قارئین کرام یہ سوال ہم نے پہلے بھی کیا
تھا اور آج ایک بار پھر یہ سوال میرے سامنے ناگ بن کر کھڑا ہوا ہے اور مجھے
ڈس رہا ہے کہ کیا بے غیرتی کی کوئی حد ہوتی ہے؟ اس کا جواب میں پہلے بھی دے
چکا ہوں لیکن مزید بات کرنے سے پہلے میں کچھ بات کرونگا دہشت گردی کے خلاف
نام نہاد جنگ کی، نائن الیون کے بعد جب امریکہ ایک ارنے بھینسے کی طرح
افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا۔ اس وقت امریکہ نے پاکستان کو پتھر کے دور میں
پہنچانے کی دھمکی دے کر اپنے ساتھ اس نام نہاد جنگ میں شامل کرلیا تھا۔ اور
امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پاکستان نہ صرف اس جنگ کی حمایت کرے
بلکہ عملی طور پر اس جنگ میں حصہ لے اور امریکہ کو ائر بیس فراہم کرے جہاں
سے وہ ہمارے پڑوسی مسلم ملک افغانستان میں حملے کرسکے۔ سابق کمانڈو صدر
جنرل (ریٹائرڈ ) پرویز مشرف نے ایک فون پر ہی امریکہ کے مطالبات مان لئے
تھے۔ حالانکہ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے ساتھ ہمارا دینی رشتہ
بھی ہے اور سب سے بڑی بات کہ طالبان کی حکومت کو دنیا بھر میں صرف دو ممالک
یعنی پاکستان اور سعودی عرب نے ہی تسلیم کیا تھا۔ لیکن پاکستان نے ان تمام
حقائق کے باوجود امریکہ کا آلہ کار بننا منظور کیا۔
لیکن شائد بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ پاکستان کی طرح امریکہ نے
بھارت اور ایران سے بھی اس نام نہاد جنگ میں تعاون مانگا تھا۔ لیکن ان
دونوں نے بڑی صفائی سے اس کو جواب دیدیا امریکہ نے جب بھارت سے افغانستان
اور طالبان کے خلاف جنگ کے لئے اڈے طلب کئے تو چالاک بنئے نے مستقبل کی
صورتحال کو نظر میں رکھا اور امریکہ کو جواب دیا کہ بے شک ہم دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں اس کی حمایت کرینگے لیکن کسی ملک کے خلاف اپنے اڈے نہیں دے
سکتے ہاں اقوام متحدہ اور کسی بھی فورم پر امریکہ کی حمایت ضرور کریں گے۔
اسی طرح جب امریکہ نے ایران سے بھی تعاون طلب کیا۔ ایران کی آبادی شیعہ
مسلمانوں پر مشتمل ہے اور طالبان شیعہ مخالف ہیں اور نائن الیون سے پہلے
ایران افغانستان سرحد پر دونوں ملکوں کی جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔ ہونا تو یہ
چاہیے کہ تھا ایران اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتا اور امریکہ کو سب سے
پہلے اڈے فراہم کرتا تاکہ اس کے پڑوس میں اس کی مخالف حکومت کو ختم کیا
جاسکے لیکن ایران نے اس موقع پر دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور امریکہ کو جواب
دیا کہ ٹھیک ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں اور بجا کہ ایران طالبان کی
حکومت کو تسلیم نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود بھی امریکہ کو افغانستان پر
حملے کے لئے اڈے فراہم نہیں کریں گے۔
اور اس دن کے بعد سے ہماری بدبختی کا دور شروع ہوا، اس دن کے بعد سے ہی
دنیا بھر میں ہماری ذلت و رسوائی کا باب کھل گیا۔ اڈے فراہم کرنے اور دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہونے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ
پاکستان کا شکر گزار ہوتا۔ اس کے باشندوں کو عزت دیتا، لیکن ہوا یہ کہ اس
کے بعد دنیا بھر میں پاکستانی پاسپورٹ کو دیکھتے ہیں ائیرپورٹ پر الگ لائن
لگانے کا حکم دیا جاتا ہے، اور یہ بھی ہوا کہ پاکستانیوں کی برہنہ تلاشی تک
لی جاتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان میں امریکہ کے میزائل حملوں کا
سلسلہ شروع ہوا، پاکستان نے اس پر کوئی احتجاج نہ کیا بلکہ اس وقت کے صدر
جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کے تحت حکومت پاکستان امریکہ کی ہر واردات کو
اپنے سر لیتی رہی کہ فلاں میزائل حملہ ہم نے کیا تھا؟ فلاں جگہ بمباری
امریکہ نے نہیں بلکہ ہم نے کی تھی۔ یہ حکومت عوام کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے میں مشغول تھی کہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ایک بہادر
صحافی حیات اللہ نے یہ بتایا کہ میزائل حملے پاکستان نہیں بلکہ امریکہ کر
رہا ہے اور اس نے امریکی ساختہ میزائلوں کے ٹکڑے بھی پیش کئے ( اور سچائی
کے اس جرم میں حیات اللہ کو شہید کردیا گیا )۔
پھر یہ سلسلہ مزید بڑھا اور امریکہ نے افغانستان سے پاکستان میں میزائل
حملے کرنے کے بجائے جاسوس طیارے پاکستان کی حدود میں بھیجنے شروع کئے اور
ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ آج تک جاری ہے۔ جبکہ اس دوران متعدد
بار افغان اور نیٹو افواج پاک افغان سرحد کی خلاف ورزی کرتی رہیں جبکہ ایک
بار تو امریکہ نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اپنے کمانڈوز کو پاکستان کی سرحد
میں داخل کیا اور ان کمانڈوز نے باقاعدہ گھروں میں گھس کر بے گناہوں کو قتل
کیا اور اطمینان سے انہی ہیلی کاپٹروں میں فرار ہوگئے لیکن حکومت نے محض
زبانی جمع خرچ اور مذمت کر کے قوم کو دھوکا دیتی رہی۔ یہ سلسلہ نہ صرف
گزشتہ دور میں بلکہ موجودہ حکومت میں بھی جاری ہے اور موجودہ حکومت بھی محض
زبانی مذمت کر کے قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کررہی ہے۔
اب حکمرانوں کی بے غیرتی اور بے حمیتی سے ان صلیبی افواج کی ہمت اتنی بڑھ
گئی ہے کہ امریکہ تو امریکہ اب نیٹو نے بھی پاکستانی حدود کی خلاف ورزی
شروع کردی ہے۔ اور چوبیس گھنٹے میں نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی حدود
میں گھس کر تین حملے کئے ہیں اور ان تین حملوں میں ٥٦ افراد جاں بحق ہوئے
ہیں۔ اور ان لوگوں کی دیدہ دلیری اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب ان لوگوں نے
پاکستان کے زبانی احتجاج کو بھی مسترد کر کے یہ کہا ہے کہ پاکستانی حدود کے
اندر گھس کر از خود کاروائی کا حق رکھتے ہیں۔ جبکہ امریکی ڈرون حملے اس کے
علاوہ ہیں۔
اب حکمرانوں نے اپنی نا اہلی اور بے غیرتی پر پردہ ڈالنے کے لئے جواز گھڑا
ہے کہ ان حملوں میں القاعدہ کے بہت اہم لیڈر مارے گئے ہیں قطع نظر اس کے کہ
مرنے والے کون تھے؟ آیا واقعی دہشت گرد اور القاعدہ رکن تھے یا عام شہری
تھے؟ یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان کو پاکستان کےاندر کاروائی کا حق
کس نے دیا ہے؟اور یہ کیسے ممکن ہوتا ہے کہ کوئی غیر ملکی طیارہ اور ہیلی
کاپٹر ہماری فضائی حدود میں گھس آتا ہے اور واپس چلا جاتا ہے؟ کیا پاکستان
ائیر فورس کو اس کی خبر نہیں ہوتی یا وہ حکومت کے احکامت کے تحت انکو
طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کو واپس جانے دیتے ہیں؟ اور اگر واقعی نیٹو کے ان
حملوں میں حکومت کی مرضی شامل نہیں ہے تو پھر اب تک پاکستان سے نیٹو کو
خوراک و اسلحہ فراہم کرنے والے کنٹینروں پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی ہے؟
جب وقت اس نام نہاد جنگ کا آغاز ہوا تھا تو اس وقت امریکہ نے پاکستان کو
عدم تعاون پر پتھروں کے دور میں بھیجنے کی دھمکی دی تھی۔ آج گزشتہ دس سال
کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد سے ملک میں دو دفعہ طوفانی
بارشیں ہوئیں اور چھوٹے سیلاب ان سے ہونے والی تباہی، پھر ملک کے شمالی
حصوں میں قیامت خیز زلزلہ اور اس سے ہونے والے تباہی، جبکہ آئے روز کے بم
دھماکوں اور خود کش حملوں میں ہونے والی تباہی الگ ہے، اور اب موجودہ تباہ
کن سیلاب جس نے ملک کے ٨٠ فیصد حصے کو شدید متاثر کیا ہے اور لاکھوں ایکڑ
قابل کاشت زمین ناقابل کاشت ہوگئی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، ہزاروں
اپنی جان سے گئے، سوچیں کیا اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو کیا اس سے
زیادہ نقصان ہوتا۔؟ اور بھارت اور ایران نے امریکہ کو اڈے فراہم نہیں کئے
تو کیا وہ پتھر کے دور میں پہنچ گئے؟ سوچیں کہ کہیں یہ اللہ کی جانب سے
اشارے تو نہیں ہیں کہ اب بھی سنبھل جاؤ ورنہ اس کے بعد مہلت نہ ملے گی۔
اور آخری بات کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر کہہ رہے ہیں کہ کہ غیرت
کی تو حد ہوتی ہے لیکن بے غیرتی کی کوئی حد نہیں ہوتی، عزت کی تو ایک حد
ہوتی ہے لیکن ذلت کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، بلندی کی تو ایک حد ہوسکتی ہے
لیکن پستی کی کوئی حد نہیں ہوتی اور جب کوئی انسان یا گروہ یا قوم ایک بار
ذلت کے ساتھ سمجھوتہ کر لے، بے غیرتی کے ساتھ جینا شروع کردے اور پستی کے
سفر کا آغاز ہوجائے تو پھر اس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ہے اور مثال آپ کے
سامنے ہے کہ کہاں تو امریکہ ہم سے اڈے مانگتا تھا، پھر ہمارے کمانڈو صدر نے
ایک فون پر ڈھیر ہو کر ان کے مطالبات مانے یعنی ایک دفعہ ہمارے ذلت اور
پستی جو سفر شروع ہوا وہ اب نیٹو افراج کی کاروائی تک پہنچا ہے اور اگر اب
بھی نہ سنبھلے تو پھر تیار رہیں میرے منہ میں خاک اس خبر کے لئے کہ بھارتی
طیاروں نے واہگہ اور سیال کوٹ باؤنڈری پر پاکستانی حدود میں گھس کر بمباری
کی اور واپس چلے گئے۔ |