پاکستان پیپلزپارٹی کے گزشتہ سال یوم تاسیس کی تقریبات کو
دیکھا جائے یا تنظیم سازی کے سلسلہ میں تحرک کا جائزہ لیں تو پیپلزپارٹی کے
کارکنان پرجوش دکھائی دیتے ہیں ۔ دوسری جانب چیئرمین بلاول کے بھٹو ازم کی
جانب رجحان نے بھی پارٹی میں نئی روح پھونک دی تھی ۔ آصف علی زرداری کی آمد
سے پارٹی میں نئے لوگوں کی شمولیت کی بازگشت ضرور ہے ۔ مگر پارٹی کے اندر
وہ تحرک نہیں رہا ہے۔ جو بلاول نے پیدا کردیا تھا۔ پارٹی میں یہ خیال بھی
تقویت پکڑ رہا ہے کہ 2018کا الیکشن پیپلزپارٹی کا نہیں ہے ۔ پیپلزپارٹی کا
الیکشن 2023 ہے۔ پیپلز پارٹی میں نئے لوگوں کی آمد ، آصف علی زرداری کا پی
ٹی آئی سیاسی طرز عمل اور پیپلزپارٹی کا الیکشن 2023 کا خیال ، نے پارٹی کی
اندرونی کیفیت کو بوجھل کر دیا ہے۔ پارٹی میں اوپر سے وارد ہونے والی قیادت
سے پارٹی میں قربانیاں( وقت ، اپنی قوت ، اپنا پیسہ خرچ کرنے والے ) دینے
والے کارکن مایوس ہوتے ہیں ۔ کہ نئے آنیوالے کی وجہ سے کارکنوں کا راستہ
بند ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر صوبائی حلقہ پی پی 6اڈیالہ روڈ راولپنڈی میں
پیپلزپارٹی کے بانی کارکنان کے خاندان سے راجہ اعجاز پچھے کئی سالوں سے
پارٹی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ آجکل راجہ اعجاز نے اڈیالہ روڈ پر پارٹی
کا سیکرٹریٹ فعال کر رکھا ہے۔ جس میں سٹڈی سرکل ، ادبی تقریبات اور پارٹی
کے پروگرام باقاعدگی اور تسلسل سے جاری ہیں ۔ ضلع راولپنڈی کے صدر چودھری
ظہیر اور جنرل سکرٹری توقیر عباسی تنظیم سازی میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں
۔ انتھک محنت کر رہے ہیں۔کل اگر آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملی کے
نتیجے میں پارٹی میں کوئی بڑی شخصیت وارد ہوتی ہے ۔ ضلعی قیادت کو نظر
انداز کر کے پی پی 6 کا پارٹی ٹکٹ نئے آنے والے کو دے دیا جاتا ہے۔ تو کیا
نتائج حاصل ہوں گے۔ یقینی بات ہے ۔ راجہ اعجاز، چودھری ظہیر اور توقیر
عباسی ناخوش ہونگے اور پارٹی کارکنوں میں بھی مایوسی پیدا ہوگی۔ 2023کے
الیکشن کا پنپتا خیال بھی پارٹی میں تحرک کیلئے نقصان کا باعث ہے۔ اس کا
موجد کون ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ پارٹی میں پیدا کردہ جوش و تحرک باقی نہ
رہے۔ یہ ہاتھ تلاش کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول
فوری اس امر کا نوٹس لیں ۔ شریک چیئرمین آصف علی زرداری پارٹی کے نظریاتی
کارکنان کے جذبات کو سمجھیں ۔ مرکزی تنظیمی قیادت نئیربخاری ، چودھری منظور
، قمرزمان کائرہ اور ندیم افضل چن پارٹی کے اندر کیفیات کا بغور جائزہ لیں
۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ پیپلزپارٹی پی ٹی آئی کی شکل اختیار نہ کر
جائے۔ سیاسی پارٹی حقیقی معنوں میں ایک متبادل ریاست ہوتی ہے۔ ایک الگ نظم
، ایک الگ سوچ ، نظریہ اور حکمت عملی کا نام ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس تمام تر
لوازمات موجود ہیں۔ ۔ پیپلزپارٹی نظریات کی حامل جماعت ہے۔ جو کبھی محض
اقتدار کی خواہشمند نہیں رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے ملک کی تعمیر کی ہے۔ عوام
کو شعور دیا ہے۔ پیپلزپارٹی نئے پاکستان کی بانی جماعت ہے۔ بھان متی کا
کنبہ نہیں ہے۔ نتائج سامنے ہیں۔ جن لوگوں نے سیاسی پارٹی کی بجائے بھان متی
کا کنبہ بنایا وہ آج کہاں کھڑے ہیں ۔کیا پیپلزپارٹی کی قیادت انہی لوگوں کے
ساتھ پارٹی کی تعمیر نو کرنا چاہتی ہے ۔ جو ابھرتے سورج کے ساتھ اپنی
وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں ۔ جنہیں عرف عام میں لوٹوں کے نام سے یاد کیا
جاتا ہے۔ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر کارکنوں پر اعتماد کیاجائے۔ چیئرمین
بلاول کے راستے محدود کرنے کی غلطی نہ کی جائے۔ تشکیل کردہ نئی تنظیم کی
کارکردگی پر بھروسہ کیا جائے اور پیپلزپارٹی کو بھٹو ازم پر کھڑا کیاجائے۔
پارٹی کو بھان متی کا کنبہ نہ بننے سے دیا جائے۔
|