ایران یا اسرائیل ۰۰۰مشرقِ وسطی کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ۰۰؟

آغاز اسلام سے ہی مسلمانوں کو یہودی اور عیسائیوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ، یہودیوں نے جس طرح مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی ہے شاید ہی اس سے زیادہ کوئی دوسری قوم نے عالمی سطح پر مسلمانوں سے دشمنی کی ہوگی ۔ آج اسرائیلی یہودی فلسطینی علاقوں پر قابض ہوکر عالمی سطح پر اپنی ڈھاک جمائے ہوئے ہیں۔ معصوم بچوں اور بے قصور فلسطینیوں پر کی جانے والی اسرائیل کی ظلم و زیادتی کے خلاف عالمی سطح پر صرف بیان بازی کے کچھ نہیں ہوتا۔ ہیومن رائٹس ہو کہ اقوام متحدہ، اسرائیل کے سامنے ہر ایک بے بس نظر آتا ہے۔ کیونکہ اسرائیل ایک طاقتوریہودی مملکت کی حیثیت رکھتا ہے۔عرب ممالک کیساتھ ایران کے تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے ان دنوں اسرائیل کے ساتھ عالمِ اسلام کے تعلقات اندرونی طور پر بہتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شام میں قیام امن کے سلسلہ میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے کہا ہے کہ شام میں اس وقت تک قیام امن ممکن نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایران کی موجودگی وہاں برقرار رہے گی۔ ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے کٹر دشمن سمجھے جاتے ہیں جبکہ روس، شامی صدر بشارالاسد کو ہر ممکنہ تعاون کرتے ہوئے اسے اقتدار پر بحال رکھنے کی کوشش کررہا ہے اور اسی کے ساتھ ایران بھی بشارالاسد کو فوجی سازو سامان کے ساتھ اپنی فوجی طاقت بہم پہنچا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایران شیعہ ملیشیاء کو بھی شام میں بشارالاسد کے تعاون کے لئے مدد فراہم کررہا ہے۔اس سے قبل عالمِ اسلام کے حکمرانوں نے بھی خطے کے خطرناک دہشت گرد حالات کا ذمہ دار ایران کو گردانہ ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات گذشتہ دو برس سے انتہائی خراب ہوچکے ہیں، ایرانی حجاج کرام اور معتمرین و زائرین حرمین شریفین نہیں آرہے ہیں انہیں سعودی عرب کی جانب سے پابندی نہیں ہے بلکہ خود ایران اپنے ان عازمین حجاج اور معتمرین و زائرین کو حرمین شریفین جانے پر پابندی عائد کررکھی ہے اور مستقبل قریب میں بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری پیدا ہونے کی امید کم ہی دکھائی دے رہی ہے۔ کیونکہ عراق، شام اور یمن میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ اور فوجی تعاون کے خلاف سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے مغربی و یوروپی ممالک کے حکمرانوں کے سامنے اس کا اظہار کیا ہوچکا ہے اور ایران کو انتباہ بھی دیا گیا ہیکہ وہ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو ختم کریں ورنہ اس کے نتائج خطرناک موڑ اختیار کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور پھر اب امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف وٹیل نے کہا ہے کہ ایران خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ جنرل وٹیل نے امریکی سینٹ کی مسلح افواج کے امور کی نگراں کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سلامتی کے لیے ایران کا خطرہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو عراق، شام اور دوسرے عرب ممالک میں ایرانی مداخلت پر گہری تشویش ہے۔ ایران عرب ممالک میں موجود اہل تشیع کی آڑ میں اپنے دیگر مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے اور ان ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی سلامتی پوری دنیا کی سلامتی سے مربوط ہے مگر اس وقت ایران کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ خطے میں موجود امریکی فوج کو ایران نواز گروپوں کے حملوں کا بھی سامنا ہے۔جس طرح عالمِ اسلام نے ایران کے اثر و رسوخ کے تعلق سے کہا ہے اسی طرح ریڈیو ’وائس آف امریکہ‘ کے مطابق جنرل جوزف فوٹیل نے کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ کے ممالک پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ خطے کا استحکام تباہ وبرباد کرتے ہوئے اپنا اثرورسوخ بڑھا سکے۔انہوں نے یمن کے ساحل کے قریب ایرانی بحری جہازوں کی سرگرمیوں پر بھی کڑی نکتہ چینی کی، گذشتہ دنوں ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی بحری جہازوں کو ایرانی بحریہ نے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا تھا ، یہاں یہ بات انتہائی خطرناک دکھائی دیتی ہے کہ اگر امریکی بحریہ کا کوئی عہدیدار ایرانی بحریہ کی بات نہ مان کر کسی قسم کی بھی دفاعی کارروائی کرتا یا فائرنگ وغیرہ کرتا تو حالات خراب ہوسکتے تھے۔ ایران کے خلاف ایک عالمِ اسلام اٹھ کھڑا ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کا دشمن اسرائیل بھی ایران کا سخت دشمن نظر آتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ایران اسرائیل اور امریکی محکمہ دفاع کے عہدیدار کے بیان پر کس قسم کا ردّعمل ظاہر کرتا ہے۔

میانمارکے مسلمان ہوکہ کہیں اور کے ۰۰۰
عالمی سطح پر مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کوئی نئی بات نہیں۔ مسلمان جنہیں سلامتی کے لئے صبر کا درس دیا گیا ہے اگر مسلمان ہربات پر اپنے دفاع کیلئے ہتھیار اٹھالیتے ہیں توپھر دنیا میں ہر جگہ خون خرابہ ہی دیکھنے کو ملتا۔ آج مسلمانوں کے صبر و استقامت کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا میں امن و سلامتی قائم ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ہر طرف مسلمانوں پر ظلم و زیادتی بڑتی جاتی ہے ۔ دشمنان اسلام نے مسلمانوں کو مسلکی بنیاد پر لڑانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوچکی ہے اور یہی دشمنانِ اسلام کے لئے آج سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مشرقِ وسطی کے حالات جس طرح دہشت گرد بنادیئے گئے ہیں اس کے ذمے دار امریکہ ، برطانیہ اور مغربی و یوروپی طاقتیں ہیں۔ یہ تو مسلمان مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کا قتل عام کررہے ہیں لیکن بعض ممالک میں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے پیروکار نشانہ بناتے ہوئے انکا قتل عام کررہے ہیں ، مسلم خواتین کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں معصوم بچوں کو یتیم و یسیر بنایا جارہا ہے اور کئی بچوں کو موت کی آغوش میں پہنچایا جارہا ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی میانمار کے مظلوم مسلمانوں کی ہے ۔میانمار کے مظلوم مسلمانوں پر جس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں کی فوج نے قتل و غارت گیری کا بازار گرم کیا اور ان مظلوم مسلمانوں کو بے آسرا بنایا ان کے دشمنوں کو سزا دینے والا کوئی سوپر پاور حکمراں نظر نہیں آتا ۔ ان دشمنانِ اسلام کے حکمرانوں کو صرف مسلم دہشت گردی نظر آتی ہے جبکہ مسلمانوں پر دوسرے مذاہب کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی نظر نہیں آتی ۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ محترمہ یانگ ہی لی نے مسلمانوں کے خلاف میانمار کی فوج کے وحشیانہ اقدامات کا پردہ فاش کیا ہے۔اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ محترمہ یانگ ہی لی نے کہا ہے کہ میانمار کی فوج نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی وحشیانہ اور انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف، میانمار کی فوج اور پولیس کے اقدامات، جنگی جرائم کی واضح مثال ہیں۔یانگ ہی لی کے بقول، میانمار کی حکومت، مسلمانوں کے خلاف ایذارسانی اور غیر انسانی جرائم کی ذمہ دار ہے۔قابل ذکر ہے کہ مغربی میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ، انتہاپسند بدھسٹوں ، فوج اور پولیس کے حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید اور کئی لاکھ بے گھر ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ نے 2016 میں روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال کے بارے میں خبر دار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان لوگوں کو انتہائی ہولناک حالات کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، مناسب طبی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے روہنگیا اقلیت سے تعلق رکھنے والے کم سن بچے زندگی سے محروم ہو رہے ہیں۔اس کے باوجود عالمی سطح پر بدھسٹوں ، میانمار کی فوج کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جاتی۔ جبکہ عراق، شام، یمن، پاکستان، افغانستان وغیرہ میں مغربی و یوروپی حکمراں اپنے مفاد کی خاطران مسلم حکمرانوں کو انکا سچا مسیحا بتانے کی کوشش کرتے ہوئے کروڑہا ڈالرس وصول کرلئے ہیں اور آج یہی مسلم ممالک جو کل تک لاکھوں ڈالرس امداد دوسرے ممالک کو دیتے تھے آج تنگدستی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں ، اپنے دفاع کیلئے دشمنانِ اسلام سے لاکھوں ڈالرس کے فوجی سازو سامان خریدے گئے جبکہ آج وہ اپنا بجٹ خسارہ میں بتانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ سعودی عرب اپنی گرتی ہوئی معیشت کو بچانے کے لئے کئی تارکین وطنوں کو جنہوں نے سعودی عرب کی ترقی میں اہم رول ادا کیا تھا انہیں انکے وطنوں کو واپس بھیج دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں بھی ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ تعصب دکھائی دینے لگا ہے کئی کمپنیوں میں ہندوستانی مسلمان اپنے روزگار سے محروم ہورہے ہیں جبکہ دیگر مذاہب کے لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور مستقبل میں بھی انہیں روزگار کے مواقع فراہم ہوتے رہیں گے کیونکہ ہندوستانی وزیراعظم عالم عرب کے حکمرانوں کے ساتھ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگاتے ہوئے بہتر تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں وزیر اعظم کی پارٹی بی جے پی اقتدار پر فائز ہوچکی ہے اس کے بعد ملک کے حالات کس سمت لیجائے جاتے ہیں اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ بی جے پی اور دیگر ہندوتوا جماعتوں کا مقصد اترپردیش(ایودھیا ) میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر ہے ، اب دیکھنا ہے کہ کیا نریندر مودی بابری مسجد کے مقام پر مندر بنانے کیلئے ہندوتوا کو آزاد چھوڑ دیں گے یا پھر عالمی سطح پر اپنی ہتھک سمجھتے ہوئے اس مسئلہ کو ٹال دیں گے جبکہ یکساں سول کوڈ کا مسئلہ بھی دوبارہ ذرائع ابلاغ میں گردش کرسکتا ہے۔ فرقہ پرست مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے نشانہ بناتے رہیں گے چاہے وہ ہندوستانی مسلمان ہوکہ میانمار کے مسلمان۰۰۰

امریکی صدر ٹرمپ اپنی تنخواہ چیاریٹی کو دے دینگے۰۰
دنیا میں لاکھوں انسان ایسے ہیں جنہیں جتنی بھی دولت دی جائے وہ اسے حاصل کرلیتے ہیں اور مزید دولت کی حرص و طمع میں سرگرداں رہتے ہیں۔ لیکن بعض ایسے بھی دولت مند ، صاحب ثروت ، فیاض لوگ دنیا میں پیدا ہوئے ہیں جو اپنی آمدنی کا بہت سارا حصہ غریبوں کی فلاح و بہبود اور انکی گزربسر ، کھانے پینے کیلئے بطور عطیہ ادے دیتے ہیں۔ان ہی افراد میں چند ایسے بھی صاحبِ ثروت، مالدار لوگ دنیا میں گزرے ہیں جنہیں جب عوامی خدمت کا موقع ملا تو وہ حکومت کی جانب سے انہیں متعین کردہ تنخواہ یا معاوضہ لینے کے بجائے یہی معاوضہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ان ہی میں سے ایک موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہیں جنہوں نے اپنی تنخواہ عطیہ دینے کا اعلان کیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سال کے اواخر میں اپنی سالانہ تنخواہ چار لاکھ ڈالر2کروڑ 64لاکھ 72ہزار روپیے ہند عطیہ کردیں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ترجمان شان اسپائسر نے کہا کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس کا پریس کارپوریشن، کسی ایسی چیریٹی کو تلاش کرنے میں مدد کرے جسے وہ اپنی تنخواہ عطیہ کرسکیں۔ امریکی صدر جس طرح اپنی انتخابی تقاریر میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان ہی وعدوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ان کی تنخواہ لینے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، وہ صرف قانونی طور پر ایک ڈالر کم از کم تنخواہ لیں گے۔ اسی طرح امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ کوئی چھٹی نہیں لیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سابق امریکی صدور جان ایف کینڈی اور ہربرٹ ہوور کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں ، ان دونوں امریکی صدور نے بھی اپنی تنخواہ عطیہ کردیا تھا۔

Rasheed Junaid
About the Author: Rasheed Junaid Read More Articles by Rasheed Junaid: 352 Articles with 208895 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.