23مارچ’’اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں ‘‘

23مارچ کے دن کو وطن عزیز کی تاریخ میں منفرد حیثیت حاصل ہے اس دن برصغیر کے مسلمانوں نے لاہور کے منٹو پارک میں قرارداد منظور کی تھی جسے قرار دار پاکستان کا نام سے مشہور ہوئی اس دن کی اہمیت اس لئے ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں نے جس مقصد کا اظہار کیا تھاوہ صرف سات سال بعد یعنی 14اگست1947ء کو وہ منزل مل گئی اور دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک ’’پاکستان‘‘ کا نام اور سبز ہلالی پرچم بلند ہوامارچ کے آغاز ہوتے ہی ملک کے طول وعرض میں’’یوم پاکستان‘‘کے حوالے سے سرکاری و نجی سطح پر مختلف تقریبات کا آغاز ہو جاتا ہے تقریری مقابلوں ،ملی نغمے ،کے علاوہ سیمینارزاور دیگر تقریبات میں23مارچ کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے تاکہ نئی نسل بھی اس کی اہمیت سے آگاہ ہو سکے ،اس وقت عزم پاکستان پریڈ کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں امسال بھی جیسے جیسے 23مارچ کا تاریخ ساز دن قریب آتا جار ہا ہے قوم میں جوش وجذبہ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ،گزشتہ روز اسلام آباد میں پاک فوج کے جوان ریہرسل بھی کر رہے تھے اور پاک فضائیہ کے جدید طیارے بھی فضائی مشقوں میں مصروف تھے تا کہ یوم پاکستان کے دن بھر پورا نذاز سے پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ان مناطر کو دیکھا جائے کہ زندہ قومیں اس دن کو کس طرح مناتی ہیں ،حال ہی میں کراچی اور لاہور میں بھی 23مارچ کے تاریخ ساز دن کے حوالے سے تیاریاں عروج پر ہیں لاہور میں نہر کے ایک بڑے حصے کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے اور اس ثقافت کو اجاگر والے والے فلوٹ پیش کئے جارہے ہیں اسی طرح دیگر تاریخی مقامات برقی قمقون سے جگمگاتے نظر آرہے ہیں ،حکومت پنجاب سمیت وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس سال پریڈ میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو انعامات سے نوازا جائے گا ،آج جس آزاد فضا میں رہ رہے ہیں اس کا آغاز اس تاریخ ساز دن کو ہوا تھا پارک لاہور میں برصغیر کے مسلمانوں نے اس دن عہد کیا تھا کہ مسلمان اپنی جگاگانہ قربت کی بنیاد پر ایک آزاد وطن حاصل کر سکیں اور وہ آزاد وطن میں رہ سکیں کیونکہ دیکھا جائے تو برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ اپنے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی حفاظت کر سکیں اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آزاد وطن کو جنت نظیر بنادیں تاکہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں عدل و انساف کا بول بالا ہو اور جو انسانیت کے لئے مشکل راہ ثابت ہو ،دیکھا جائے تو23مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور کی منظوری سے برصغیر کے مسلمانون کو ولولہ تازہ ملا تھا جس کا خواب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا جب مسلمان قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئے اور مختصر عرصے میں ایک آزاد وطن پاکستان حاصل کر لیا ،ہر سال 23مارچ کاتاریک ساز دن قوم جس جوش وجذبے سے مناتی ہے اور کے پی سے لیکر مہران سبز ہلائی پرچم کے سائے تلے ایک اور آواز ہوکر قومی ترانہ گاتی ہے تو اس کی گونج سے ساری دنیا کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کل بھی ایک تھے اور آج بھی ایک ہیں اور23مارچ کی یادیں تازہ کر رہے ہیں ،آج وطن عزیز کو جس چیلنج کا سامنا ہے وہ دہشت گردی ہے اور پاک فوج کے جوان آپریشن ضرب عضب کے ذریعے وطن دشمنوں کا صفایا کر رہے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر رہے ہیں کیونکہ یہ بات طے ہے کہ قومی اتحاد یکجہتی اور جمہوریت کے ساتھ پاسداری کے بل بوتے پر ہی ہم قومی سلامتی کی منزل سر کر سکتے ہیں اسی طرح اسلامی امہ کے اتحاد کی کوششوں میں بھی وطن عزیز کی قیادت بھرپور کردار ادا کررہی ہے اسی لئے اس کو اسلامی دنیا میں تحسین وستائش کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ،اور اس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی دہشت گردی کے خلاف اس کے اقدامات اور قربانیوں سے آگاہ ہیں اور اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں ،مارچ کے ماہ میں یوم پاکستان کے حوالے سے ملک کے طول وعرض میں تقریبات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور چھوٹے بڑے شہروں میں اس دن کی تاریخی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لئے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور نئی نسل کو بتایا جاتا ہے کہ قرارداد کے مقاصد کیا تھے ۔۔۔؟ آج سکول و کالج میں طلبہ وطالبات میں بڑے زور شور سے منانے کی تیاریاں کرتے ہوئے گا رہے ہیں آج پاکستان میں ’’جوہر قابل ‘‘کی کمی نہیں اس کے ہنر مند دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کو منوا رہے ہین اس کے سائنس دان ہوں یا ڈاکٹر ،آرکٹیکٹ ہوں یا آئی ٹی کے علاوہ کسی بھی شعبہ کے ماہرین ان کی جانفشانی کا ہر کئی معترف بھی ہے اور گواہ بھی ہے یوم پاکستان کے دن کی اہمیت کے پیش نظر ہمیں بابائے قوم کی فرمودات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور ’’کام کام اور کام ‘‘پر عمل پیرا ہو کر وطن عزیز دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا ہو گا کیونکہ زندہ قوموں کا یہی وصف ان کو دنیا میں باوقار مقام دلاتا ہے پاکستان کے طول وعرض پر بہار چھائی ہوئی ہے فضا رنگ برمگے پھولوں اور اس کی خوشبوؤں سے مہک رہی ہے اور اس کازرہ زرہ چمک دمک رہا ہے اور کیوں نہ دمکے کہ اس خطہ پاک کو حاصل کرنے کے لئے بے بہار قربانیاں دی گئی ہیں لاکھوں مسلمانوں نے اپنا گھر بار مال و اسباب چھوڑ کر اس ارض پاک پر آئے تاکہ اس کی آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں ،وفاق اور چاروں صوبوں ں سمیت آزاد جموں وکشمیر اور گلگت وبلتستان میں یوم پاکستان روایتی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جائے گا اور پاکستان کے ہر بڑے و چھوٹے شہروں میں تقاریب منعقد کی جارہی ہیں اور پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل میں جذبہ حب الوطنی اجاگر ہو گا،اور نئی نسل صیح معنوں میں ثابت کرے گی کہ ’’اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں‘‘ اور ملک کی خاطر جان ومال کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے،کسی کو کافر کہنے،قتل پر اکسانے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے پر حکومت کاروائی کرے گی،مدارس کی رجسٹریشن ہوگی،جس کے لئے وازرات داخلہ کی زیر نگرانی ایک کمیٹی قائم کی جائے گی،مدارس کا تمام مالی لین دین بنکوں کے ذریعے ہو گا اور وہ اپنے اخراجات کا باقاعدہ آڈٹ کرائیں گے بیرونی فنڈنگ کا طریق کار حکومت طے کرے گی ،نصابی معامات طے کرنے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور مدارس کی تنظیموں کے نمائندؤں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی اور اہم فیصلہ یہ بھی ہوا کہ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اے لیول اور او لیول تک بھی تعلیم بھی دی جائے گی ،دینی مدارس میں اصلاحات کی ضرورت قیام پاکستان کے وقت ہی سے محسوس کی جا رہی تھی ،پاکستان بنا تو اس وقت دینی مدارس کی تعداد 200کے لگ بھگ تھی جو اب بڑھکر چالیس ہزار سے زیادہ ہے ان میں سے تقریبا 26ہزار رجسٹرڈ ہیں جہاں تعلیم کے علاوہ رہائش اور طعام کی سہولتیں بھی ہیں ،اور 75ہزار غیر اقامتی ادارے ہیں ،یہ مدارس اور مکتب دینی تعلیم کے قابل تکریم مراکز ہیں ان میں زیادہ تر تعداد غریب اور بے وسیلہ بچے نہ صرف خود تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ فارغ التحصیل ہو کر ملک کے کونے کونے میں قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم دیتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو لادہنیت اور گمراہی سے بچاتے ہیں۔۔۔۔اقامتی مدراس زیادہ تر مخیر حضرات کے عطیات سے چلتے ہیں اور ان پر امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد اس وقت بڑھا جب اسلام مخالف لابی نے انہیں مفلوج کرنے کے لئے ان کا تعلق دہشت گردی سے جوڑنا شروع کیا۔۔۔اس حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ ا جلاس میں شریک علماء اکرام نے حکومت سے خود مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث مدارس کی نشاندہی کریں اور اس حوالے سے مدارس کی اصلاع کے لئے حکمت عملی وضع کرے تاکہ انتہا پسندی اور مذہبی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے۔۔۔۔۔۔

Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43837 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.