہیمانہ ظلم و ستم کی سولہویں برسی بھی منائی گئی۔باقاعدہ تقریب کااہتمام
تو شائدممکن نہیں تھا،بھارتی میڈیاپر بھی خاموشی طاری رہی تاہم سوشل
میڈیاپرعدالت کے تعصب پرمبنی فیصلے کو شدیدتنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
بھارتی عدالت کاسولہ سال بعدسنایاجانے والا شرمناک انصاف مودی سرکارکی
ذلتوں میں مزید اضافہ کرتارہا۔ اس انصاف کی روسے بھارتی عدالت نے چارہزارسے
زائد مسلمانوں کوبیدردی سے موت کے گھاٹ اتارنے اورزندہ جلا ڈالنے والے ۲۸جنونی
ہندوؤں کوعدم ثبوت کی بناءپررہاکردیا۔ ہندوغنڈہ تنظیم کے رہنماءگووندپٹیل
نے ۲۷ساتھیوں سمیت ۲۸فروری ۲۰۰۲ءکو ضلع گاندھی نگرکے تعلقہ کلول میں
مسلمانوں کی آبادی پردھاوابول کر۵۴ مسلمانوں کوبیدردی سے قتل کیااوربہت سے
مسلمانوں کوتیل چھڑک کرزندہ جلا ڈالاتھا۔یہ واقعہ گودھرا ریلوے اسٹیشن پراس
وقت کے وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی کی ایماء پرٹرین جلانے
اور۵۰ہندوسادھوؤں کی ہلاکت کے ردّ عمل میں اگلے روزپیش آیا۔
گووندپٹیل اوراس کے۲۷شرکائے جرم کے خلاف سولہ سال سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی
عدالت میں مقدمہ چل رہاتھا جس کابعدازخرابی بسیار اب فیصلہ آیاہے۔یہ خصوصی
عدالت بھارتی سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت قائم کی گئی ۔جج پی بی ڈیسائی
نے مودی سرکاراورہندوؤں کی انتہاء پسندتنظیموں کے دباؤپر۳۶ خطرناک قاتلوں
کوبے گناہ قراردیتے ہوئے انہیں رہاکرنے کاحکم صادرکیااور۲۴ ملزموں کومجرم
قراردیا۔جج نے سرکاری وکیل کے مطالبے اورمسلمانوں کوزندہ جلائے جانے کے
باوجود۲۴قرارواقعی ملزمان کوقرارواقعی سزادینے سے انکار کردیااوراپنے حیرت
انگیزفیصلے میں لکھاہے:اس کیس کے۹۰٪ملزم ضمانتوں پر رہائی پاچکے ہیں،طویل
عرصے سے ان کاکوئی مجرمانہ ریکارڈسامنے نہیں آیا اس لئے انہیں عادی مجرموں
کی سزانہیں دی جاسکتی۔اسی عدالتی فیصلے کے تحت جن مجرموں کوعمرقیدسنائی گئی
ان میں کیلاش دھوبی، یوگندرشیخاوت، دنیش مشر،دلیپ پرامار، سندیپ
پنجابی،وشواہندوپریشدکاسرخیل اتول ویداور کانگرس کاسابق کونسلرمیگھ جی شامل
ہیں۔ان مجرموں کی عمرقیدمودی سرکار چاہے توکم یاختم بھی کرسکتی ہے اوراہم
ذرائع یہ کہہ رہےہیں کہ ان سب کو مختلف جیلوں میں رکھ کروہاں سے ایک ایک
کرکے خاموشی سے چھوڑدیا جائے گا۔
احسان جعفری صاحب کی بیگم ذکیہ جعفری نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے
موقع پرایک کوٹھڑی میں چھپ کرجان بچائی تھی لیکن ان کے خاندان پرجوقیامت
ٹوٹی تھی اس نے انہیں طویل عرصہ تک نیم پاگل حالت میں رکھا۔وہ رفتہ رفتہ
صدمے سے نکلیں اورحواس بحال کرنے میں کامیاب ہوئیں۔انہوں نے عزم کیاکہ
نریندرمودی اوردیگرانتہاء پسند لیڈروں کے خلاف ایف آئی آرکٹوائیں گی لیکن
کس تھانیدارمیں ہمت تھی کہ وہ مودی کے خلاف پرچہ کاٹتا کیونکہ ہر
تھانیدارکواپنی جان عزیز تھی۔تب ذکیہ جعفری بھارتی سپریم کورٹ پہنچ گئیں
اور بالآخرجون۲۰۰۶ء میں مودی اوردیگر انتہاء پسندوں کے خلاف احمدآباد پولیس
اسٹیشن میں ایف آئی آردرج کرانے میں کامیاب ہوگئیں مگرتوقع کے عین مطابق
گجرات پولیس مودی کی باندی ثابت ہوئی ۔اس کے ہاں الٹا چورکوتوال کو ڈانٹے
والامعاملہ تھا۔تفتیش چیونٹی کی چال کی طرح آگے بڑھی،ذکیہ جعفری نے پھر سے
سپریم کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایا۔ مارچ۲۰۰۸ء میں کورٹ نے چھان بین کرنے کیلئے
ایک خصوصی ٹیم ایس آئی ٹی(سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم) تشکیل دے دی لیکن انصاف
دینے میں بھارتی عدالت عظمیٰ بھی ڈنڈی مارگئی۔
ہوایہ کہ اس نے خفیہ ایجنسی سی بی آئی(سنٹرل بیوریوانویسٹی گیشن) کے سابق
سربراہ آرکے رگھوان کوایس آئی ٹی کاسربراہ بناکراسے تمام اختیارات دے
دیئے۔یہ شخص متنازعہ ریکارڈ کاحامل تھالہندابھارت سرکارکی ایک اوربڑی جعل
سازی سامنے آگئی ۔۱۹۸۴ء میں اس کی سربراہی میں پولیس وخفیہ ادارے وزیراعظم
راجیوگاندھی کی سیکورٹی پرمامورتھے مگر وہ اپنے فرائض بجالانے میں ناکام
رہے اور ایک تامل خودکش خاتون نے راجیوکوبم دہماکے میں اڑادیا۔بعد ازاں
حکومت نے اس واقعے کی تحقیق کیلئے''ورماکمیشن''بنایا۔کمیشن کوتحقیقات سے
پتہ چلاکہ آرکے رگھوان نے سیکورٹی انتظامات میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔
الزام ثابت ہونے پرازروئے قانون آرکے رگھوان کوبرطرف کرنا چاہئے تھا لیکن
کمیشن نے اس سے رعائت برتی اوروہ بدستوراپنے سرکاری عہدے پرکام کرتا رہا۔
رگھوان ہندوقوم پرستی کیلئے نرم گوشہ رکھتاتھااسی لئے ۱۹۹۹ء میں بی جے پی
برسراقتدارآئی تواسے سی بی آئی کاچیف بنادیاگیا۔حیرت یہ ہے کہ بھارتی سپریم
کورٹ نے تفتیشی ٹیم کا سربراہ ایسے سرکااری افسرکوبنایاجوقاتلوں سے قربت
رکھتاتھا اوریہ شناسائی رنگ لائی۔ایس آئی ٹی نے ذکیہ جعفری کیس کے سلسلے
میں اپریل ۲۰۱۰ء اور فروری ۲۰۱۲ء میں دو رپورٹیں پیش کیں جن میں مودی کوبے
گناہ قراردیاگیا۔ایک رپورٹ راجورام نامی تفتیشی افسر نے مرتب کی جس کیلئے
وہ دوماہ گجرات میں مقیم رہا۔اس دوران اس نے سرکاری افسروں اور گواہوں سے
ملاقاتیں کیں اورجولائی میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔اس رپورٹ
میں قراردیاگیاکہ اس امرکے ثبوت موجودہیں کہ نریندرمودی نے مسلمانوں کے قتل
عام میں حصہ لیاچنانچہ ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے مگر سپریم کورٹ نے
دوبارانصاف کاخون کرتے ہوئےاس رپورٹ کودرخور اعتناء نہیں سمجھا بلکہ ایس
آئی ٹی کی رپورٹ کوسچ جانتے ہوئے فروری ۲۰۱۲ء میں عدالت نے مودی کوبے گناہ
قراردے ڈالا۔
یہ خبرذکیہ جعفری پربجلی بن کرگری۔احمدآبادمیں بچہ بچہ جانتاہے کہ مودی نے
ہندوغنڈوں کوہلاشیری دی تاکہ وہ مسلمانوں پرخونخواربھیڑیوں کی طرح ٹوٹ
پڑیں۔اپریل ۲۰۱۳ء میں ذکیہ جعفری نے (قانون کے مطابق)احمدآبادمیں مجسٹریٹ
کوایس آئی ٹی رپورٹوں کے خلاف درخواست دی لیکن وہی ہوا جس کاخدشہ تھا۔
دسمبر۲۰۱۳ء میں مجسٹریٹ نے درخواست مستردکردی۔انصاف نہ ملتادیکھ کرذکیہ
بیگم آبدیدہ ہوگئیں مگرانہوں نے ہمت نہ ہاری اوراعلان کیاکہ وہ دوبارہ
سپریم کورٹ جائیں گی۔
اب پندرہ سال سے اپنے شوہرکامقدمہ لڑنے والی بزرگ خاتون ذکیہ جعفری نے
مذکورہ خصوصی عدالت کے فیصلے پرمایوسی کااظہارکرتے ہوئے اسے کمزور فیصلہ
قراردیاہے۔ان کاکہناہے مجھے بے حدمایوسی ہوئی مگرمیں دوبارہ جنگ شروع کروں
گی گجرات ہائی کورٹ میں اپیل دائرکروں گی۔ ادہر سوشل میڈیاپر بھارت سرکارکے
ساتھ ساتھ عدالتی فیصلوں پرسخت تنقیدکاسلسلہ جاری ہے آل انڈیامجلس
اتحادالمسلمین کے صدراسدالدین اویسی نے ٹویٹ کیا:اگریہ قتل عام تاریخ
کاسیاہ ترین باب تھاتواس میں مجرموں کوسزائے موت دی جانی چاہئے تھی ،عمرقیدناقابل
فہم ہے۔ایک بھارتی شہری اشیش ترویدی نے طنزاً لکھا:کمال ہے! میں نے ریپ
کیا،آگ لگائی،قتل کرسکتاہوں،اگر کردوں توپھربھی مجھے سات سال کی سزاملے
گی۔چودہ پندرہ برس گزرنے کے بعدگجرات میں ہندوہوتے ہوئے بھی فخر محسوس
ہورہاہے۔ایک اور بھارتی شہری راکیش فکری نے لکھا:کیااس ملک میں موت کی
سزاصرف مسلمانوں کیلئے ہے؟
دل کی بھڑاس نکالنے والے موجودہیں اورنکالے جارہے ہیں جبکہ مودی کے زیر
اثرمیڈیانے دجل وفریب اورجعلسازی جیسے حربوں سے کمال مہارت کے ساتھ مودی
کوبھارتی ہندوعوام کے نجات دہندہ کی صورت میں پیش کرنے کاسلسلہ شروع
کررکھاہے لیکن ہیٹی میں ہونے والی ہلاکتوں پرسابق سیکرٹری جنرل بانکی مون
کی اقوام عالم کے سامنے سرنگوں ہوکرمعافی مانگنے کے بعدیہ سلسلہ بندنہیں
ہوابلکہ اس کاآغازہواہے اوریہ پھندہ دھیرے دھیرے گلے کی سانس بندکرکےرہے گا! |