وطن عزیزمیں 19سال بعدمردم شماری کرانے کافیصلہ کیاگیاہے
اس سے پہلے 1998میں مردم شماری ہوچکی ہے جبکہ آئین کے مطابق ہر10سال
بعدمردم شماری ضروری ہے ان 19برسوں میں دو جمہوری ایک مارشل لاء اورایک
نگران حکومت اپنے ادوارگزارچکی ہے جبکہ تیسری جمہوری حکومت کے بھی چارسال
گزرچکے ہیں اب بھی وفاقی حکومت مردم شماری سے پہلوتہی کاروئیہ اپنائی ہوئی
تھی مگرسپریم کورٹ کے حکم پراسے بادل نخواستہ مردم شماری کاکڑواگھونٹ
بھرناپڑاملک کی چھٹی مردم شماری کیلئے پاک فوج کے تقریباً 2لاکھ جوان بھی
خدمات انجام دیں گے جس سے توقع کی جارہی ہے کہ مردم شماری کاعمل باحسن
وخوبی انجام پائیگاخیبرپختونخوامیں بدھ 15مارچ کوگورنراقبال ظفرجھگڑانے
گورنرہاؤس کے باہر001ش کی نمبرنگ کرکے خانہ شماری کاافتتاح کیاخانہ شماری
مکمل ہونے کے بعدمردم شماری ہوگی مردم شماری کے عملے کیلئے سیکیورٹی کے پول
پروف انتظامات کئے گئے ہیں پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ پولیس کے جوان بھی
ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں پہلے مرحلے(15مارچ سے 15اپریل) میں صوبے کے 13اضلاع
جبکہ ایک قبائلی ایجنسی(اورکزئی)کی خانہ ومردم شماری ہوگی جبکہ دوسرے مرحلے
یعنی 15اپریل تا15مئی میں ضلع بنوں ،کوہاٹ،کرک،ٹانک،ملاکنڈ،سوات،بونیر،شانگلہ،اپرولوئردیر،کوہستان
اورچترال سمیت بقیہ چھ قبائلی ایجنسیوں خیبرایجنسی،مہمندایجنسی،کرم
ایجنسی،باجوڑایجنسی،شمالی وجنوبی وزیرستان میں مردم شماری کااہم فریضہ
انجام دیاجائیگامردم شماری کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعورشخص انکارنہیں
کرسکتااگرچہ ملکی روایت کے مطابق حالیہ مردم شماری پربھی مختلف سیاسی حلقوں
کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں سندھ سے ایم کیوایم اورپیپلزپارٹی کے
اعتراضات ہیں جبکہ خیبرپختونخواکی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے
صوبائی جنرل سیکرٹری سردارحسین بابک نے تحفظات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اس
خبرکی بازگشت ہے کہ مردم شماری کے نتائج لاہوریااسلام آبادمیں مرتب کئے
جائیں گے جس سے مردم شماری کی شفافیت متاثرہونے کاخدشہ ہے لہٰذاصوبے کے
ہرضلع میں گنتی کاعمل پایہء تکمیل کوپہنچایاجائے انہوں نے مزیدکہاکہ مردم
شماری کے فارم میں قومیت اورشہریت کیلئے الگ الگ خانہ ہوناچاہئے تھابہرحال
اعتراضات اورتحفظات کے باوجودحالیہ مردم شماری کیلئے خاطرخواہ انتظامات کئے
گئے ہیں ملک بھرمیں1,68,120بلاکس بنائے گئے ہیں جن میں خیبرپختونخوامیں
تقریباً22000جبکہ قبائلی ایجنسیوں میں793بلاکس بنائے گئے ہیں جن میں رورل
ایریازکیلئے 18,782جبکہ اربن ایریازکیلئے3216بلاکس تشکیل دئے گئے ہیں صرف
پشاورمیں مردم شماری کیلئے 1132ٹیمیں جبکہ 3100پولیس اہلکارتعینات کئے گئے
ہیں اسی طرح تمام اضلاع میں پولیس اہلکار،افسران اورفوجی جوان تعینات کئے
گئے ہیں تحصیلوں کی سطح پراسسٹنٹ کمشنرزجبکہ اضلاع کی سطح پرڈپٹی
کمشنرزبطورفوکل پرسنزخدمات انجام دے رہے ہیں جن اضلاع کوپہلے مرحلے کی مردم
وخانہ شماری کیلئے چناگیاہے ان میں خیبرپختونخواکے وسطی اورترقی یافتہ
پانچوں اضلاع یعنی پشاور،مردان،نوشہرہ،صوابی،چارسدہ ،ہزارہ کے ہری پور،ایبٹ
آباد،مانسہرہ،بٹگرام،تورغر،جبکہ جنوبی اضلاع سے ہنگو،لکی مروت اورڈیرہ
اسماعیل خان شامل ہیں گورنراقبال ظفرجھگڑاکے مبنی برحقیقت دعوے یعنی 19سال
بعدنوازشریف ہی کی حکومت میں مردم شماری ہورہی ہے اس سے پہلے 1998میں
جومردم شماری ہوئی تھی اسکے مطابق اس وقت کے صوبہ سرحداورحال کے
خیبرپختونخواکے 22 ضلعے تھے اے این پی کی گزشتہ حکومت نے صوبے کانام بھی
تبدیل کرواکے خیبرپختونخوارکھااورتین اضلاع کااضافہ بھی کیااب اگروزیراعلیٰ
پرویزخٹک کے اعلان کوعملی جامہ پہنایاگیاتوان اضلاع کی تعداد26ہوجائیگی
اگرگزشتہ مردم شماری کے نتائج پہ نظردوڑائی جائے توصوبے کاکل رقبہ
74521مربع کلومیٹرجبکہ آبادی 1,77,43,645تھی اس میں شہری آبادی
29,94,084جبکہ دیہی آبادی 1,47,49,561افرادپرمشتمل تھی صوبے سے متصل ساتوں
قبائلی ایجنسیوں کارقبہ 27,220جبکہ آبادی31,76,331تھی1998کی مردم شماری
ریکارڈکے مطابق صوبہ سرحد(حال خیبرپختونخوا)کے بائیس اضلاع کارقبہ اورآبادی
کچھ اس طرح تھی چترال کارقبہ 14850مربع کلومیٹر(رقبے کے لحاظ سے صوبے کاسب
سے بڑاضلع)جبکہ آبادی3,18,689،اپردیررقبہ 3699جبکہ
آبادی5,75,858،لوئردیررقبہ1583جبکہ آبادی7,17,649،سوات رقبہ5337جبکہ
آبادی12,57,602،شانگلہ رقبہ1586جبکہ آبادی4,34,563،بونیررقبہ1865جبکہ
آبادی5,06,048،کوہستان رقبہ749جبکہ آبادی4,72,570،مانسہرہ رقبہ4549جبکہ
آبادی11,52,839، بٹگرام رقبہ1301جبکہ آبادی3,07,278،ایبٹ آبادرقبہ1967جبکہ
آبادی8,80,666،ہری پوررقبہ1725جبکہ آبادی 6,92,228،مردان رقبہ1632جبکہ
آبادی14,60,100،صوابی رقبہ1543جبکہ آبادی10,26,804،چارسدہ رقبہ996جبکہ
آبادی10,22,364،پشاوررقبہ1257جبکہ آبادی 20,26,851(آبادی کے لحاظ سے سب سے
بڑاضلع)نوشہرہ رقبہ1748جبکہ آبادی8,74,373،کوہاٹ رقبہ2545جبکہ
آبادی5,62,640،کرک رقبہ3372جبکہ آبادی4,30,795، بنوں رقبہ1227جبکہ
آبادی6,75,667،لکی مروت رقبہ3164جبکہ آبادی4,90,025،ڈیرہ اسماعیل خان
رقبہ7326جبکہ آبادی8,52,995اورضلع ٹانک کارقبہ1679مربع کلومیٹرجبکہ
آبادی2,38,216نفوس پرمشتمل تھی حالیہ مردم شماری کے بارے میں خیال
کیاجارہاہے کہ اس میں صوبے کی آبادی دگنی ہونے کاامکان ہے کچھ یہی قیاس
آرائی قبائلی ایجنسیوں یعنی فاٹاکے بارے میں بھی کی جارہی ہے جبکہ وفاقی
کابینہ کے فیصلے کے مطابق یہ قبائلی ایجنسیاں آئندہ پانچ سال میں صوبہ
خیبرپختونخوامیں ضم ہونی ہیں اس طرح بلاشک وشبہہ یہ صوبہ پنجاب کے بعد
دوسرابڑاصوبہ بن جائیگااسی تناسب سے اسکی قومی اورصوبائی اسمبلی کی نشستیں
بھی بڑھ جائینگی اوراین ایف سی ایوارڈمیں حصہ بھی بڑھ جائیگااب تک وفاقی
محاصل اندازوں کے ذریعے تقسیم کرنے کاعمل جاری تھااب مردم شماری کے
بعدوسائل درست طریقے سے تقسیم ہونگے اورکسی کوکوئی اعتراض یاگلہ شکوہ نہیں
ہوگاخداکرے کہ حالیہ مردم شماری باخیریت تکمیل پذیرہواوراس ملک کے باشندوں
سمیت اسکی حکومتوں کوبھی درست اندازہ ہوکہ اسلامی دنیاکے سب سے اہم ملک کی
آبادی کتنی ہے خیبرپختونخواکیلئے حالیہ مردم شماری میں گھاٹے کی کوئی بات
نہیں بلکہ اس کی اصل آبادی سامنے آنے کی توقع کی جارہی ہے گزشتہ مردم شماری
کے مطابق پونے دوکروڑکی آبادی اس مرتبہ کم وبیش چارکروڑہونے کاامکان ہے
جبکہ قبائلی ایجنسیوں کوساتھ ملاکرحالیہ مردم شماری سے خیبرپختونخواکی کل
آبادی پانچ کروڑکے لگ بھگ ہوسکتی ہے۔ |