آج یوم پاکستان ہے۔ توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز ہو تاہے۔
پریڈ ہو تی ہے۔ 75سال قبل منٹو پارک یا اقبال پارک لاہور میں یہ قرارداد
لاہور یا قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک
الگ آزاد اور خودمختار وطن کے قیام کا عہد کیا۔مسلمانوں نے متحد ہو کر اپنے
لئے الگ وطن کے خواب کی تعبیر کی جانب پیش رفت کی۔ اس وقت یہ تصور نہ تھا
کہ یہاں کبھی لسانی اور دیگر ازموں کو اسلامی نظریہ پر حاوی کرنے کی کوشش
کی جائے گی۔ پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس میں پنجابی اور پختون طلباء کے
درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش اس کی مثال ہے۔ پاکستانی اور اسلامی تہذیب
کے خلاف سازشیں اس پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن انہیں سب نے مل کر ناکام
بنایا ہے۔
پاکستان کا لفظ سب سے پہلے چودھری رحمت علی نے 1933میں دیار غیر برطانیہ
میں دوران تعلیم Now or Never کے زیر عنوان لکھے گئے پمفلٹ میں پیش کیا ۔حکیم
الامت علامہ اقبال ؒنے پاکستان کا تصوردیا۔ 23 مارچ 1940 ء کو لاہور میں وہ
قرار داد پاکستان منظور کی گئی جس میں یہاں کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا
مطالبہ کیا گیا۔22 مارچ سے 24 مارچ 1940 ء تک آل انڈیا مسلم لیگ نے منٹو
پارک لاہور جسے اب مینار پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے میں سالانہ
اجلاس منعقد کیا ۔ یہ اجلاس تاریخی اجلاس ثابت ہوا۔ اجلاس کے پہلے روز قائد
اعظم محمد علی جناح نے گزشتہ چند ماہ کے واقعات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے
مسئلے کا حل یوں پیش کیا کہ انڈیا کا مسئلہ فرقہ وارانہ طرز کا نہیں بلکہ
بین الاقوامی ہے اور اسے اسی انداز سے حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنی
تقریر میں واضح طور پر کہا کہ ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان اختلافات اتنے
زیادہ اور اتنے خطرناک ہیں کہ وہ ایک مرکزی حکومت کے تحت متحد ہو کر نہیں
رہ سکتے اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ہندو اور
مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اس لئے ان کے لئے دو الگ الگ ریاستوں میں
رہنا ناگزیر ہے۔کنہیا کمار نے بھارت میں آزادی کا تصور بد ل دیا ہے۔ دہلی
کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی یا جے این یو طلباء لیڈر نے بھارت کے اندر
آزادی کا نعرہ لگا کر بائیں اور دائیں بازو میں تصادم کی خوفناک تصویر پیش
کی ہے۔ قائد اعظم نے کہا ’’ ہندو اور مسلمان دو مختلف مذاہب ، فلسفوں،
سماجی رسومات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ تو شادی
بیاہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی مرسکتے ہیں، ان کا جینا مرنا ساتھ نہیں، وہ دو
مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو جداگانہ نظریات پر قائم ہیں، زندگی کے
بارے میں ان کا تصور جدا ہے۔ یہ واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف
ذرائع سے جڑے ہیں۔ ان کی مختلف کہانیاں، ہیرو اور معاملات ہیں، ایک کا ہیرو
دوسرے کا ولن ہے، اسی طرح ایک کی شکست دوسرے کی جیت ہے۔اس طرح کی دو قوموں
کو ایک ملک اور وہ بھی جب ایک اقلیت میں ہو اور دوسری اکثریت میں ہو ، جمع
رکھنا خطرناک ہے۔‘‘ قائد اعظم نے مزید کہا ’’ مسلمان کسی بھی قوم کی تعریف
کے تحت ایک قوم ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ جذبے ، ثقافت، معیشت، سماجی
اور سیاسی زندگی اس طرح گزاریں جسے ہم بہتر سمجھتے ہوں اور جو ہمارے اسلاف
کے طریقوں کے مطابق ہو ۔‘‘
اقبال پارک اجلاس میں کشمیر سے ایم اے حفیظ،ایم اے عزیز،اسماعیل ساغر،پیر
ضیاء الدین اندرابی،اسحاق قریشی،حسن گردیزی،سردار فتح محمد،مفتی گل
احمد،غلام حیدر جنڈالوی اور دیگرنے شرکت کی۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ مستقبل
میں کسی مقبول بٹ اور کسی افضل گورو کو ہندو انتہا پسندوں کی خواہش اور
اجتماعی ضمیر کی تسکین کے لئے پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔اور پاکستان کرکٹ
ٹیم کی کامیابی پر تالیاں بجانے پر کشمیری طلباء پر تشدد ہو گا اور انہیں
بھارتی تعلیمی اداروں سے نکال دیا جائے گا۔ ان پر جرمانے ہوں گے۔ بغاوت کے
مقدمے قائم ہوں گے۔قائد اعظم کے خیالات کی روشنی میں بنگال کے اس وقت کے
وزیر اعلیٰ شیر بنگال اے کے فضل الحق نے تاریخی قرار داد پیش کی جو قرار
داد لاہور یا قرار داد پاکستان کے نام سے معروف ہے۔ تصور پاکستان اور قیام
پاکستان میں بنگالیوں کا اہم کردار رہا۔ لیکن بنگالیوں کو برابری کا مقام
نہ ملا۔ ان کے حقوق کو تسلیم نہ کیا گیا۔ اگر بنگالی بھی ملک کی دوسری
سرکاری زبان قرار دی جاتی تو کوئی غلط بات نہ تھی۔ بھارت میں بھی اس وقت کل
22سرکاری زبانیں ہیں۔ 17زبانیں بھارتی کرنسی نوٹوں پر دی جاتی ہیں۔لیکن
یہاں دو سرکاری زبانوں کو بھی برداشت نہ کیا گیا۔آج اتحاد اور پاکستان
توڑنے کے مخالفین کو اسی بنگلہ دیش میں پھانسی دی جا رہی ہے جہاں سے
مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کے قیام کی چنگاری سلگی تھی۔پاکستان میں آج
بھی اسلام پر متحد ہونے کے بجائے قومیت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ سندھی اور
بلوچی قومیت بھی بنگالی طریقہ کار پر عمل پیرا نظرآتی ہے۔
قرار داد پاکستان کے تحت مسلمانوں کو ہندوؤں کی پالیسی کے باعث الگ وطن کا
مطالبہ کیوں کرنا پڑا۔ مورخین نے اس کے کم از کم 8 بڑے عوامل پیش کئے ہیں۔
(۱)یہ بات واضح تھی کہ اسلامی تہذیب ایک منفرد وممتاز ہے جو ہندو تہذیب سے
بالکل مختلف ہے۔ اسلام کو ہندوازم ہڑپ کرنے میں ناکام رہا ہے۔(۲) انگریزوں
کی سرپرستی میں ہندوؤں نے جس قدر مسلمانوں کی تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کی
،مسلمان اسی قدر بیدار ہوئے اور بالآخر انہوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے
جداگانہ انتخاب کا مطالبہ منوایا۔(۳) قائد اعظم کی کوششوں سے میثاق لکھنو
ہوا اور ہندو مسلم اتحاد قائم ہوگیا۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کے قومی تشخص کو
تسلیم کیا، انہیں جداگانہ انتخاب کا تحفظ دیا اور ان کی رضامندی کے بغیر
قانون سازی نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن چند سال بعد وہ اپنے وعدوں سے مکُر
گئے اور مسلمانوں کو محمڈن ہندؤ بنانے کی باتیں شروع کردیں۔(۴)نہرو رپورٹ
نے ہندو مسلم اتحاد کے خواب کو توڑ دیا اور اتحاد کے خواہش مند مسلم قائدین
بھی اس رپورٹ میں کم از کم ترامیم بھی نہ کراسکے۔(۵)ہندو مسلم فسادات نے
ملک بھر میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کردیا اور دونوں قوموں کا اکھٹے رہنا
محال ہو گیا۔(۶) کانگریس نے 1937 ء سے 1939 ء تک اکثرصوبوں میں وزارتیں
قائم کیں اور مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ اور امتیازی سلوک روا رکھا۔(۷)مسلمان
ہمیشہ آزادی کے خواہش مند رہے ۔ اس کے لئے وہ ہندوؤں کے ساتھ تعاون کرنے پر
آمادہ ہوئے۔ لیکن انہوں نے جان لیا کہ انگریز سے آزاد ہونے کے بعد وہ ہندو
کے غلام بن جائیں گے، انہوں نے دونوں سے نجات پانے کیلئے الگ وطن کا مطالبہ
کیا۔(۸) مسلمان اسلامی نظام چاہتے تھے، لیکن یہ اسلامی ریاست کے قیام کے
بغیر ناممکن تھا۔
قرارداد پاکستان میں صرف اصولوں کا تعین کیا گیا اور اس کی تفصیلات کو
مستقبل پر چھوڑ دیا گیا۔ 1941 ء میں اسے ہی آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کا
حصہ بنایا گیا۔ اسی قرارداد کی روشنی میں 1946 ء میں مسلم لیگ نے مسلمانوں
کے لئے ایک ملک بنانے کا فیصلہ کیا، اس قرارداد کا پس منظر گورنمنٹ آف
انڈیا ایکٹ 1935 ء تھا۔ اس کی روسے مرکزی حکومت کو ایک ایسی فیڈریشن کی شکل
دی گئی تھی جس میں برطانوی حکومت میں شامل تمام صوبے اور خواہش مند ریاستیں
شامل ہوں۔ اس ایکٹ میں مسلمانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے۔ قائد اعظم
نے اس ایکٹ کو مکمل طور پربرا اور ناقابل قبول قرار دیا۔1937 ء میں جب
ہندوستان میں صوبائی خودمختاری متعارف کرائی گئی اور انتخابات میں کانگریس
نے 6 صوبوں میں اکثریت حاصل کرلی تو مسلمانوں کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی
لحاظ سے کچل دیا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا۔ان کو روز گار اور
تعلیم کے مواقع نہ دیئے گئے۔کانگریس وزارتوں نے وردھا سکیمیں شروع کیں یہ
تعلیمی سکیمیں تھیں جن کا مقصد مسلمان بچوں اور نوجوانوں کو اسلام سے
لاتعلق کرنا تھا۔متذکرہ بعض وجوہات کے باعث قرار داد پاکستان منظور ہوئی۔
اس وقت پاکستان کا نام نہیں لیا گیا بلکہ سب سے پہلے ہندو اخبارات نے مذاق
اڑانے کیلئے اسے قرار داد پاکستان کہا ۔ یہی قرار داد آزاد پاکستان کی وجہ
بنی۔آج بھی بھارت میں وہی صورت حال ہے۔بھارتی مسلمان مظالم اور امتیاز کے
شکار ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں مزید پاکستان قائم ہوں گے۔ |