دنیا بھر کے ترقی یافتہ یا ترقی کی طرف تیزی سے گامزن
ممالک اور معاشروں کا تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ریاست کا
کوئی بھی شعبہ اس وقت تک مثبت نتائج پیدا نہیں کر سکتا جب تک ان شعبوں کی
پالیسی مرتب کرنے والے،اس شعبے کو چلانے والے یا اس پالیسی پہ عملدرآمد کو
یقینی بنانے والے ادارے مخلص اور ایماندار لوگوں کے ہاتھ میں نہیں آجاتے۔
ریاست اور معاشرے کو اچھے اور برے انجام سے دوچار کرنے میں نظام کے اداروں
کا کلیدی کردار ہوتا ہے،اور اداروں کو چلانے والے افراد ہی اس کے ذمہ دار
ہوتے ہیں،کرپٹ اور نااہل افراد جب اداروں پہ قبضہ جما لیتےہیں تو پھر اس
معاشرے کو تباہ و برباد ہونے میں وقت نہیں لگتا۔تباہی کا یہ سلسلہ مقامی
سطح سے شروع ہو کر مرکزی سطح تک پہنچتا ہے اور مرکزی سطح سے نچلی سطح پہ
اپنے بد اثرات مرتب کرتا ہے،
مثال کے طور پہ اگر بلدیہ کا نظام متحرک، فعال اور منظم ہے اور اس کو چلانے
والے افراد دیانتدار اور قومی سوچ کے حامل ہیں اور ان کو یہ خوف بھی ہو کہ
اگر وہ اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نہیں ادا کریں گے تو قانون کی زد میں
آئیں گے اور ان کی کسی بھی کوتاہی کو قابل معافی نہیں سمجھا جائے گا۔تو
یقینی طور پہ وہ اپنا کام بہتر انداز سے کریں گے اور اس کے مثبت نتائج
برآمد ہوں گے۔بلدیہ کا نظام اگر فعال نہیں ہو گا،کرپٹ اور ناہل افراد پہ
مشتمل ہو گا تو اس کے نتائج ویسے ہی برآمد ہون گے جیسے اس وقت ہمارے معاشرے
میں ہیں،ایک فوڈ انسپکٹر اپنے علاقہ ذمہ داری میں کھانے پینے کی اشیاء
فروخت کرنے والوں کو اس وجہ سے کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ اسے رشوت کے طور پہ
ماہانہ ملتا ہے،وہ اس میں دیگر بیورو کریسی اور عہدیداران کو شریک کرتا ہے
اور اس طرح تمام ہوٹلوں،ریسٹورنٹس، فٹ پاتھوں پہ کھانے پینے کی اشیاء فروخت
کرنے والوں کو کسی بھی ملاوٹ، جعل سازی، اور مضر صحت اشیاء کی خرید و فروخت
کی آزادی ہوتی ہے،اور پھر لوگ انہیں خریدنے پہ مجبور ہوتے ہیں اور رفتہ
رفتہ لوگوں کی بھی گندا کھانے کی عادت پختہ ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں
ہسپتال مریضوں سے بھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔کسی کو کئی پرواہ نہیں ہوتی،اس
بددیانتی اور ظلم میں فوڈ انسپکٹر سمیت تمام سٹاف ملوث ہوتا ہے خوب مال
کماتے ہیں اور اپنی ذاتی مفادات پہ قومی اور اجتماعی مفادات کو نقصان
پہنچاتے ہیں،یہ سلسلہ اس وقت ہمارے پورے ملک میں جاری و ساری ہے،چھوٹا شہر
ہو یا بڑا شہر سب کے فٹ پاتھوں پہ مکھیوں،دھول مٹی میں گٹر نالوں کے قریب
بغیر کسی احتیاط کے فروخت ہو رہی ہیں،لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں،ملاوٹ شدہ
خوراک کھانے سے متعدی اور جان لیوا بیماریاں عام ہیں۔بلدیہ کا نظام کرپٹ ہو
گا تو لوگ گندا پانی پئیں گے، بلدیہ کا نظام غیر فعال ہو گا تو لوگ گندگی
میں زندگی گذارنے پہ مجبور ہوں، بلدیہ کا نظام نااہل لوگوں کے ہاتھ میں ہو
گا تو لوگ بنادی سہولیات کے لئے ترسیں گے۔اس وقت یہی افسوسناک صورتحال پورے
ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں دکھائی دیتی ہے،کچرے کے ڈھیر ہر طرف نظر
آتے ہیں،کوئی سالڈ ویسٹ کا منظم اور فعال نظام نہیں،سینیٹیشن کا نظام اس
قدر تباہ حال ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگ پینے کے پانی کے ساتھ گٹر کا پانی
پینے پہ مجبور ہیں۔
لوکل گورنمنٹ کو فعال کئے بغیر معاشرے کے بنیادی مسائل حل نہیں کئے جا
سکتے۔لیکن اس کے لئے یقینی طور پہ مرکزی اور صوبائی نظام بھی کرپشن سے پاک
کرنے پڑیں گے،کیونکہ صوبائی اور مرکزی نظام اگر کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں
ہو گا تو کبھی بھی لوکل گورنمنٹ کا نظام درست نہیں کیا جا سکتا۔
کرپٹ انتظامیہ کی وجہ سے ہی بڑے سے بڑے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں،جیسا کہ
ہمارے ملک میں ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے، سٹیل مل ہو یا پی آئی اے ہو یا
صنعتی نظام ہو یا زرعی نظام ہو یا تجارتی نظام ہر طرف سے خسارے کی خبریں مل
رہی ہیں،اگر خسارا نہی ہو رہا تو وہ ارباب اختیار کے ذاتی منصوبوں اور
تجارتوں اور صنعتوں کو نہیں ہو رہا۔اب سی پیک کے منصوبے کے بارے سن رہے
ہیں،ساری دنیا کی نظریں اس پہ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسی باصلاحیت،با
کردار اور دیانتدار انتظامیہ ہمارے ہاں دستیاب ہے جو اس اہم ترین منصوبے کو
نہ صرف پایہ تکمیل تک پہنچائے گی بلکہ اس کے ثمرات سے اس ملک اور قوم کی
بہتری اور ترقی کے میں کوئی کردارکو مستفید کر سکے گی۔ہماری تاریخ انتہائی
مایوس کن سبق دیتی ہے، موٹر وے ہو یا کوئی بھی منصوبہ میگا کرپشن،ہر میگا
پراجیکٹ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے،بڑے بڑے چور،بڑے بڑے عہدوں پہ موجود ہیں،خوب
دل کھول کر کرپشن بھی کرتے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے سر عام جھوٹ بھی بول
بول کر اپنی صفائیاں پیش کرتے ہیں،ان کی کرپشن اور چوریوں نے ملکی معیشت
اور اد اروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے،لیکن وہ بدستور اس ملک کی تقدیر کے
مالک بنے ہوئے ہٰں اورنئے شکار سی پیک ہو یا کوئی اور منصوبہ اپنے فقط ذاتی
مالی مفادات کے حصول کے لئے سرگرم ہیں۔خدا نہ کرے کہ سی پیک کا حشر بھی
دیگر میگا پراجیکٹس کی طرح ہو ورنہ ملک کو ایک انتہائی بڑی تباہی سے کوئی
نہیں بچا سکتا۔
نظام چلانے والے طبقے کی اہلیت اور اخلاص ہی لوکل گورنمنٹ کی سطح سے لے کر
ملکی اور قومی سطح کے انتظام اور نظام تک کو چلا کر بہتر نتائج پیدا کر
سکتا ہے ورنہ اسی گھسے پٹے اور کرپٹ نظام کے تحت چلنے والے ہر سطح کے
منصوبے فقط خاک میں ملتے جائیں گے۔
اس وقت ضروری ہے کہ ملکی نظام میں جوہری تبدیلی لانے کے لئے جدو جہد کی
جائے اور کرپٹ مافیا کے چنگل سے وطن عزیز کو نجات دلائی جائے اور ان تمام
منصوبوں کو اور شعبوں کو کرپٹ بیورو کریسی، سیاستدانوں اور دیگر اہلکاروں
سے نجات دلائی جائے۔تب کہیں جا کر امید کی کوئی کرن روشن ہو سکتی ہے ورنہ
حالات اس سے بھی بدتر صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
|