آج ہر خاص وعام سوشل میڈیاپر اپنے وجود کا احساس
دلاناچاہتاہے۔بہتر ،عمدہ اور انمول اقوال پیش کرنے کی دُھن میں اکثر
وبیشترتحقیق وتفتیش کا خیال بھی نہیں رہتااور نہ ہی یہ احسا س کہ کسی صاحب
ِعلم سے دریافت کرلیناچاہیے۔اسی سبب سے سوشل میڈیاپر کئی بے حوالہ اور بے
بنیاد باتیں گردش کررہی ہیں۔حتیٰ کہ لوگ اس قدر بے پرواہ ہوگئے ہے کہ کسی
بھی قول کو حدیث شریف بناکر یا فکر انگیز اقوال کو حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ
وجہہ الکریم سے منسوب کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ہیں اورکامل اعتماد
کے ساتھ مختلف حلقوں میں اسے شیئر کرتے ہیں۔ساتھ ہی یہ نوٹ بھی لکھ دیتے
ہیں کہ زیادہ سے زیادہ شیئر کرو تاکہ ہر ایک تک یہ بات پہنچ جائے۔جب کہ
انھیں خود علم نہیں ہوتا ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے یا کسی جاہل نے یوں ہی
منسوب کردیا ہے۔لہٰذاآنکھ بند کرکے ایسی باتوں پر اعتماد ویقین کرنا غیر
محتاط طریقہ ہے ۔جب تک معتبر ذرائع سے احادیث اوراقوال سلف وصالحین کی
تصدیق نہ ہوجائے اسے شیئر کرنے سے پرہیزکرنا چاہیے۔مگر کیاکرے اس قوم کا جو
اس قدر بے حس ہے کہ ایسے میسیج بھی فَاروَرڈ کرنے سے پرہیز نہیں کرتے جس
میں لکھا ہوتا ہے کہ بیس لوگوں کو بھیجنے پر فائدہ ہوگا اور نہ بھیجنے پر
نقصان ۔سوشل میڈیاکے پیغامات کو پڑھ کر ہوٹل وبیڈروم میں بیٹھے قوم کے بڑے
بڑے دانش وروں کی یتیم العقلی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ خود کے پاس
بھی علم نہیں،دوسروں کو بھی گمراہ کررہے ہیں اور ملت کی فکر کا جنازہ بھی
نکال رہے ہیں۔
ایک حدیث واٹس ایپ پر پڑھا،جس کا مفہوم یہ تھاکہ جو شخص جھُکنے میں بے عزت
ہوا،وہ قیامت کے دن مجھ سے اپنی عزت لے لے۔صحیح مسلم کا حوالہ بھی درج
تھا۔علماسے پوچھنے پر معلوم ہواکہ ان الفاظ میں کوئی روایت حدیث کی کتابوں
میں نہیں ملتی اور صحیح مسلم کا حوالہ تو بالکل غلط ہے۔ہاں صحیح روایت میں
یہ آیا ہے کہ ’’جس نے اﷲ کے لیے تواضع اختیار کی اﷲ اسے سربلند کرے
گا۔‘‘رمضان شریف کے حوالے سے ایک پیغام یہ گردش کرتا ہے کہ’’ نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو بھی رمضان کی خبر سب سے پہلے دے اس کے لیے
جہنم کی آگ حرام ہے ۔آپ بھی کسی کو بتاؤ تاکہ آپ بھی جہنم سے آزاد
ہوجائیں۔‘‘اس طرح کی متعدد روایتیں کوڈ کی جاسکتی ہیں جسے علمائے کرام نے
فرضی اور من گھڑت بتایاہے۔کسی ایسی بات کو کسی گروپ میں یاانفرادی طور پر
کسی کو بھیجنا جس کے مستند ہونے کی تحقیق نہ ہو، گناہ عظیم ہے بالخصوص جسے
حدیث شریف کہاگیاہو۔غلط بات کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کے
متعلق بڑی سخت وعید آئی ہے۔اس چیز کا بھی مشاہدہ ہواہے کہ کسی گستاخ نے اگر
اسلام کے خلاف زہر افشانی کی ہے تو غیر تو دور اپنے ہی لوگ اسے شیئر کرتے
ہیں اور یہ لکھتے ہے کہ زیادہ سے زیادہ شیئر کرو تاکہ حکومت دہل جائے،
گستاخ کو پھانسی ہوجائے ،ظالم اپنے کیفرکردار کو پہنچے وغیرہ۔غیروں نے تو
گستاخی کر دی اور ان کا مقصد ہی اسے زیادہ شیئر کروانا ہوتا ہے مگر کیا کرے
معاشرے کے ایسے عقل مندوں کاجو خود کا بھی وقت برباد کرتے ہیں اور لوگوں کے
جذبات بھی مجروح کرتے ہیں۔ایسے پیغامات کو پڑھ کر اشتعال انگیز ہونافطری
تقاضہ ہے، مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ صرف سوشل میڈیا پر پیغامات شیئر کرنے
سے حکومت کیسے دہل جائے گی ؟گستاخ کو، کورٹ کیسے پھانسی کی سزا سنائے گی
اور مجرم اپنے کیفر کردار تک کیسے پہنچے گا؟کیا ایسے گستاخوں کے لیے مکمل
حکمت عملی کے ساتھ سائبر سیل کی مدد درکار نہیں ہے ؟قانونی جارہ جوئی کا
راستہ کیوں نہیں اختیار کیاجاتا؟ اور حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں تک اپنی بات
مثبت انداز میں کیوں نہیں پہنچائی جاتی ہے ؟ یہاں تو جرأ ت وبہادری کا یہ
عالم ہے کہ جامع مسجد کے پاس جانور کسی کو دوڑاتا ہے تو یہی خبر بس اسٹینڈ
تک پہنچتے پہنچتے لاٹھی چارج اور فاران ہاسپٹل تک پہنچنے تک فساد کی صورت
اختیار کر جاتی ہے۔ایسے پس منظر میں اپنے مطالبات اور تقاضے مثبت طریقے ہی
سے حل کیے جاسکتے ہیں۔
بہت سے ایسے بھی مفکرین ہیں جو دینی ،ملی اوراندرونی مسائل کو سوشل میڈیاپر
اُچھالتے ہیں،علما کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں،مسلکی تضادات کو ہَوا دے کر
سوچتے ہیں کہ ہم فلاں شخص یا فلاں جماعت کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ سوال
یہ پیدا ہوتا کہ ہم اپنے مسائل سے اغیارکوکیوں باخبر کررہے ہیں؟گھر کی بات
گلی گلی کیوں گھومتی ہے؟ کیاہمیں علم نہیں کہ دشمنان اسلام ان باتوں سے
فائدہ اُٹھا کر اسلام کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟اگر کسی جلسہ یا
محفل میں کوئی غیر مسلم اسلام قبول کر لے تو اس خبر کو بطور پبلسٹی استعمال
کیا جاتاہے۔ہر مکتبہ فکر کا آدمی اس خبر کے ذریعے واہ واہی بٹورنا چاہتا ہے
جب کہ ہمیں لَوجہاد اور دھرم پریورتن جیسے مسائل کا سامنا کرناہے۔ویسے بھی
اسلام دین فطرت ہے ۔اسلام ہر ایک انسان کا دین ہے۔دیر سویر اسے اس دین کو
قبول کرنا ہی ہے۔پھر کیوں اس پر واویلا مچا کر غیروں کو باخبر کیاجاتا
ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اخباربازی سے گریز کرتے ہوئے اس نَو مسلم کی تعلیم
وتربیت پر زور دیا جاتا۔
سوشل میڈیا پر ایسے دور اندیش اور مفکرین کی خاصی بڑی تعداد موجود ہیں جن
کی ہر پوسٹ علمی ،ادبی ،اخلاقی اور فکری ہوتی ہے۔مگرحقیقت کی دنیامیں دیکھا
جائے تو سوشل میڈیا کے ان بااخلاق مجاہدین کی زندگی خود اندھیرے میں گُم
ہے،والدین اپنی حاجتوں،بیوی خواہشوں اور بچے اپنی مرادوں کو ترس رہے
ہیں۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ دوسروں کو دعوت دینے سے پہلے خود کی اصلاح کی جاتی
،والدین ،بیوی اور بچوں کے حقوق ادا کیے جاتے مگر افسوس!وقت کی بربادی کے
ساتھ مال کا ضیاع اور حقوق سے غفلت ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔بہت ممکن ہے کہ
مذکورہ سوچ سے ہر کوئی اتفاق نہ کریں مگر اس ضمن میں حسّاس ہونے کی ضرورت
ہے اور اہل علم حضرات کو چاہیے کہ اس امر میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ |