سبق آموز انسانی تاریخ

انسان ہزاروں سال سے دنیا میں آباد ہیں اور تاریخ قوموں کے عروج وزوال کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ مورخین نے مختلف انداز میں قوموں کی تاریخ اور ان کے عروج و زوال کی وجوہات بیان کی ہیں۔ آئیے آج ہم اس بارے میں جاننے کے لیے قرآن کے حکم کے مطابق تاریخ الہیٰ کے کچھ صفحات الٹتے ہیں اور اس آئینے میں مختصراً اپنے دور کا چہرہ دیکھتے ہیں۔

سورة إبراهيم ( 14 )
۔۔۔وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللهِ {5}
اور انہیں تاریخِ الہیٰ کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر۔

آج دنیا میں طاقتور قوموں کے منصوبوں کا بڑا شور برپا ہے اور اس کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ انسانیت دبی اور مرغوب ہوئی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ کوئی نئی بات نہیں تاریخ اس کی گواہ ہے کہ چڑھتے سورج کی پوجا یونہی ہوتی آئی ہے اور جب بھی کسی طاقتور نے کوئی منصوبہ بنایا تو اس کے منصوبے کی تعریف و توصیف کا واویلا مچ گیا اور ہر طرح سے اسے صحیح ثابت کیا گیا۔ ہمارے دور کی طاقتوں کی تو عمر ہی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، تاریخ میں تو ایسی ایسی طاقتور قومیں گزری ہیں کہ جن کی طاقت کو کئی کئی صدیوں تک زوال نہ آیا اور جن کو اپنے اپنے وقت میں چیلنج کرنے والا کوئی نہ تھا۔ کچھ تو ایسے بھی گزرے ہیں جن کے بارے میں خود قرآن نے کہا کہ

سورة الفجر ( 89 )
الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ {8}
جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی۔

اور جنہوں نے خود یہ کہا کہ مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً (کون ہے ہم سے زیادہ طاقتور) اور قرآن کا جواب بھی دیکھ لیجیے۔

سورة فصلت (41)
فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ {15}
عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے “کون ہے ہم سے زیادہ زور آور” اُنکو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے؟ وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے۔

پیدا کرنے والا بے شک زیادہ طاقتور ہے اور اس کے سامنے کسی فرد یا قوم کی طاقت کی کیا حیثیت:

حقیقت یہ ہے کہ غافل انسان سمجھتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں کے منصوبے چل رہے ہیں حالانکہ دنیا میں بس ایک ہی منصوبہ پر عمل در آمد ہو رہا ہے جو کائنات کے فرمانروا کا منصوبہ ہے جو اپنی بادشاہی، منصوبوں اور فیصلوں میں کسی کو شریک نہیں کرتا :

سورة الفرقان ( 25 )
۔۔۔وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ ۔۔۔ {2}
جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے۔

سورة الكهف ( 18 )
۔۔۔ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا {26}
اور وہ اپنے فیصلوں (اور حکومت) میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔

اور اپنی حکومت کے لیے اُس نے مستقل طریقہ کار متعین کر رکھے ہیں جنہیں بدلنے والا کوئی نہیں:

سورة فاطر ( 35 )
۔۔۔ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِيلًا {43} أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعْجِزَهُ مِن شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا {44}
اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے ؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اُس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔ کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان سے بہت زیادہ طاقت ور تھے؟ اللہ کو کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں ہے، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

ہم بھی رب کائنات کےاسی منصوبے کا حصہ ہیں۔ حق و باطل کی ساری کشمکش اللہ کی مشیت سے ہے اور اہل جنت و اہل جہنم کو چھانٹنے کے لیے دنیا میں یہ کشمکش اللہ کو مطلوب ہے، یہی کھرے کھوٹے کو پرکھنے کی کسوٹی ہے اور اسی میں ہم سب کی آزمائش ہو رہی ہے کہ ہم اس منصوبہ کے مثبت پہلو والے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں یا منفی میں۔ اسی چند سالہ مہلت عمر میں نادان لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں کی پلاننگ چل رہی ہے لہٰذا ایسا طریقہ اختیار کرو اور وہ کام کرو جس سے طاقتور انسان یا قوم خوش ہو سکیں اور یوں ہم نقصان سے بچ جائیں، فائدہ اٹھائیں اور عزت پائیں۔ یہی لوگ اس ناسمجھی کے باعث اس آزمائش میں ناکام ہوتے ہیں اور دنیا اور آخرت دونوں برباد کرتے ہیں کیونکہ اللہ کو ناراض کر کے انسانوں کو راضی کرنے میں نہ تو دنیا میں فائدہ اورعزت ہے نہ ہی آخرت میں کامیابی۔ کتنے سکون سے ہم اپنے وطن میں جیتے تھے اور آج اپنے ملکی حالات کے تناظر میں دیکھ لیجیے، ہماری کیا حالت ہے، دنیا میں ہماری کیا عزت ہے اور قوموں کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں:

سورة يونس ( 10 )
وَإِن يَمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِهِ ۔۔۔ {107}
اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈال دے تو خود اُس کے سواکوئی نہیں جو اُس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

سورة آل عمران ( 3 )
۔۔۔ وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ {26}
خدایا تو جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

سورة الحج ( 22 )
وَمَن يُهِنِ اللهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ إِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاء {18}
اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اُسے پھر کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔

آئیے ہم آپ کو چند مثالیں دے کر ایک سچے مورخ کا پیش کردہ تصویر کا ایک دوسرا رخ دکھائیں جہاں اللہ کا منصوبہ کارفرما نظر آتا ہے جس میں انسان اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی چال چلتا ہے اور بے شک غالب تو اللہ ہی کی چال ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:

سورة آل عمران ( 3 )
وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ {54}
اور انھوں نے چالیں چلیں۔ جواب میں اللہ نے بھی اپنی چال چلی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔

سورة فاطر ( 35 )
۔۔۔ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۔۔۔ {43}
اور بری برُی چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔

سورة الأنعام ( 6 )
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجَرِمِيهَا لِيَمْكُرُواْ فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ {123}
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکرو فریب کا جال پھیلائیں۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر انھیں اس کا شعور نہیں ہے۔

اب تاریخ الہیٰ اور اللہ کا طریقہ کار دیکھیے:

فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرواتا تھا تاکہ موسیٰ علیہ السلام سے بچ سکے لیکن اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو اس کے گھر میں پرورش کروایا اور آخر وہی ہو کر رہا جو اللہ کی سکیم میں طے تھا اور فرعون اسے ہونے سے ٹال نہ سکا اور کچھ نہ کر سکا۔ وہ جس سے ٹکرانے کی اُس دور میں کسی میں ہمت نہ تھی اپنی ساری فوجوں کو لے کر نکلا کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو تہس نہس کر دے۔ مگر کیا ہوا؟ کیا اُس کا ساتھ دینے والے مفاد پرستوں نے وہ انجام سوچا تھا جو سامنے آیا؟ جنہوں نے فرعون کا ساتھ دیا وہ دنیا میں بھی غرق ہوئے اور آخرت میں بھی اپنا سب کچھ برباد کر لیا اور اب وہ فاسق لوگ قرآن کے مطابق صبح شام آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔

یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا، قافلے والوں نے کائنات کے حسن کو چند روپوں میں فروخت کر دیا، کیسے جھوٹے الزامات لگا کر آپ کو جیل بھیج دیا گیا لیکن کیا ہوا؟ اللہ نے ان کے خلاف کیے گئے تمام اقدامات کو ہی ان کی سربلندی اور رفعت کا ذریعہ بنا دیا اور آپ کے مخالفوں کے حصے میں ندامت اور شرمندگی کے سوا کچھ نہ آیا۔ اور جو رفعتیں اللہ نے آپ کے مقدر میں لکھی تھیں آپ کو مل کر رہیں۔

جناب ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و صلم کو جب مکے سے ہجرت پر مجبور کر دیا گیا اور آپ کو قتل کرنے کے ناپاک منصوبے بنائے گئے۔ ‏غار ثور میں پناہ لینے والے مہاجر صلی اللہ علیہ و صلم کو تصور میں لائیے۔ اس وقت کس نے سوچا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و صلم تھوڑے ہی عرصے میں فاتح مکہ کی حیثیت میں مکہ میں داخل ہوں گے اور چند ہی سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ و صلم کی دعوت صرف عرب میں نہیں بلکہ دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچ جائے گی۔ روم اور ایران زیر نگیں ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔؟

اب اپنے دور پر ایک نگاہ ڈالیے۔ کل ہی کی بات ہے سوویت یونین اففانستان میں کیا سپنے لے کر آیا تھا اور اُن دنوں اُس کے حامیوں نے کیا کیا راگ الاپے تھے۔ جب ٹوٹ بکھر کر واپس ہوا تو اس کی فوج کے ایک جرنیل کے الفاظ یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ جب اس نے جاتے وقت یہ کہا تھا۔
"مجھے سمجھ نہیں آتی ہم یہاں کیا لینے آئے تھے۔"
حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اللہ کی سکیم کے مطابق وہ وہاں لائے گئے تھے۔

آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اللہ کا منصوبہ چل رہا ہے۔ اب وہیں کوئی اور لایا گیا ہے۔ ہمیں تو یہ نظر آتا ہے کہ وہ جن سے دنیا میں کوئی ٹکرانے کی ہمت نہیں کرتا اور جنہوں نے پتھر کے زمانے کا نام لے کر ایٹمی طاقت کے سربراہ کو گھٹنوں کے بل جھکا دیا۔ اللہ انہی کو ان کے گھروں سے اٹھا کر وہاں لے آیا جہاں کچھ ایسے لوگ رہتے تھے جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہ تھا اور جن کے ہاں کامیابی کے معیار بہت مختلف ہیں۔

سورة البقرة ( 2 )
۔۔۔كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ وَاللهُ مَعَ الصَّابِرِينَ {249}
بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگيا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔

وہ جو پہنچ سے بہت دور دنیا کے دوسرے کونے میں بستے تھے ان کے تھنک ٹینکس پر اللہ نے ایسے پردے ڈالے کہ دنیا کے خطرناک ترین میدان جنگ میں خود ہی آ پہنچے جس کی تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ جہاں آنا تو بہت آسان رہا ہے لیکن واپسی تک بہت زیادہ قیمت دینی پڑتی ہیں۔ کیا یہ اللہ کی چال نہیں؟

سورة الحشر ( 59 )
هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ ۔۔۔{2}
وہی ہے جو اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے نکال لایا۔

اپنا سب کچھ ڈبو دینے والے 'زیرک' مہربانوں کا سہارا نہ ہوتا تو غیروں کی یہ ڈوبتی ناؤ اپنے انجام کو پہنچ ہی چکی ہوتی۔ لیکن یہاں تو جتنا عرصہ زیادہ قیام فرمائیں گے نقصان جناب ہی کا زیادہ ہوگا۔ شاید یہ بھی اللہ ہی کی چال کا حصہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ اسی میں ہماری آزمائش ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ کچھ حکومتیں صرف ٹی وی پر ہی ہیں جبکہ زمین پر حقیقت کچھ اور ہے۔ اور ایک وقت یقیناً ایسا آنے والا ہے کہ کوئی جرنیل ایک بار پھر جاتے وقت یہی الفاظ دہرائے گا:
"مجھے سمجھ نہیں آتی ہم یہاں کیا لینے آئے تھے۔"

ہمیں تو تاریخ الہیٰ یہی پیغام دیتی ہے کہ بےشک ایسی کوئی طاقت موجود نہیں جو اللہ کی سنت کو اس کے مقرر کردہ راستوں سے پھیر سکے اور فیصلہ کن چال اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے:

سورة الرعد ( 13 )
وَاللهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ {41}وَقَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلِلّهِ الْمَكْرُ جَمِيعًا يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ وَسَيَعْلَمُ الْكُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ {42}
اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے اور اُسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ اِن سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں، مگر اصل فیصلہ کُن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرینِ حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے۔

سورة القصص ( 28 )
وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ {58}
اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اِترا گئے تھے۔ سو دیکھ لو، وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں اُن کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے، آخرکار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 49162 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.