عبدالکعبہ سے صدیق اکبر ؓ تک!

نبی الآخرالزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے دو سے ڈھائی سال کے بعد مکہ میں قریش خاندان کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھنے والے عثمان بن عامر کے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہیں ،جس کے پیداش سے قبل بچے کے والد عثمان اور والدہ سلمیٰ نے ایک منت مانی ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں اگر لڑکا ہوگا تو ہم اس کا نام عبد الکعبہ رکھیں گے ۔ اور ان کے یہاں بچے کی پیدایش کے بعد منت کے مطابق بچے کا نام عبدالکعبہ رکھ دیا جاتا ہے ۔ محمد عربی ﷺ کی آمد سے قبل پور ا عرب شرک و کفر کی دلدل میں دھنسا ہواتھا ، بیت اﷲ شریف کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھیں ہوئے تھے ۔ اسی لیئے عثمان اور سلمیٰ نے منت مانگی ۔عبد الکعبہ در حقیقت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہُ کا نام تھا اسلام قبول کرنے سے پہلے ۔ آپ ؓ کا شجرہ نسب ساتویں پشت پر جاکر نبی پاک ﷺ سے ملتی ہیں ۔ عبدالکعبہ بچپن سے ہی انتہائی شریف النفس انسان تھے آپ ؓ کی دوستی بچپن میں ہی تاجدار مدینہ ﷺ سے ہوئی ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہُ جب چھوٹے تھے تو آپ کے والد آپ ؓ کو کعبہ شریف لے گیئے جہاں پر تین سو ساٹھ بت رکھیں ہوئے تھے ۔ آپ ؓ سے والد نے کہا بیٹا یہی ہیں ہمارے معبود (بتوں کے لیئے کہا)یہی ہمیں کھلاتے پلاتے اور ہماری حفاظت کرتے ہیں ۔ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہُ کے والد نے آپ ؓ کو حکم دیا کے وہ ان بتوں کو سجدہ کریں مگر آپ ؓ نے نہیں کیا یہ دیکھ کر آپ ؓ کے والد باہر چلے گیئے یہ سوچ کر کہ شاید میرا بیٹا مجھ سے شرما رہا ہے اس لیئے سجدہ نہیں کر رہاہے ۔ والد کے باہر جاتے ہی صدیق اکبر ؓ رضی اﷲ عنہُ نے بتوں سے کہا مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھلاؤجواب نہیں آیا دوبارہ کہا پھر بھی جواب نہیں آیا ،اس کے بعد آپ ؓ نے ایک پتھر اُٹھا یا اور کہا تم ہماری حفاظت کرتے ہو میں دیکھتا ہوں تم اپنی حفاظت کیسے کرتے ہو ،اس کے بعد پتھر زور سے ایک بت کو د ے مارا اور بت دھڑم سے نیچے گر گیا بت کے گرنے سے آواز پیدا ہوئی اسی سے ہی ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہُ کے والد اندر آئے اور بت کو نیچے گرا پا کر اپنے بیٹے عبد الکعبہ (ابوبکرؓ )کو مارنے اور پیٹ نے لگے ۔ جس طرح قرآن مجید سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں نبی محترم ﷺ کے آمد اور آپ ﷺ کے تعلیما ت کا تبصرہ آیا ہے ٹھیک اس طرح ہی آپ ﷺ کے کے صحابہ ؓ کا تبصرہ بھی آیا ان میں ایک صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ بھی ہیں ۔ اسلام لانے سے قبل حضرت صدیق اکبررضی اﷲ عنہُ تجارت کیلئے مصر گئیے ہوئے تھے وہاں آپ ؓ کو معلوم ہوا کے ایک شخص جس کی عمر تقریباً تین سو سال ہے اور وہ تورات ، انجیل ، زبور کا حافظ اور عالم ہے تو آپ کے دل میں ان سے ملنے کا خیال آیا ان سے ملکر فیض حاصل کیا جائے۔ آپ ؓ ان سے ملنے ان کے خانقاء پر تشریف لے گئے ۔ حال احوال کے بعد اس بوڑھے شخص نے آپ ؓ سے پوچھا کہاں سے آئے ہو ، صدیق اکبر رضی اﷲ عنہُ نے جواب دیا مکہ سے جس پر اس بوڑھے عالم نے اپنی آنکھوں کو ہاتھ کی انگلیوں کے مددسے کھول کر صدیق اکبر رضی اﷲ عنہُ کو غور سے دیکھا اور کہا آپ کانام عبدالکعبہ ہے؟ تو آپ نے کہا ہاں، والد کا نام عثمان ہے؟ آپ ؓ نے کہا ہاں ،دادا کا نام عامر ہے؟ کہا ہاں ،قریش کی شاخ بنو تمیم سے ہو ؟ آپ ؓ نے کہا ہاں ، اور صدیق اکبر رضی اﷲ عنہُ سے رہا نہیں گیا اور اس ضعیف بوڑھے عالم سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کو میرے بارے میں اتنی معلومات کہاں سے ہیں ، نہ ہی ہم اس سے پہلے ملے ہیں اور نہ ہی کبھی آپ کو میں نے دیکھا ہے ، اتنی معلومات کہا سے ؟ جس کا جواب دینے کہ بجائے بوڑھے عالم نے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہُ (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے )سے کہا آپ اپنا قمیص اوپر کرلیں ، آپؓ نے کہا میں آپ سے کیا سوال کر رہاہوں اور آپ مجھے قمیص اوپر کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں ،دوبارہ اسرار پر آپ ؓ نے قمیص اوپر کر ہی لی ، اس کے بعد اس ضعیف شخص نے کہا سبحان اﷲ ، صدیق اکبر رضی اﷲ عنہُ نے وجہ پوچھی تو جواب ملا کے آخری نبی محمد رسول اﷲ ﷺ کے صحابی ہو آپ، آپ کا تبصرہ آسمانی کتابوں میں موجود ہیں اور ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آپ ؓ کے ناف کے اُپرایک تل ہوگا ،حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہُ قبول اسلام سے قبل اور قبول اسلام کے بعد جب تک شراب کو حرام نہیں قرار دیاگیا تھا شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگا یا تھا ۔جب کہ آپ ؓ کی عمر38 سال تھی، اسلام کا آفتاب طلوع ہوا، حضرت ابوبکر تجارت کے غرض سے یمن کے سفر پر گئے ہوئے تھے ،ابھی واپس لوٹ کر آئے ہی تھے کہ مکہ کاپورا گروہ: احباب، ابوجہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ نے آپ ؓکے گرد گھیرا ڈال دیا،اور نوازئیدہ دین اسلام کی اطلاع دی۔ نیز فراست ابوبکری، وتجربہ صدیقی سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ عبداﷲ کے یتیم بیٹے محمد (ﷺ)نے دعویٰ کیاہے کہ وہ اﷲ کے پیغمبر ہیں،اور ان پر حضرت جبرئیل وحی لے کر آتے ہیں، اس لیے لوگ بے چینی سے آپ کا انتظار کررہے ہیں، اس فتنے کی روک تھام میں تمہاری اصابت رائے کی ضرورت ہے، اور اگر یہ فتنہ بعجلت تمام دبایا نہ گیا، تو آبائی اقدار کا تسلط ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ادھر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوست، تجارتی سفروں کے رفیق، اور آپ کی پاکیزہ سیرت واخلاق کے عینی شاہد تھے، اپنی دور اندیشی، ومعاملہ فہمی اور اصابت رائے کی قوت سے حقیقت تک پہنچ گئے، احباب سے فرصت پاکر درِ رسالت ﷺ پر پہنچے، وحی و نبوت سے متعلق آپؑ کی زبان سے سنا، اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔ حضور پاک ﷺ جب معراج تشریف لے گئے تو کفار چھپ چھپ کر ہنستے تھے ۔ اس موقع پر صدیق اکبر رضی اﷲ عنہُ نے حیرت انگیز قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا۔ نبی پاک ﷺ نے مکہ والوں سے فرمایا کہ رات انھوں نے بیت المقدس کا سفر کیا، مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی اور پھر سیر آسمان کو گئے۔ مشرکین مکہ نے آپ کا مذاق اڑایا، مکہ سے شام تک ایک ماہ کا سفرہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ محمد (ﷺ) ایک رات میں دو ماہ کا سفر طے کر کے لوٹ آئیں؟ کچھ مسلمان بھی مترد د ہوئے، مگر صدیق اکبر ؓنے ان کو گمراہ ہونے سے بچالیا۔ آپ ؓ نے کہا کہ جو اﷲ لمحوں میں آسمان سے وحی اُتار دیتا ہے، اس کے لیے کیا دشوار ہے کہ رات بھر میں سرور کاینات ﷺ کو اتنی مسافت طے کرا دیں۔ حق کی بلا تاخیر تصدیق کرنے پرنبی پاک ﷺ نے ابو بکر کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔

اور یوں عبدالکعبہ سے عبداﷲؓ اور عبداﷲؓ سے صدیق اکبرؓ کا سفر تے کیا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہُ نے ۔اﷲ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ (آمین)

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 94166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.